گندم کے نرخ میں اضافہ کس کے لیے؟؟

718

سندھ کی کابینہ نے مکمل بحث کے بعد گندم کی فصل 2022-23 کے لیے چار ہزار روپے 40 کلو، کی بوری کی امدادی قیمت مقرر کرنے کا فیصلہ کر ڈالا ہے۔ واضح رہے کہ رواں سیزن کے دوران فی من گندم کی امدادی قیمت دو ہزار دو سو روپے مقرر کی گئی تھی اب اس میں ایک ہزار 800 روپے یعنی 82 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ دو برس قبل فی من گندم کی امدادی قیمت صرف ایک ہزار روپے تھی۔ اس طرح صرف تین برس میں گندم کی امدادی قیمت میں 185 فی صد سے بھی زائد کے اضافے سے غربا کے منہ کے نوالے چھیننے کا ظالمانہ عمل ہی قرار پائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اجلاس کو بتایا کہ 9000 روپے فی سو کلو گرام کے حساب سے صوبائی حکومت درآمدی گندم خریدتی ہے جس کا مطلب ہے کہ دوسرے ممالک کے کاشت کاروں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ہم بہتر قیمت کا فائدہ اپنے صوبہ کے کاشت کاروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ حکومت سندھ کے اس فیصلہ نے مزدور پیشہ تنخواہ دار طبقے کو حواس باختہ کردیا ہے اور یہ جو مہنگائی کے ہاتھوں بمشکل نان شبینہ کا سامان کررہے تھے۔
عالمی منڈی میں اگر گندم کے نرخوں کو دیکھا جائے تو فی ٹن یوکرین گندم کے ایف او بی سودے روس سے جنگ میں برسرپیکار ہونے کے باوجود 325 ڈالر تک ہورہے ہیں۔ اب اگر حکومت سندھ کے موجودہ فیصلے کے مطابق گندم کی امدادی قیمت 10 ہزار روپے کے حساب سے فی ٹن ایک لاکھ مقرر کی گئی اس کو ڈالر کے نرخ 230 روپے کے حساب سے دیکھا جائے تو سندھ میں فی ٹن گندم کی امدادی قیمت 434 ڈالر بنتی ہے جو عالمی منڈی میں یوکرین گندم کے فی ٹن نرخ 109 ڈالرز زیادہ ہے یعنی 1090 ڈالرز کو 230 روپے سے ضرب دیا جائے تو یہ رقم 25070 روپے عالمی منڈی کے نرخ سے زائد ہے۔ یوں اگر گندم اضافی پیدا ہوگئی تو عالمی منڈی سے بھی مہنگی خریدی گئی گندم پھر خسارہ کے ساتھ فروخت کرنی پڑے گی جس طرح 2015ء میں حکومت نے عالمی منڈی میں گندم کی فروخت پر 60 سے 120 ڈالرز کا ریٹ دیا تھا اس وقت بھی عالمی منڈی میں گندم کے نرخ کم تھے اور ریٹ رکے بغیر برآمد ممکن نہ تھی۔ یعنی فیصلہ کی بدولت گندم کی خرید اور فروخت میں حکومت نے خسارہ کا سودا کیا۔ اب امدادی قیمت بھی سیاسی قیمت ہی قرار پائے گی۔ کیا حکومت سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بالخصوص لوئر اسٹاف کی تنخواہ میں بھی 82 فی صد اضافہ کرکے اس کا ازالہ کرے گی؟ شاید ہرگز نہیں دراصل یہ اضافہ زمینداروں کے کارندوں کو جو حکومت میں براجمان ہیں فیض پہنچانے اور مالا مال کرنے کا نظر آتا ہے۔ کہ عالمی منڈی سے بھی گندم پاکستان کے صوبہ سندھ میں مہنگی حکومت کرے۔ سندھ حکومت نے ملازمین کی کم از کم تنخواہ 25 مقرر کی ہے۔ بھلا اس تنخواہ کا ملازم دس ہزار روپے کی ایک بوری گندم جو اوسط گھرانے کا ماہانہ خرچ ہے وہ خرید پائے گا۔ اور سو روپے کلو والی گندم کا آٹا مارکیٹ میں پسائی کے بعد سوا سو روپے کلو ملے گا اور یوں تین کلو روزانہ کا آٹا 375 روپے کا ہوگا۔ بات تو اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ سندھ سرکار نے کم از کم تنخواہ ماہانہ جو 25 ہزار روپے مقرر کی ہے وہ سرمایہ دار، تاجر، دکاندار دے بھی رہے ہیں تو جواب نفی میں ہے۔ اندرون سندھ میں تو مزدور کی دہاڑی پانچ سو روپے سے چھے سو روپے روزانہ ہے وہ بھلا گندم کے اس بھاری بھرکم اضافہ کا بوجھ کیونکر اٹھا پائے گا؟ یا تو بھوکا مرے یا بلکتے بچوں کو دیکھ کر خود کشی کرے گا یا پھر انارکی کا سامان کرے گا۔ گندم کے نرخوں میں اضافہ کا مطلب صرف اس چیز میں اضافہ ہی نہیں بلکہ ہر شے میں اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس فیصلہ سے دراصل ان زمینداروں کو فائدہ پہنچانا ہے جو بڑے قطعہ اراضی کے مالک ہیں ایک حلقہ کا خیال ہے کہ یہ شہری آبادی کے پیٹ پر لات مارنے کا فیصلہ ہے جو زراعت کے بجائے ملازمت سے وابستہ ہیں کچھ کا خیال ہے کہ دراصل سیاسی گیم ہے۔
2023ء جو انتخابی سال ہے اس کا یہ سنہری جال ہے کہ دیکھو ہم نے تمہارے لیے گندم کے امدادی ریٹ عالمی منڈی سے بھی زائد کردیے ہیں اس لیے تم ہمیں بھول نہ جانا۔ دراصل یہ وفاق کے گلے میں بھی ہڈی کے مصداق ہے کہ وہ اس نرخ پر خریداری کے لیے رضامند نہیں ہوتی جیسے کہ پچھلی مرتبہ بھی سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان گندم کے نرخ پر اختلاف ہوا تھا تو پھر درمیانی راہ نکالی گئی تھی اور گندم کی امدادی قیمت 2200 روپے 40 کلو مقرر کی گئی تھی۔ یہ گندم کی امدادی قیمت عمران خان حکومت کی طرح کی بارودی سرنگ ہے کہ اس نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کے باوجود چھے ماہ تک پٹرول کی قیمت نہ بڑھا کر مصنوعی ریلیف دیا جو بعد والوں کے لیے مصیبت بن گیا۔ سندھ حکومت ہی گندم کی خریدار نہیں ہوتی بلکہ پاسکو بھی خریداری کرتا ہے اور پنجاب سمیت دیگر صوبوں کو بھی اس مشکل فیصلہ پر عملدرآمد کرنا ہوگا جو ان کے لیے دشوار ہوگا۔ حکومت نے سندھ بینک سے قرض لے کر گندم کی خریداری کی تو ہے اور پھر خرید کردہ گندم میں کرپشن کے ریکارڈ توڑے جاتے ہیں وہ الگ کہانی ہے۔ معاشی حوالہ سے تباہ حال معاشرہ اس فیصلے سے شدید متاثر ہوگا۔ حکومت سندھ نے سرکاری گوداموں سے گندم جاری کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا جو 15 اکتوبر سے ہوا کرے گی۔ یہ گندم کس قیمت پر جاری ہوگی؟
ایوان زراعت سندھ نے اس اضافے کا خیر مقدم کیا اور نوٹیفکیشن کے اجرا کا مطالبہ کیا اور ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا ہے کہ سندھ میں حالات خراب ہوں گے اور آٹا 200 روپے کلو تک جا پہنچے گا۔ آگے چل کر انہوں نے یہ بھی بتا ڈالا کہ سندھ ہر سال 43 لاکھ میٹرک ٹن گندم پیدا کرتا ہے اور صوبہ سندھ کی کھپت 42 لاکھ ٹن ہے اور اس سال دس لاکھ ٹن گندم بھی مشکل پیدا ہوگی۔ انہوں نے دس لاکھ ٹن کی بات اس تناظر میں کی ہوگی کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے 6 ماہ میں پانی کی نکاسی کا اعلان کیا ہے۔ جب پانی ہی نہیں نکلے گا تو گندم کیونکر ہوگی۔ چلو گندم اندازاً دس لاکھ ٹن سے زائد ہوگی تو حکومت سندھ تو اتنی ہی گندم خرید کرتی ہے اور اسٹاک کرنے کی جگہ صرف سات لاکھ ٹن ہے تو فالتو گندم مارکیٹ میں دس ہزار روپے سو کلو فروخت ہوسکے گی۔ جواب ہے ہرگز نہیں بلکہ 2200 من جب سندھ سرکار کے نرخ تھے تو گندم اوپن مارکیٹ میں 1800 روپے خریدی گئی یوں حکومت سندھ کے اس نرخ سے حکومتی زمیندار ہی فائدہ اٹھا پائیں گے۔ یہ بھی سوال ہے کہ کاشت کاروں کی امداد کے لیے دنیا کے بلند ترین نرخ رکھے گئے ہیں کاشت کار ہاری کیا فائدہ اس کا اٹھا سکے گا؟ شریعت میں تو اجناس کے نرخ مقرر کرنا ہی منع ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک صحابہ نے رسول اللہؐ سے اجناس کے نرخ مقرر کرنے کی درخواست کی تو آپؐ نے فرمایا نرخ اللہ مقرر کرتے ہیں (یعنی پیداوار خوب ہو تو نرخ کم اور پیداوار کم ہو تو نرخ خوب ہوتے ہیں) اب جب دنیا عالمی گائوں بن گئی ہے تو ہر اک تاجر کو گندم منگوانے کی کھلی اجازت ہونی چاہیے کہ عالمی منڈی سے جب وہ چاہے جتنی چاہے گندم درآمد کرے۔ حکومت بھلے مہنگی خریدنے کا شوق پورا کرے۔ حکومت دانہ پانی پر بھی دسترس رکھنا چاہتی ہے، کچھ ماہرین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت نرخ اوپن مارکیٹ کے سپرد کردے اور ذخیرہ اندوزوں کا ناطقہ بند کرکے اور انہیں ذخیرہ کرنے کی ہرگز اجازت نہ دے تو گندم جو لاکھوں ٹن حکومت درآمد کرتی ہے وہ کرنی ہی نہ پڑے بس سیدنا عمرؓ والا کوڑا استعمال کرے تو خلق خدا بھوکی دریائے فرات کے کنارے بھی نہ مرے گی۔ نیشنل گروپ آف بزنس کے چیئرمین زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے بھوک میں اضافہ ہوا ہے اور 2030ء تک ملک سے بھوک کے خاتمے کا ہدف پورا کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال کے محتاط تخمینوں کے مطابق ملک کی ساٹھ فی صد آبادی کو پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہیں ہورہا تھا جب کہ پانچ سال سے کم عمر کے 44 فی صد بچے غذائی کمی کا شکار تھے۔ اب سیلاب کے بعد صورت حال مخدوش ہوگئی۔ اب بھلا 4000 روپے من گندم کا سرکاری نرخ سے غربا کیا مٹی پھانک کر گزارہ کریں گے۔ ایف پی سی سی آئی کے رہنما عاطف اکرام شیخ تو کہہ رہے ہیں کہ سیلاب کی وجہ سے ملک میں بے روزگاروں کی تعداد میں کم از کم 30 لاکھ افراد کا اضافہ ہوگا۔ پنجاب نے گندم کی امدادی قیمت 30 ہزار روپے فی من مقرر کی ہے۔ تو کیا پھر وہی صورت حال پنجاب میں بھی پیدا نہ ہوگی۔ کہ وہاں لوگ ماضی کی طرح اٹھ کھڑے ہوں اور گندم سندھ میں لا کر فروخت کرنے کے لیے کوشاں ہوں گے۔