تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جتنی بھی اقسام کے نشے ہیں، اُن میں سے ’’نشہ ٔ اقتدار‘‘ سب سے فزوں تر ہے، یہ دو آتشہ نہیں، بلکہ سہ آتشہ ہوتا ہے، یہ بھائی کو بھائی سے، بیٹے کو باپ سے اور باپ کو بیٹے سے بھی لڑا دیتا ہے، تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے، سو اگر عمران خان ایوانِ اقتدار میں دوبارہ پہنچنے کے لیے بے تاب ہیں اور آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، جس نے ایک بار ایوانِ اقتدار کے مزے چکھ لیے ہوں، اس کے لیے اس شان، کرّوفر اور جلال کو بھلادینا آسان کام نہیں ہے۔ خان صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے ہالینڈ کے وزیر اعظم کے سائیکل پر سفر کرنے کی مثالیں دیتے تھے، لیکن جب اپنی باری آئی تو گھر سے دفتر آنے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال فرماتے رہے، علامہ اقبال نے کہا ہے:
اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سَو بار ہوئی، حضرتِ انساں کی قبا چاک
تاریخِ اُمَم کا یہ پیامِ اَزلی ہے
صاحب نظَراں! نشّۂ قُوّت ہے خطرناک
اس سیلِ سبک سیر و زمیں گیر کے آگے
عقل و نظَر و عِلم و ہُنر ہیں خس و خاشاک
لا دیں ہو تو ہے زہرِ ہلاہلِ سے بھی بڑھ کر
ہو دِیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تِریاق
مفہومی ترجمہ: ’’دنیا کی تاریخ میں اسکندر اور چنگیز جیسے ظالم حکمرانوں نے سو بار انسانیت کا لباس تار تار کیا ہے، قوموں کی تاریخ کا ازل سے یہی پیغام ہے: ’’قوت وطاقت کا نشہ ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے‘‘، مگر اس حقیقت کے ادراک کے لیے بندے کو صاحبِ نظر ہونا چاہیے۔ طاقت کے اس تندوتیز اور ہمہ گیر سیلاب کے آگے دانش وبینش اور علم وہنر پرِ کاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے، اگر ظالم وجابر حکمران لادین ہے تو پھر یہ طاقت جان لیوا زہر سے بھی بڑھ کر ہے، البتہ اگر صاحبِ اقتدار دین دار ہو تو یہ طاقت ہر زہر کا تریاق بن جاتی ہے اور انسانیت ہلاکت وبربادی سے بچ جاتی ہے، کیونکہ دین حدود کی پامالی کے آگے سَدِّراہ بن جاتا ہے‘‘۔
انسان سوچتا ہے کہ ملک کے حالات اتنے دِگرگوں ہیں، معاشی مسائل حکومت کی گرفت میں آنے والے نہیں ہیں، ہمارے ہر سالانہ بجٹ میں اخراجات کا تخمینہ متوقع آمدن سے زیادہ ہوتا ہے اور آمد وخرچ میں ڈھائی تین ہزار ارب روپے کا فرق ہوتا ہے اور اسے مزید قرض لے کر پورا کیا جاتا ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے خان صاحب کسی کے آگے کشکول پھیلانے پر خود کشی کو ترجیح دینے کی باتیں کرتے تھے، لیکن اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں ملکی قرضوں میں بیس ہزار ارب روپے کا اضافہ کرگئے، یہ بھی اُس صورت میں ہے کہ کورونا کی وجہ سے عالمی ساہوکاروں نے پاکستان کے ذمے واجب الادا اپنے بعض قرضوں کی وصولی کچھ عرصے کے لیے مؤخر کردی تھی، لیکن اب ان کی ادائی بھی سرپر ہے۔ اسی طرح موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف ببانگ دہل کہتے ہیں: ’’آئی ایم ایف نے ناک رگڑوادی، ان کی اجازت کے بغیر ہم چھینک بھی نہیں سکتے، اُن کی منظوری کے بغیر اپنے عوام کو کوئی ریلیف بھی نہیں دے سکتے‘‘، تو انسان سوچتا ہے: ایسے مجبور وبے بس اقتدار کے لیے لوگ اتنے بے چین کیوں ہیں، اتنا لَعن طَعن کیوں برداشت کرتے ہیں، آرام سے گھر کیوں نہیں بیٹھ جاتے، تو اس کا جواب یہ ہے: ’’اقتدار کا نشہ لا علاج ہے، جوش ملیح آبادی نے کہا ہے: ’’یہ وہ نشہ نہیں جسے تُرشی اتار دے‘‘۔
خان صاحب سے روز ’’بوالعجبیاں‘‘ صادر ہوتی ہیں، وہ مذہب کے میدان میں بھی مشقِ ناز فرماتے ہیں، ہم نے ان سے پہلے بھی گزارش کی تھی کہ سیاست ِ دوراں کی مذہب سے کوئی مناسبت نہیں ہے، اس لیے مذہب کے حوالے دینا اور مذہب کے استعارے استعمال کرنا چھوڑ دیں، آپ کا بڑا احسان ہوگا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اُن کے غالی محبین اور اُن کے گردو پیش جو لوگ ہیں، وہ خان صاحب کو ’’مافوقَ الفطرت اور خطا سے مبرّا‘‘ سمجھتے ہیں، اس لیے اُن کی اصلاح کی توقع بھی عبث ہے۔ جس شخص کے اردگرد سارے کے سارے لوگ مدح سرا اور قصیدہ خواں ہوں، محبوب وممدوح بھی صرف اپنی تعریف سننے کا روادار ہو، تو ایسے میں اصلاح عملاً ناممکن ہوجاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ایسا حاکم یا سیاسی رہنما قابلِ رحم ہے، جس کے مصاحبین اُس کی اصلاح کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں،حدیث پاک میں ہے:
’’ایک شخص آیا اور سیدنا عثمانؓ کی (موجودگی میں) اُن کی تعریف کرنے لگا، مقداد بن اسود گھٹنوں کے بل جھکے اور اس شخص کے منہ پر مٹی ڈالنے لگے، سیدنا عثمانؓ نے کہا: مقداد! کیا کر رہے ہو؟، انہوں نے کہا: رسول اللہؐ نے فرمایا ہے: جب تم (منہ پر) تعریف کرنے والوں کو دیکھو، تو اُن کے منہ پر مٹی ڈالو‘‘، (مسلم) اس میں اُن لوگوں کی مذمت ہے جو ذاتی مفادات کی خاطر کسی با اثر یا بااختیار شخص کی تعریف کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی دینی معاملات میں حوصلہ افزائی اور دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے کسی کی تعریف کرے، تو یہ مذموم نہیں ہے، رسول اللہؐ سے ایسی تعریف متعدد مواقع پر ثابت ہے۔ چند ہفتوں میں خان صاحب سے جو بے اعتدالیاں سرزد ہوئیں، اُن کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
انہوں نے رسول اللہؐ کی طرف غلط روایت منسوب کی، حالانکہ آپؐ کا فرمان ہے: ’’جو مجھ پر دانستہ جھوٹ بولے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے‘‘۔ (بخاری) ہم یہ تو نہیں کہتے کہ انہوں نے جان بوجھ کر رسول اللہؐ کی طرف غلط بات کی نسبت کی، لیکن جب آپ کی دینی معلومات ناقص ہوں تو آپ کے حق میں بہتر یہی ہے کہ دینی مقدسات کے حوالے دینے سے اجتناب کریں، سیاسی ضرورت پورا کرنے کے اور بہت سے طریقے ہیں۔
انہوں نے انبیائے کرام کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار بتائی، جبکہ قرآنِ کریم کی کسی آیت یا کسی حدیث ِ صحیح میں نہ ایسا وارد ہوا ہے اور نہ انبیائے کرامؑ کی یقینی اور قطعی تعداد بیان کی گئی ہے، اس لیے قرآنِ کریم میں جہاں رسولوں اور ملائک پر ایمان کا بیان ہے، وہاں تعداد کو مبہم رکھا گیا ہے اور یہ اجمالی ایمان کہلاتا ہے، اس لیے اس بارے میں ہر مسلمان کو محتاط رہنا چاہیے۔
انبیائے کرام کی تعداد کے بارے میں روایات مختلف ہیں، لیکن وہ قطعی نہیں ہیں اور اُن پر عقیدے کا مدار نہیں ہوسکتا، اسی سبب جب انبیائے کرام کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بیان کی جاتی ہے تو اُس سے پہلے کم وبیش کا لفظ لگایا جاتا ہے۔ الغرض اُن سب انبیائے کرام پر ہمارا ایمان ہے، جن کی حقیقی اور قطعی تعداد اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے،کیونکہ اگر قطعیت کے ساتھ تعداد متعین کردی جائے اور درحقیقت اللہ کے علم میں انبیائے کرام کی تعداد اس سے زیادہ ہو تو بعض انبیاء کی نفی ہوجائے گی اور اگر حقیقت میں انبیائے کرام کی تعداد اس سے کم ہو تو غیر نبی کو نبی ماننا لازم آئے گا اور یہ دونوں صورتیں کفر ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے ایسے رسول بھیجے جن کا تذکرہ ہم اس سے پہلے آپ کو بیان کرچکے ہیں اور ایسے رسول (بھی) بھیجے جن کا تذکرہ ہم نے (ابھی تک) آپ کے سامنے نہیں کیا‘‘۔ (النسآء: 164) سارے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی نہ قرآنِ کریم میں اور نہ احادیث ِ مبارکہ میں بیان کیے گئے ہیں، قرآنِ کریم میں چھبیس انبیائے کرام کے اسمائے گرامی آئے ہیں۔
بہاول پور کے جلسے میں انہوں نے کہا: ’’جو لا اِلٰہ الا اللہ کا معنی جانتا ہے، وہ لوٹا نہیں بنتا، یعنی سیاسی وفاداری تبدیل نہیں کرتا‘‘، خان صاحب کو اسلامی عقائد کے حساس مسائل میں مشقِ ناز نہیں کرنی چاہیے، اُن کی جولانیِ طبع کے لیے سیاست کا میدان کافی وسیع ہے۔آپ تو خلیفۂ برحق نہیں ہیں، آپ منتخب وزیر اعظم رہے ہیں اور دوبارہ اسی منصب کے لیے تگ ودو کر رہے ہیں۔ جمہوری نظام میں وزیر اعظم تو پورے ملک کا ہوتا ہے، لیکن پورے ملک کا اس پر اجماع اور اتفاق ضروری نہیں ہے، اکثریت کی حمایت سے وزیر اعظم بن جاتا ہے، جبکہ امیر المؤمنین سیدنا علیؓ خلیفۂ راشد اور حاکمِ برحق تھے، لیکن اُن سے اُن کے دور کے باغی گروہ خوارج کے بارے میں پوچھا گیا: کیا وہ مشرک ہیں، انہوں نے فرمایا: شرک سے تو وہ بھاگ کر اسلام کی طرف آئے ہیں، پھر سوال ہوا: کیا وہ منافق ہیں، انہوں نے فرمایا: منافق اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں، پھر سوال ہوا: تو وہ کون ہیں، یعنی ان کا شرعی حکم کیا ہے، انہوں نے فرمایا: یہ ہمارے بھائی ہیں، انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے‘‘۔ (البدایہ والنہایہ) چنانچہ اُن کے خلاف آپ کے نھروان اور حروراء کے دو بڑے معرکے ہوئے اور پھر آپ نے اُن پر فیصلہ کن فتح پائی، آپ خلیفۂ راشد وارشد اور امام برحق تھے، لیکن اس کے باوجود آپ نے ان کی عدمِ وفاداری کو کلمۂ لا الٰہ الا اللہ سے نہیں جوڑا۔
یہ تاثر بھی دیا گیا کہ قبر اور آخرت میں یہ سوال ہوگا کہ خان صاحب کی حمایت کیوں نہیں کی، کیونکہ خان صاحب خود اپنی نظر میں ’’معیارِ حق‘‘ ہیں اور اُن سے اختلاف حق کا انکار ہے، اسی کو وہ امر بالمعروف سے تعبیر کرتے ہیں، حالانکہ ان کی زندگی میں معروف کتنے ہیں اور وہ محرّمات سے کس حد تک بچے ہوئے ہیں، یہ سب کو معلوم ہے۔ الغرض ’’برخود راستی‘‘ یعنی اپنی ذات کو معیارِ حق سمجھنا ایک لا علاج نفسیاتی بیماری ہے، ماضی میں ایسا دعویٰ بانی پاکستان قائدِ اعظم سمیت کسی رہنما نے نہیں کیا۔
خان صاحب اور اُن کے غالی محبین کا ایک ناروا تقاضا یہ ہے: ’’تم ہمارے ساتھ ہو، ورنہ ملک دشمنوں کے ساتھ ہو‘‘، نائن الیون کے بعد اُس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے یہی موقف اختیار کیا تھا اور اُس کی قیمت امریکا کو اس طرح ادا کرنی پڑی کہ تمام تر کرّوفر کے ساتھ وہ بیس سال تک افغانستان میں رہے، تقریباً تین کھرب ڈالر خرچ کیے، اُن کے کئی ہزار لوگ موت سے ہمکنار ہوئے، زخمی ہوئے یا نفسیاتی مریض بنے، اس کے علاوہ لاکھوں بے قصور لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں، املاک تباہ ہوئیں اور آخر میں حاصل کچھ نہ ہوا، بلکہ عزت ووقار کے ساتھ افغانستان سے رخصتی بھی نصیب نہ ہوئی اور آخرِ کار انہیں افغانستان کا اقتدار اُنھی کے حوالے کرنا پڑا، جن سے چھینا تھا۔ دین ومذہب کے حوالے سے خان صاحب کی کئی حساس باتیں ہمارے علم میں ہیں، لیکن خوفِ فسادِ خَلق سے ہم سرِدست اُن کا ذکر نہیں کر رہے۔