پاکستان بری طرح سیلاب سے متاثر ہے۔ لوگ اسے حکمرانوں کی نااہلی قرار دیتے ہیںاور انتونیوگوتریس ترقی یافتہ دنیا کی یہ بالکل درست ہے کہ ہمیں جو حکمراں ملے نااہل، بدانتظام اور بدعنوان ملے۔ کچھ تو چوری چھپے کرپشن کرتے ہیں پکڑے جاتے ہیں، کچھ کھلے عام کرتے ہیں پھر بھی نہیں پکڑے جاتے اور کچھ اس صفائی سے کام کرتے ہیں کہ بقول کلیم عاجز
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
واقعی 75 برس میں ان کرامات کرنے والوں کے دامن پر کوئی چھینٹ ہے نہ ان کے خنجر پہ کوئی داغ۔ یہ تو پاکستان کی بات تھی لیکن یورپ جس نے برصغیر، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا، افریقا ہر جگہ فساد کے بیج بوئے تھے اس کے دامن پر بھی کوئی چھینٹ اور خنجر پر کوئی داغ نہیں تھا۔ لیکن قدرت کے آگے کس کی چلی ہے۔ دنیا کے خالق نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر ہم ایک سے دوسرے کو ہٹاتے نہ رہتے تو دنیا فساد سے بھر جاتی اور اللہ نے ایسا ہی کیا۔ اب تک ہم تیسری دنیا ایشیا برصغیر، مشرق وسطیٰ اور افریقا کے ممالک کو سمجھتے تھے بلکہ ہمیں یہی سمجھایا گیا تھا۔ لیکن چند برس قبل یعنی 2019ء میں کورونا وائرس ڈیزیز (کووڈ 19) نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ پوری دنیا کی معیشت ہل کر رہ گئی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی پشت پر ڈیپ اسٹیٹ ہے یقینا ہوگی۔ لیکن کس کی اجازت سے اس نے کارروائی کی، یہ بات ایک مسلمان کو سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ دنیا اور اس کائنات میں کوئی حرکت بھی ہوتی ہے تو اُس کے حکم سے ہوتی ہے جسے اونگھ آتی ہے نہ نیند، جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اس کا ہے چناں چہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کووڈ کا شکار ہوگئی۔ جتنا شکار ہوئی اس سے زیادہ خوفزدہ کردیا گیا۔ دل، دماغ، بلڈ پریشر، فالج اور دیگر مہلک امراض کی بھاری ہلاکتیں گنی ہی نہیں گئیں پوری طاقت لگادی گئی کہ جو ہلاک ہو اسے کووڈ کا مریض قرار دیا جائے اور پوری دنیا کو یقین آگیا کہ ہم کووڈ سے مرجائیں گے پھر نیا حکم آیا کہ پابندیاں لگائو۔ لاک ڈائون کرو۔ کام بند کرو۔ اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، مسجدیں پارک، بازار سب بند کرو۔ لوگوں کو ملنے جلنے نہ دو سب کو ایک ایک الگ اکائی بنادو اور موت۔ جس کے برحق ہونے میں کوئی ملحد بھی شبہہ نہیں کرسکتا اس کے خوف سے لوگ یہ سب کام کرنے پر مجبور ہوگئے۔
کووڈ 19 نے دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں کی چولیں ہلا ڈالیں لیکن ابھی کام پورا نہیں ہوا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے تو یہ کووڈ پارٹی کا آغاز تھا۔ دو سال کووڈ بھگتانے کے بعد ابھی دنیا نے سانس لینا شروع کیا تھا کہ روس یوکرین جنگ کے بادل منڈلانے لگے درمیان کے عرصے میں پٹرول کی قیمتیں زمین سے بھی نیچے چلی گئیں کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک بھی گھٹنوں پر آگئے اور پھر نیا حربہ سامنے آگیا روس نے یوکرین پر حملہ کردیا کیونکہ یوکرین ناٹو میں شامل ہونے جارہا تھا لیکن یوکرین کو ناٹو میں شامل کرنا دنیا کے لیے کیوں ضروری تھا۔ یہ بات بھی دنیا کو بڑی آسانی سے سمجھادی گئی۔ یعنی امریکی اپنے بچوں کو ڈرانے کے لیے ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں کہ مانسٹر آجائے گا تم کو کھا جائے گا ہمارے بچوں سے کہا جاتا ہے کہ اللہ بابا آجائے گا یا کہا جاتا ہے کہ ہائو آجائے گا اور بچے ڈر جاتے ہیں۔ اس کامیاب حربے کو امریکیوں کے ذریعے دنیا پر نیا مانسٹر مسلط ہونے کا خوف پیدا کرکے یوں استعمال کیا کہ صدام نیا مانسٹر ہے۔ قذافی نیا مانسٹر ہے۔ ان سب سے بڑا القاعدہ ہے، اور اس کے بعد اس سے بھی بڑا مانسٹر داعش ہے۔ جب یہ سارے سودے بک گئے تو نئے انداز کے مانسٹر لائے گئے۔ کووڈ 19، پٹرولیم اور اب روس کا ہوا۔ تھوڑی سی یادداشت کھنگالیں 1960ء سے 90ء کے عشروں کے درمیان دنیا پر کون سا بھوت سوار تھا۔ سوویت یونین کا۔ سرخ آندھی ہے۔ جہاں جاتے ہیں واپس نہیں آتے یہ دنیا کو کھا جائیں گے۔ ہزاروں میل دور بیٹھے امریکیوں کے دل اس مانسٹر سے لرز رہے تھے اور پھر سرد جنگ کو گرم جنگ میں تبدیل کرنے کے لیے افغانستان کا میدان چنا گیا۔ وہ روس کا قبرستان بنا لیکن پھر امریکی وہاں گھس گئے اپنے کفن بھی چھوڑ کر بھاگ نکلے اور اب طالبان ان کے لیے مانسٹر ہیں۔
یہ سارے مانسٹرز اپنا کام کرچکے تو ایک بار پھر 1960ء سے 90ء کی دہائی کا مانسٹر نکل آیا کہ روس یوکرین کو کھا جائے گا یورپ کو کھا جائے گا اور یورپ کو یقین ہے کہ روس ہمیں کھانے آرہا ہے جس کا کھیل ہے وہ تو آرام سے بیٹھا ہے بہت دور ہے۔ لہٰذا روس کو مشتعل کرنے والے اقدامات شروع ہوگئے بالآخر روس نے یوکرین پر حملہ کردیا اس کے ساتھ ہی ’’یورپ کے تحفظ‘‘ کی خاطر امریکا نے روس پر پابندیاں عائد کردیں اسے کہتے ہیں شہد لگانا۔ اب یورپ کی معیشت کو جھٹکے لگنے کا کام شروع ہوتا ہے روس نے امریکی پابندیاں ہٹنے تک یورپ کو گیس کی فراہمی بند کردی۔ جس سے یورپ کو پہلا جھٹکا لگا۔ اسے عظیم مقصد کی خاطر قربانی سمجھ کر قبول کرلیا گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے حکمران قوم کو ریاست کے تقدس کی خاطر قربانیاں دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن روس کی گیس بند ہوتے ہی یورپ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ امریکا نے کہا کہ جنگ سے یورپ کی گیس کا تعلق نہیں جب کہ روس کا کہنا تھا کہ امریکا کا ہمارے اور یوکرین کے معاملات سے تعلق نہیں لہٰذا روس کے خلاف پابندیاں ختم ہونے تک یورپی یونین کو گیس کی فراہمی بند رہے گی۔ اس کے بعد دوسرا جھٹکا یہ لگا کہ متّل نے یورپ میں فولاد سازی کا پلانٹ بند کردیا۔ متّل دنیا کی دوسری بڑی فولاد ساز کمپنی ہے۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ صرف توانائی کی بھاری لاگت اور کوئی کاروباری کمپنی یا فرد نقصان میں کاروبار نہیں کرتا۔ چناں چہ متل کے فیصلے کے علاوہ جرمنی کی ٹوائلٹ پیپر بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہیکل دیوالیہ ہوگئی۔ اس طرح یورپ کی ایلومینیم انڈسٹری نے پیدوار میں 22 فی صد کمی کردی، یہ سب فیصلے توانائی کی بھاری لاگت کے نتیجے میں ہوئے اور ان میں سے بعض نے حکومتوں سے مدد طلب کی لیکن کووڈ اور پٹرولیم کے مارے حکمرانوں یا ملکوں میں اب اتنی سکت نہیں کہ اپنی معیشت میں طاقت کے انجکشن لگا سکیں۔ یورپ کی صورت حال تیزی سے اسے نئی ترقی یافتہ تیسری دنیا بنانے جارہی ہے ایک اندازے کے مطابق جرمنی کے تمام صنعتی ادارے اپنی پیداوار اگلے 6 ماہ میں دس فی صد کم کردیں گے اس کا اثر صرف جرمن معیشت پر نہیں پڑے گا پورا یورپ متاثر ہوگا۔ اب بجلی کے بلز اتنے بڑھ گئے ہیں۔ چھوٹے کاروبار والے اپنا کاروبار سمیٹ رہے ہیں انہیں چار ہزار سے دس ہزار یورو تک بجلی کا ماہانہ بل ادا کرنا پڑرہا تھا۔ جب کہ عام شہری کو پانچ سو یورو کا بل ادا کرنا ہوگا۔ چھوٹے کاروبار تو راتوں رات بند ہورہے ہیں۔ اس صورت حال کے نتیجے میں سیکڑوں چھوٹی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہوجائیں گی۔ بینکوں کے قرضے پھنس جائیں گے۔ بیروزگاری بڑھ جائے گی اور لاکھوں، لوگ بے گھر ہو جائیں گے اس کے نتیجے میں احتجاج، مظاہرے اور ہنگامے بھی ہوسکتے ہیں۔m