میں بس سے اُترا تو وہ بھی میرے ساتھ ساتھ اُترا، خفیہ پولیس کا کوئی اہلکار تھا، جیمس آباد سے حیدرآباد آتے آتے مجھے احساس ہوگیا تھا کہ یہ ’’خفیہ‘‘ والا میرے پیچھے ہے۔ قادیانیوں کے خلاف تحریک زوروں پر تھی، تحریک ختم نبوت میں نوجوان اور یونیورسٹی کالجوں کے طلبہ بھی ہراول دستہ تھے، قیصر خان، عبدالرشید خان، زاہد عسکری، اور میں عمر کوٹ، کوٹ غلام محمد (جیمس آباد)، کنری، میرپورخاص کے دورے پر تھے، ہم مساجد میں جاتے اور نماز کے بعد وہیں نمازیوں سے قادیانی مسئلہ پر گفتگو کرتے، تقریر کرتے، کارنر میٹنگ کرتے، اور کہیں کہیں موقع پاکر کر عشاء کے بعد جلسہ بھی ہوجاتا۔ میں اکیلا واپس ہوا تھا، باقی اسی طرح جلسے جلوس اور تحریک میں مصروف رہے، پھر ایک دن ہم پولیس کے ہتھے چڑھ گئے، اور اس تحریک میں سینٹرل جیل حیدرآباد چلے گئے۔ وہیں میں نے وہ نظم لکھی تھی، ہم نے جھوٹے نبی کو نہ مانا نبی۔ حاکم وقت کی مصلحت توڑ کر ہم نے نعرہ لگایا ببانگ دہل۔ خاتم الانبیاء، خاتم الانبیاء مصطفیؐ مصطفیؐ۔ 7ستمبر 1974 کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ جن دنوں تحریک ختم نبوت جاری تھی، پنجاب کے کسی شہر میں ایک قادیانی نے عدالت میں ایک مقدمہ دائر کردیا کہ گاؤں کا ایک فرد مرزا غلام احمد قادیانی کو گالیاں دیتا ہے۔ مقدمہ میں جو وکیل پیش ہوئے، انہوں نے اس قادیانی کو عدالت کے کٹہرے میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بتائیں کہ مرزاغلام احمد کو کیا گالیاں دی گئیں۔ اب قادیانی کو چپ لگ گئی، اور وہ خاموش کھڑا رہا، تو وکیل صاحب نے ان سے کہا کہ آپ شاید وہ گالیاں دہرانا نہیں چاہتے، لیکن میں آپ کی سہولت کے لیے خود یہ گالیاں نکالتا ہوں، آپ بس اشارہ کردیں کہ کون سی گالی دی گئی تھی۔ اب وکیل صاحب نے بھری عدالت میں مجمع کے سامنے جو فصیح و بلیغ گالیاں دینا شروع کی، اور ہر گالی کے بعد پوچھتے رہے کہ کیا مرزا کی شان میں یہ گالی دی گئی تھی، گالیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا، وکیل صاحب نے اپنے اسٹاک کو بچاتے ہوئے کہا کہ اگر ان میں سے کوئی گالی نہیں تھی تو مجھے موقع دیں کل میں مزید گالیاں تلاش کرکے لاؤں گا۔ تاکہ آپ کے مقدمے کا فیصلہ کیا جاسکے۔
آج کل ہمارے خان صاحب اسی وکیل کا کردار ادا کررہے ہیں، فوج سے اپنے معاملات کو درست رکھنے کے لیے اب انہوں نے نئی حکمت عملی اختیار کی ہے، انہوں نے جلسوں میں کہنا شروع کیا ہے کہ ’’فوج بھی میری۔ اور ملک بھی میرا۔ اور میں نے تو کہا تھا کہ فوج کے خلاف کوئی بات نہ کریں‘‘۔ لیکن یہ جو موجودہ حکومت میں جو لوگ ہیں، یہ فوج کے بارے میں کیا کہتے رہے ہیں، پھر خان کے اشارے پر وہ کلپ جلسوں کے اسکرین پر چلنا شروع ہوتے ہیں، جن میں اسپیکر قومی اسمبلی ’’ٹانگیں کانپ رہی تھی، رنگت اُڑی ہوئی تھی‘‘ کہتے نظر آتے ہیں، پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کلپ چلتا ہے، پھر مریم بی بی کی تصویر کچھ کہتی نظر آتی ہے، پس منظر میں نعروں کی آواز بھی آتی ہے، یہ جو دہشت گردی ہے۔ اس کے پیچھے … پھر خان صاحب مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا۔ پھر وہ زرداری کا اینٹ سے اینٹ بجانے والا کلپ چلا دیتے ہیں۔ پھر مولانا فضل الرحمن کا غصہ اور انہیں گرجتا ہوا دکھاتے ہیں۔ پھر عدلیہ پر حملے والی ویڈیو چلا دیتے ہیں۔ بے شک اب ٹویٹر پر تحریک انصاف والے گالیاں دیتے کم نظر آتے ہیں، اب ان کے پاس نون لیگ، پیپلزپارٹی، مولانا فضل الرحمن، خواجہ سعد رفیق، مریم نواز، ایاز صادق کے ویڈیو کلپ ہی کافی ہیں، جو وہ جب چاہیے چلادیں، اور اپنے ہاتھ کھڑے کردیں کہ ہم تو یہ نہیں کہہ رہے یہ تو آپ کے چہیتے کہہ رہے ہیں، جنہیں آپ نے اقتدار دیا ہے، تخت پر بھٹایا ہے، خان صاحب پی ڈی ایم والوں سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کو وہ کچھ سنا رہے ہیں، جو سنانے کی حسرت وہ دل میں لیے ہوئے ہیں۔
بندوق سے نکلی گولی، اور زبان سے نکلی بات کبھی واپس نہیں آتی، سیاست دانوں کو سیاست میں آنے سے پہلے اخلاقیات سکھانے کی ضرورت ہے، تمیز سے بات کرنا، دلائل سے گفتگو کرنا، شعر و ادب سے تقریروں میں چاشنی پیدا کرنا، انہیں مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، قائد اعظم، مولانا مودودی، نصر اللہ خان، پروفیسر غفور احمد، جیسے لیڈروں سے سیکھنا چاہیے۔ قائد اعظم سیاست میں آنے سے پہلے باقاعدگی سے برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈ میں پارلیمانی لیڈروں کی تقاریر سننے جایا کرتے۔ جس طرح موسیقی، رنگوں اور خوشبوئوں کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح بڑے آدمی کی زندگی کے چند گوشوں پر روشنی تو ڈالی جا سکتی ہے مگر اس کی شخصیت کا جادو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لفظوں میں لکھا جا سکتا ہے نہ بتایا جا سکتا ہے۔ اب کہاں ہیں ایسے لیڈر ایسے رہنما۔۔ اب تو الزام ہیں، دشنام ہیں، اور گالیاں ہیں یا دھمکیاں ہیں۔ لیکن وہ ہیں کہ ان گالیوں کو بھی محبوب کے منہ سے جھڑنے والے پھول ہی سمجھتے ہیں۔ سچ کہا کہ کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب۔گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا