بن وہ گئے جن کا کچھ نہیں بگڑا

558

ابھی بارش کا پہلا سلسلہ بھی پوری طرح دراز نہیں ہوا تھا کہ پھل سبزیوں کے نرخوں کے تیر آسمان کی جانب سیدھے ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کچھ ہی دنوں بعد جب بارشوں نے طوفانی شکل اختیار کرنا شروع کی تو ہر گھنٹے بعد بازار میں سبزیوں پھلوں کا نرخ اتنی تیز رفتار سے بڑھنے لگا کہ الاماں الحفیظ۔ میں نے سبزی اور پھل فروشوں سے دریافت کیا تو جواب یہ ملا کہ طلب اور رسد کا توازن بہت بگڑ گیا ہے۔ میں نے کہا کہ ایک طویل عرصے سے میں اسی بازار میں سبزیاں اور پھل خریدتا آیا ہوں اور ان بارشوں کے زمانے میں بھی روز بازار آ رہا ہوں لیکن میں نے نہ تو پھلوں کی انبار میں کسی قسم کی کوئی کمی دیکھی اور نہ ہی سبزیوں میں۔ جواب ملا کہ آپ کو سبزی منڈیوں کا حال نہیں معلوم۔ وہاں تو ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ سبزیاں اور پھل لانے والے ٹرکوں کا یہی کہنا ہے کہ کئی مقامات سے راستے مسدود ہونے کی وجہ سے سامان کا حصول اور ترسیل بری طرح متاثر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے گراں قیمت پر ضروری اشیا خریدنا پڑ رہی ہیں۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب بارشوں نے ایسی صورتِ حال اختیار نہیں کی تھی کہ ندی، نالوں یا دریاؤں میں سیلابی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہو۔ مہینے سے زیادہ شدید بارشوں کے سبب اور عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں گلیشیر پگھلنے کی وجہ سے دریاؤں پر پانی کا اچانک اتنا دباؤ پڑا کہ وہ بپھر اٹھے اور انہوں نے نہ صرف اپنے راستوں میں قبضہ کی گئی زمینوں کو وا گزار کرالیا بلکہ ارد گرد کی آبادیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، تباہی و بربادی کے اگر ان تمام مناظر پر نظر ڈالی جائے تو یقین نہیں آتا کہ وہ تمام کے تمام پرسکون انداز میں بہنے والے دریا جن کی لہراتی بل کھاتی موجیں اتنی خوفناک بھی ہو سکتی ہیں کہ بڑی بڑی مضبوط، عالی شان اور خوبصورت عمارتوں کو تنکوں کی طرح بہا لے جائیں گی۔ یہ حال تو ان مقامات کا تھا جہاں سیاح حسین مناظر سے پُر لطف ہونے اور زندگی میں رنگ پھرنے کے لیے جایا کرتے تھے، کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ جل ترنگ کرتے دریا جنگ جیسے خوفناک نقارے بھی برپا کر سکتے ہیں۔ جب ان ہی دریاؤں کا بپھرا ہوا پانی بڑے بڑے دریاؤں میں آکر گرنا شروع ہوا تو ان کی موجوں کی طغیانی میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ ایک جانب آسمان سے برسنے والا پانی تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا تو دوسری جانب دریاؤں کا مزاج ہر آنے والے دنوں کے ساتھ بگڑتا جا رہا تھا۔ ابھی میدانی علاقوں سے بہنے والے دریا بندوں سے چھلکنے کی مرحلوں سے کافی دور تھے اور کسی کو اس بات کی کوئی توقع نہیں نہیں تھی کہ وہ صبر و ضبط کے سارے بندھن توڑ کر کھیتوں کھلیانوں اور آبادیوں پر موت بن کر پھوٹ بہیں گے کہ بازاروں میں ساری سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں تھیں اور ہر سبزی اور پھل فروش کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ طلب اور رسد کا توازن بری طرح بگڑ جانے کی وجہ سے ہر جانب منہ مانگے دام مانگے جا رہے ہیں۔
پھر ایک دور وہ بھی آیا جب ندیوں، نالوں اور دریاؤں نے اپنی مقررہ حدود کو پامال کرنا شروع کردیا اور پورے پاکستان میں وہ تباہی پھیرنا شروع کردی کہ کھیتوں، کھلیانوں اور آبادیوں کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ اس سیلابی ریلے کی وجہ سے پہلی بار سارے زمینی راستے متاثر ہو کر رہ گئے اور اسی کے ساتھ قیمتوں کی بلندیوں نے کوہِ ہمالیہ کو شرمندہ کرنا شروع کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی صورت حال میں طلب اور رسد کا توازن شدید طریقے سے متاثر ہوتا ہے۔ جب میلوں رقبوں پر پھیلے کھیت اور ان پر لگی فصل پانی اور مٹی میں مل جائے تو غذائی قلت کا پیدا ہو جانا انہونی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ایسی صورتِ حال میں اجناس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو ہی جایا کرتا ہے لیکن کیا پاکستان میں سبزیوں پھلوں سے لیکر ساری اشیائے خورو نوش کی رسد میں واقعی اتنا عدم توازن پیدا ہو گیا تھا کہ راتوں رات کھانے پینے کی اشیا سے لیکر پہنے، اوڑھنے اور برتنے کی ساری اشیا کی ترسیل کا توازن بگڑ کر رہ گیا ہو؟۔
اہم ترین بات جس کی جانب میں ہر قاری کی توجہ دلانا چاہتا ہوں گا وہ یہ کہ پورا پاکستان اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے بلحاظِ رقم، کھرب ہا کھرب کا نقصان ہوا ہے۔ مزید برآں خوبصورت اور مضبوط ترین عمارتوں سے لیکر کچے مکانات تک لاکھوں کی تعداد میں تباہ و برباد ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد جان بحق ہوئے ہیں اور تین کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں مویشی مارے گئے ہیں۔ گھروں کے سامان کیچڑ پانی بن کر رہ گئے ہیں اور نہ معلوم کتنے ہزار میلوں پر مشتمل کھیتوں میں کھڑی فصلیں تباہ ہو کر رہ گئی ہیں۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے نقصانات تو شمالی و تفریحی مقامات سے لیکر بلوچستان، خیبر پختون خوا، پنجاب اور سندھ کے ان لوگوں کے ہیں جن کی اعلیٰ عمارتیں، ہوٹلز، کچے پکے مکانات، مویشی، اور کھڑی فصلیں دو کوڑیوں کی بھی ہوکر نہیں رہ گئیں لیکن اس تباہی و بربادی کو جواز بنا کر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرکے منافع وہ سمیٹ رہے ہیں جن کو اس زمین پر ایک دھیلے کا بھی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔ کیا یہ اپنی اپنی دکانوں، اسٹوروں اور گوداموں میں پہلے سے پرانی قیمتوں پر خرید کیے گئے مال کی زیادہ قیمت وصول کرنے کے بعد اضافی رقم ان تباہ حال انسانوں تک پہنچائیں گے یا اپنے اپنے عیش و آرام میں مزید اضافہ کریں گے۔ دعا یہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ ان منافع خوروں اور بہانے بازوں کو ہدایت دے۔ (آمین)