بلند مقام، بلند قامت… علامہ یوسف القرضاویؒ

654

آخری حصہ
انہوں نے غاصب اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد کی بھرپور انداز میں حمایت کی اور اسے جائز قرار دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف خودکش حملوں کو بھی جائز قرار دیا، اگرچہ اْن کے اس فتویٰ کو بعض علمی حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ علامہ القرضاویؒ خودکْش حملوں کو علی الاطلاق جائز قرار نہیں دیتے تھے، بلکہ اُن کا یہ جواز صرف سرزمینِ فلسطین کی حد تک تھا، جہاں اہلِ فلسطین کے لیے اپنے دفاع کا دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
ڈاکٹر القرضاویؒ کی تصانیف کی تعداد 200 تک ہے۔ ان میں سے بہت سی کتب کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے۔ ان کی ابتدائی تصانیف میں الحلال والحرام فی الاسلام اور فقہ الزکاۃ (اردو ترجمہ اسلام میں حلال و حرام، جناب شمس پیر زادہ، اسلامک پبلی کیشنز لاہور) کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ علاوہ ازیں ان کی دیگر اہم تصنیفات میں فقہ الطہارہ، فقہ الصلاۃ، فقہ الجہاد، من فقہ الدولۃ فی الاسلام، فی فقہ الاقلیات المسلم، العباد فی الاسلام، کیف نتعامل مع القرآن العظیم، کیف نتعامل مع السن النبویؒ، مشکل الفقر وکیف عالجہا الاسلام، البصر فی الاسلام (اُردو ترجمہ مولانا محمد جرجیس کریمی)، ظاہر الغلو فی التکفیر، القدس قضی کل مسلم، السیاسۃ الشرعی فی ضو نصوص الشریعۃ، الصحوۃ الاسلامیۃ من المراھقۃ الی الرشد، الوقت فی حیاۃ المسلم (اردو ترجمہ ’’وقت کی اہمیت‘‘، از مولانا عبدالحلیم فلاحی، ناشر مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی) اور التربیۃ الاسلامیۃ و مدرسۃ حسن البناء(اردو ترجمہ ’’اخوان المسلمون کا تربیتی نظام‘‘، از ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی ادارہ مطبوعات طلبہ، لاہور) قابلِ ذکر ہیں۔ انہوں نے عصری مسائل پر بہت بڑی تعداد میں فتاویٰ بھی جاری کیے، جنہیں علمی حلقوں میں خاصی پزیرائی حاصل ہوئی۔ اُن کا مجموعہ فتاویٰ ’’فتاویٰ معاصر‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ان میں سے کچھ منتخب فتاویٰ کا اُردو ترجمہ سید زاہد اصغر فلاحی نے کیا، جو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے دو حصوں میں شائع ہوا اور لاہور سے البدر پبلی کیشنز نے شائع کیا۔ علاوہ ازیں سودی بینکاری نظام سے متعلق علامہ القرضاویؒ کے ایک طویل انٹرویو کا اُردو ترجمہ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کے رشحاتِ قلم سے سہ ماہی ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘ علی گڑھ (اکتوبر۔ دسمبر 1989ء) میں ’’بینک کا سود‘‘ کے عنوان شائع ہوا جسے بعد ازیں انڈین ایسوسی ایشن فار اسلامک اکنامکس (بنگلور) نے کتابچہ کی صورت میں شائع کیا۔ مذکورہ انٹرویو میں ڈاکٹر القرضاویؒ نے دلائل کیساتھ ثابت کیا کہ انٹرسٹ (سود) کی تمام صورتیں بشمول بینک انٹرسٹ مطلقاً حرام ہے اور اس پر تمام علماء کا اجماع ہے۔
1994ء میں علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاویؒ کو علومِ اسلامیہ و دینیہ کے حوالے سے اْن کی شاندار خدمات کے اعتراف کے طور پر سعودی عرب کے مؤقر اعزاز’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ متحدہ عرب امارات حکومت کی جانب سے بھی انہیں وہاں کا سب سے بڑا ایوارڈ تفویض کیا گیا۔ تاہم بعد میں بد قسمتی سے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسرائیل نوازی کے باعث ان ممالک کے حکمرانوں کی تیار کردہ دہشت گردوں کی فہرست میں علامہ القرضاویؒ کا نام بھی شامل کردیا گیا۔
شیخ قرضاویؒ کے دروس و خطابات کی ویڈیوز دنیا بھر میں عام اور ان سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ دنیا بھر میں ان کے شاگرد بڑی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے عقیدت مندوں نے ’’تلامیذ القرضاوی‘‘ کے نام سے ایک بین الاقوامی فورم بھی بنارکھا ہے، جس کے تحت مختلف ممالک میں پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان کی ذات اور خدمات کے حوالے سے سیکڑوں مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
علامہ القرضاویؒ کو جماعت ِ اسلامی سے خاص لگاؤ اور اُنس تھا۔ آپ جماعت کی دینی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے خصوصی محبت اور تعلق کی بناء پر انہوں نے مولانا کی خدمات اور افکار پر ایک کتاب بھی تصنیف کی، جس کا اُردو ترجمہ سیدابوالاعلیٰ سبحانی نے کیا اور یہ کتاب پاک و ہند ہر دو جگہوں سے شائع ہوئی۔ پاکستان میں ادارہ منشورات لاہورنے شائع کیا۔ جماعت ِ اسلامی کے اکابرین سے اُن کے خصوصی اور ہمیشہ خوشگوار تعلقات رہے۔ جماعت کے اکابر جب بھی قطر تشریف لے جاتے تو علامہ القرضاویؒ سے ضرور ملاقات کرتے۔
علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاویؒ اس دارِ فانی سے کْوچ فرماکر اپنے خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔ شیخ القرضاویؒ جس پایہ کے مفکر، مجتہد اور علومِ دینیہ پر دسترس رکھنے والے شہرہ آفاق عالم اور بزرگ تھے، قوی اُمید ہے کہ مستقبل میں اُن کی ذات، اُن کے افکارو تعلیمات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور تجزیہ کیا جائے گا۔ اِن شاء اللہ!
مرحوم کا مشن جاری رہے گا۔ اُن کے لاتعداد شاگرد اور وہ لوگ جن کی ذہن سازی اور علمی آبیاری اُن کی تقریروں اور تحریروں نے کی، وہ اِس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی جوارِ رحمت میں خصوصی جگہ عطا فرمائے، ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے، اُن کے مرقد کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادے۔