اُمت کا اثاثہ… عبدالغفار عزیز

817

عبدالغفار عزیز کے انتقال کو 2 سال گزر گئے۔ وہ نہ صرف پاکستان کے بلکہ پوری اُمت مسلمہ کے لیے ایک اثاثہ تھے، ایک عظیم رہنما اور مدبر جن کی پوری زندگی تحریک اسلامی کے لیے جدوجہد میں گزری۔ وہ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے خاص طور سے عربی اہل زبان کی طرح بولتے تھے۔ جماعت اسلامی کے شعبہ امور خارجہ کے نگراں تھے بین الاقوامی سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کرتے تھے اور جماعت اسلامی ہی نہیں پاکستان کی نمائندگی کا بھی حق ادا کرتے، ان کے پوری دنیا میں امت کے رہنمائوں سے برادرانہ تعلقات تھے۔ وہ اسلامی تحریکوں کے درمیان رابطے کا پل تھے۔ انہیں ہر کوئی جانتا تھا۔ ہر ایک کے دل میں اُن کے لیے عزت و احترام تھا۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے رہنما ان کے مداح تھے۔ اگر کسی وجہ سے کسی عالمی سیمینار میں نہیں پہنچ پاتے تو لوگ اُن کے بارے میں سوال کرتے، حال پوچھتے اور سلام بھجواتے۔ سچ یہ ہے کہ ان کی رخصتی ایک ایسے فرد کی رخصتی تھی کہ جو ڈھونڈے سے ملنے والا نہیں۔ یہ حقیقت میں امت مسلمہ کا نقصان تھا اور ہے۔ اُن کے باعث جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی کے باعث پاکستان دنیا بھر کے برادر اسلامی ملکوں اور تحریکوں سے جڑا تھا۔ صرف جڑا نہیں بلکہ مضبوط اور مربوط رابطے میں تھا۔ نقصان پُر ہونا تو ممکن نہیں لیکن ان کے صاحبزادے اور دیگر نوجوانوں کو اُسی نہج پر تربیت دینی ہوگی کہ ابھی سفر کٹھن ہے اور منزل آنکھوں اور دل میں بسی ہے۔ اگرچہ وراثتی سیاست جماعت کی سرشت میں ہے نہ اسلام کی لیکن معاملہ اُس علمی وراثت، تعلیم اور تربیت کا ہے جو بحیثیت ایک مربی جوانوں نے حاصل کی اور کرتے ہیں۔ آج کہا جاتا ہے کہ دنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جدید سائنس نے دنیا کے ممالک کو اتنا قریب کردیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوئے بھی الگ نہیں ہیں۔ مختلف ملکوں اور قوموں کے لوگ ضرورت کے وقت ایک دوسرے سے یوں جڑ جاتے ہیں کہ ایک محلے میں بسنے والے بھی اپنے اپنے گھروں سے نکل کر باہر گلی میں جمع نہیں ہوتے ہیں۔ اس میل ملاپ اور قربت کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ملکوں اور قوموں میں محبت، یگانگت، خیرخواہی اور تعاون کے جذبات پیدا ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے۔ آج ملک اور اقوام دور جہالت کی طرح ایک دوسرے کی جانی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ جدید سائنس نے محبت اور مروت کے جذبات کو کچل کر ذاتی فائدے تک محدود کردیا ہے۔ وہ کورونا کے دور میں رخصت ہوئے۔ ایسے میں امت اور انسانیت کا درد دل میں رکھنے والے عبدالغفار عزیز جیسے شخص کی جدائی اور زیادہ محسوس ہوئی اور ساتھ ہی یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ ہر وہ فرد جو دین کے لیے اخلاص نیت اور درد مندی رکھتا ہے اور دین حق کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے اُسے چاہیے کہ اپنے جیسے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کی تربیت کا کام باریک بینی اور محبت و اخلاص سے کرتا ہے۔ اور کرنے والے کررہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ دین کا کام ہو یا دین کا کرنے کی توفیق دینے والا تو رب حقیقی ہی ہے، البتہ کوشش کرنا مطلوب ہے۔ آج پاکستان ہو یا پوری دنیا سب میں بے شمار جماعتیں ہیں جن کی قیادت کے لیے یا رکنیت کے لیے صرف کسی خاص قوم ملک یا نسل میں پیدا ہونا کافی سمجھا جاتا ہے اور سیرت و کردار اور اخلاق کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور پوری دنیا میں سیاسی رہنمائوں کے خلاف آئے دن کوئی نہ کوئی اسکینڈل اور خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی میں رکنیت کے لیے جو چیز دیکھی جاتی ہے، امانت، دیانت، اخلاص اور درد دل ہے وقتاً فوقتاً ان کی زندگیوں اور ذہنی سمت کی درستی کا جائزہ بھی لیا جاتا رہتا ہے۔ طریقہ کاررکنیت کے لیے طویل ہے، باریک بین ہے لیکن یہ اس لیے اپنایا گیا ہے کہ جماعت اسلامی کو ارکان جماعت کی قلت یا کثرت سے بحث نہیں ہے۔ بلکہ کردار سیرت اخلاص اور اخلاق کی قلت اور کثرت پر توجہ ہے۔ لہٰذا اہم یہ ہے کہ ہر مقام کے لیے ایسے پختہ کار افراد میسر آجائیں جو قابل اعتماد طریقے سے تحریک کو آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دیں۔
عبدالغفار عزیز نے لمحہ لمحہ امت کی پاسداری اور تربیت کا فریضہ انجام دیا جب بھی بیسویں صدی کی معروف شخصیات کا تعارف کرایا جائے گا خاص طور سے وہ جنہوں نے امت کو پیش آنے والے خطرات کا ادراک کیا اور اُس کے لیے نظریاتی اور علمی جنگ لڑی تو عبدالغفار عزیز اُن میں شامل ہوں گے۔ اللہ ان کو حشر میں صلحا اور شہدا کے ساتھ اُٹھائے (آمین)۔