قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک بیکری والا کے الیکٹرک کے ایک آفیسر سے تقاضا کرنے لگا کہ 6 ماہ پہلے آپ کے بچے کی سالگرہ کے موقع پر میری دکان سے 300 سموسے خریدے تھے جو اس وقت 20 روپے کے حساب سے دیے گئے مگر اب تیل کی قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے سموسہ 30 روپے کا فروخت ہورہا ہے۔ اب آئل ایڈجسٹمنٹ کی مد میں آپ کی طرف 3000 روپے نکلتے ہیں وہی لینے آیا ہوں۔ آفیسر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا بھائی کون سی ایڈجسٹمنٹ اور وہ بھی 6 ماہ پہلے کی خریدی پر؟؟ دکاندار نے بڑی معصومیت سے کہا وہی ایڈجسٹمنٹ جسے آپ لوگ ہمارے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام سے وصول کرتے ہیں۔ آپ کو پیمرا اس کی اجازت دیتا ہے اور ہم کو بیکرا (جو ہم دکانداروں کا تحفظ کرتی ہے) نے اجازت دی ہے کہ گزشتہ 6 ماہ قبل کے سودوں میں آئل ایڈجسٹمنٹ وصول کیا جائے اور اس میں کیا برائی ہے آپ لوگ بھی تو جنوری فروری کے بقایا جات جون جولائی کے بلوں میں وصول کرتے ہیں۔ آفیسر نے غصے سے دکاندار کو دیکھا اور زور دار جھٹکے سے دروازہ بند کیا اور یہ جا وہ جا… آفیسر نے تو دروازہ بند کرکے جان چھڑالی مگر کے الیکٹرک کے صارفین کیسے جان چھڑائیں کہ بل نہ بھرنے پر بجلی کاٹنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں نہ کہیں غیر علانیہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اور نہ لوڈشیڈنگ ختم کرسکتے ہیں۔ رہ گئی بات اووربلنگ کی تو عوام کی شکایات کے ازالے کے لیے کسٹمر سروس سینٹر قائم کر رکھے ہیں۔
کسٹمر سینٹر یقینا کھلے ہیں مگر ان کے باہر سیکڑوں کا مجمع کے الیکٹرک کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک دن ہمارا بھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا، گرچہ دوپہر کے گیارہ ساڑھے گیارہ ہورہے ہوں گے مگر عوام کی بھیڑ بھاڑ دیکھ کر ذرا گھبرائے، جگہ جگہ عوام کی ٹولیاں نظر آرہی تھیں، مرکزی دروازہ بند تھا اور باہر ہجوم پھر ایک صاحب نے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے گارڈ سے نمبر لینے کا مشورہ دیا۔ ہمارے طلب کرنے پر گارڈ نے انگلی کے پورو کے برابر کی ایک پرچی تھمائی جس پر ایک نمبر درج تھا۔ باہر عوام اپنی اپنی روداد ایک دوسرے سے شیئر کررہے تھے، وقت گزاری کے لیے ہم بھی اس کا حصہ بن گئے، کوئی ڈیڑھ گھنٹے باہر کی دھوپ میں تپنے کے بعد دفتر کے اندر داخل ہونے کا موقع ملا، یہاں چند ایک کرسیاں پڑی تھیں جس پر شکایت کنندگان بیٹھے ہوئے تھے اور جب دو چار کرسیاں خالی ہوئی باہر سے افراد کو داخلے کی اجازت دی جاتی تھی، یہاں بھی شکوے شکایتوں کا مرحلہ چل رہا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ہم کو کائونٹر ہال میں جانے کی اجازت ملی اور پھر ہماری باقاعدہ آمد کا اندراج ہوا اور کمپیوٹر سے ایک سلپ نکال کر ہمارے حوالے کی گئی جس پر ہماری آمدکا وقت تین بجے کا تھا گویا کے الیکٹرک کا وقت شروع ہوتا ہے اب اور آپ نے جو تین گھنٹے دھوپ کی تپش میں گزارے اس کا کوئی ذکر نہیں اور اعلیٰ حکام کو بھی اپنی اعلیٰ کارکردگی دکھا سکیں کہ دیکھیے جناب تین بجے کسٹمر آیا اور چند منٹ بعد ہی رخصت کردیا۔ جہاں کا ماحول پرسکون اور ٹھنڈا تھا مگر پریشان افراد یہاں بھی ایک دوسرے کو اپنے دکھڑے سنا کر اپنا غم غلط کررہے تھے اور ایسی ایسی کہانیاں سنا رہے تھے کہ اگر انہیں مرتب کیا جائے تو ایک کتاب کی تصنیف ہوجائے۔
ہم یہاں صرف ایک صاحب کی روداد رقم کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں میرا 30 ہزار روپے کا بل تھا کے الیکٹرک نے ایک سنہری آفر دی کہ اگر آپ آدھا بل یکمشت ادا کردیں تو بقیہ بل ختم کردیا جائے گا۔ چناں چہ میں نے 15 ہزار بھر کر بل کلیئر کرالیا مگر اب جو نیا بل آیا ہے تو وہ صرف ایک ہی ماہ کا مگر بل کے پیچھے آئوٹ اسٹینڈنگ بیلنس 15 ہزار روپے درج ہے۔ یعنی 15 ہزار روپے بھر کر بھی 15 ہزار روپے بیلنس باقی ہے۔ اب دیکھیں کیا جواب ملتا ہے۔ ہم نے ان صاحب سے کہا آپ کو جو بھی جواب دیا جائے ہمیں ضرور بتادیں کیوں کہ میں لکھاری ہوں۔ جب وہ صاحب کائونٹر سے واپس آئے تو انہوں نے جو کچھ بتایا قارئین کی نظر ہے۔ جواب ملا ہے۔ آپ کا بل تو کلیئر ہے مگر آئوٹ اسٹینڈنگ بیلنس 15 ہزار روپے بارہ ماہ تک لکھا جاتا رہے گا اور اگر آپ نے اس دوران سارے بل باقاعدگی سے جمع کرائے تو یہ OSB خودبخود ختم کردیاجائے گا اور اگر آپ نے کسی ماہ بھی بل ادا نہ کیا تو یہ بیلنس واپس شامل کردیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ بل جیسا بھی آئے آپ کو تو بھرنا ہی بھرنا ہے، اچھی سنہری آفر ہے؟۔ جب ہم سینٹر سے باہر نکلے تو دیکھا ایک کیلے والے کے ٹھیلے پر رش لگا ہے اور زور شور کی آواز آرہی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک صاحب نے کیلے والے سے یہ پوچھ لیا کہ کیلے کیسے ہیں؟ کیلے والا جو پہلے ہی دھوپ میں تپ رہا تھا سر اُٹھا کر دیکھا تو سامنے والے کے گلے کے الیکٹرک کا کارڈ دیکھا تو
تپ کر بولا۔ یتیم بچوں کے لیے 20 روپے درجن آپ کے بچوں کے لیے 50 روپے درجن۔ مہمانوں کے لیے 70 روپے درجن اور آپ کے آفس والوں کے لیے 100 روپے درجن۔ آفیسر نے پوچھا کیلے تو ایک ہی جیسے ہیں پھر ریٹ الگ الگ کیوں؟ بڑے صاحب آپ بھی تو ایک ہی کھمبے سے سب کو بجلی دیتے ہیں مگر سب کے ریٹ الگ الگ اور پھر 100 یونٹ تک کچھ ریٹ اور اس کے بعد کچھ اور۔ بس یہ سننا تھا کہ وہ صاحب جانے کے لیے پلٹے تو کیلے والے نے ان سے مخاطب ہو کر کہا سرکار یہی کیلے شام 5 بجے سے 9 بجے تک ڈبل ریٹ پر ملیں گے کہ وہ ہمارا رش کا ٹائم (پیک آور) ہوتا ہے۔ آفیسر سے کچھ نہ بن پڑا اور وہ بغیر کیلے لیے داخل دفتر ہوگیا۔ اس کیلے والے کو آپ نہ تو ان پڑھ کہہ سکتے ہیں اور نہ جاہل بلکہ جلا ہوا اور تپا ہوا کہہ سکتے ہیں۔ ہم اس آرٹیکل کے اختتام پر ہی تھے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو نے ہلا کر رکھ دیا۔کراچی کے ایک آئی ٹی ایکسپرٹ نے سندھ ہائی کورٹ میں کے الیکٹرک کے خلاف مقدمہ درج کراتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں کے الیکٹرک کی جانب سے نصب شدہ ڈیجیٹل میٹر میں ایک بیٹری لگی ہوئی ہے اور تمام میٹر کے الیکٹرک کے ہیڈ کوارٹر سے کنٹرول ہوتے ہیں بلکہ ان کو موبائل سے بھی آپریٹ کیا جاسکتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر کے الیکٹرک ریڈنگ میں ردوبدل کرکے اربوں روپے کی کرپشن کرچکا ہے۔ لہٰذا عدالت عالیہ سے درخواست کی گئی کہ کراچی میں نصب شدہ تمام ڈیجیٹل میٹر تبدیل کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ عدالت نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیپرا سے وضاحت طلب کی ہے، اہل کراچی سے دعا کی درخواست ہے۔