اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے پانی سے ہرجان دار چیز بنائی تو کیا وہ ایمان نہیں لاتے‘‘، (الانبیاء: 30)، نیز فرمایا: ’’اور وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اُس کے نسبی اور سسرالی رشتے بنائے اور آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے‘‘، (الفرقان: 54)، اس سے معلوم ہوا کہ حیوانات، نباتات حتیٰ کہ جمادات (زمین) کی حیات کا مداربھی پانی پر ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تم زمین کو دیکھتے ہو کہ بے جان پڑی ہے، پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ تروتازہ ہوکر لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے، بے شک جس نے اس بے جان زمین کو زندہ کیا ہے، وہی (قیامت کے دن) مردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے، بے شک وہ ہرچیز پر قادر ہے‘‘، (حم السجدہ: 39) ’’وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس سے ہر قسم کی نباتات اگائی اور ہم نے اس سے سبزکونپل نکالی جس سے ہم ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے شگوفوں سے بھاری گچھے پیدا کیے جو جھکے جارہے ہیں اور انگور، زیتون اور انار کے باغ اگائے، جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور مختلف بھی، یہ درخت جب پھل دیں تو اس کے پھل دیکھو اور ان کا پکنا دیکھو، بے شک ضرور اس میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘، (الانعام: 99) یہی وجہ ہے کہ جب سائنسدان کسی نئے سیارے کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی جستجو کا پہلا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہاں پانی ہے یا نہیں، کیونکہ اگر پانی ہے تو وہاں حیات متصور ہوسکتی ہے اور اگر پانی نہیں ہے تو اس سیارے پر حیات متصور نہیں ہوسکتی۔
بارش کے نظام کی بابت بھی قرآنِ کریم نے تفصیلات بیان کیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور وہی ہے جو بارانِ رحمت سے پہلے خوش خبری (کی علامت کے طور پر) ہوائوں کو بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھالیتی ہیں تو ہم اُسے کسی مردہ زمین کی طرف چلادیتے ہیں اور وہاں اُن کے ذریعے بارش برسادیتے ہیں، پھر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم (قیامت کے دن) مردوں کو (زندہ کر کے) اٹھائیں گے، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو، جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے پروردگار کے حکم سے خوب پیداوار نکالتی ہے اور جو زمین ناقص ہوتی ہے، اس کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے، ہم شکرگزار بندوں کے لیے اسی طرح اپنی گوناگوں نشانیاں دکھاتے ہیں‘‘۔ (الاعراف: 57-58)
غور کا مقام ہے کہ انسان اپنے جدید
سائنسی علم اور ٹیکنالوجی کے باوجود اپنی طاقت سے چند گیلن پانی بھی فضا میں معلق نہیں رکھ سکتا، ہمیں چند سو گیلن پانی بھی بلندی پر درکار ہو تو اس کے لیے ہمیں اوور ہیڈٹینک بنانا پڑتے ہیں، جن کو ستونوں کے سہارے ہم بلندی پرٹھیراتے ہیں، یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے پایاں قدرت کا مظہر ہے کہ وہ کسی سہارے کے بغیر بادلوں کے پہاڑوں کی صورت میں ہزاروں لاکھوں ٹن گیلن پانی فضا میں معلّق کردیتا ہے، پھر جدھر اُس کا حکم ہوتا ہے، ہوائیں اُن بادلوں کو ہنکا کر لے جاتی ہیں اور جہاں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، اُن بادلوں کو برسا دیتا ہے۔ پانی سے جل تھل لدے ہوئے بادلوں کو قرآنِ کریم نے ’’سحابِ ثقال (بھاری بادلوں)‘‘ سے تعبیرفرمایا ہے اور وہ ہوائیں اُن بادلوں کو جہاں اللہ برسانا چاہتا ہے، پوری قوت سے چلاکر لے جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے بادلوں کا بوجھ اٹھانے والی ہوائیں بھیجیں، پھر ہم نے آسمان سے بارش برسائی، سو ہم نے تم کو وہ پانی پلایا اور تم اس پانی کا ذخیرہ کرنے والے نہ تھے‘‘، (الحجر:22) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فضائوں میں ان بادلوں کے اندر لاکھوں ٹن پانی ہماری قدرت سے جمع ہوتا ہے اور معلّق رہتا ہے، وہ تہہ در تہہ پہاڑوں کی صورت میں نظر آتے ہیں، یہ سب کچھ کائنات میں کارفرما اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کے تحت عمل میں آتا ہے، ان کو کہاں سے اٹھانا ہے، کہاں لے جانا ہے اور کہاں برسانا ہے، یہ سب فیصلے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتے ہیں اور وہ اپنی حکمتوں کو بہتر جاننے والا ہے، عربی شاعر نے کہا ہے:
وَاِذَا مُطِرْتَ فَلَا لِاَنَّکَ مُجْدِبٌ
یُسْقَی الْخَصِیْبُ وَیُمْطَرُ الدَّامَائُ
ترجمہ: ’’اور جب تم پر بارش برسائی جاتی ہے تو (ہمیشہ) اس سبب سے نہیں ہوتا کہ تو خشک سالی کا شکار ہے، کبھی بارش سرسبز وشاداب زمین پر اور کبھی سمندروں پر بھی برس جاتی ہے‘‘، اس میں انسان کی منصوبہ بندی کا کوئی دخل نہیں ہوتا، محکمۂ موسمیات بعض اوقات پیش گوئی کرتا ہے کہ تندوتیز ہوائیں سمندر کی موجوں کو اتنی رفتار سے اٹھائے چل رہی ہیں اور وہ اتنے گھنٹوں کے بعد فلاں ملک کے ساحل سے ٹکرا جائیں گے، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ راستے میں ہوائوں کا رُخ بدل جاتا ہے اور سمندری موجیں کسی اور جانب مڑ جاتی ہیں یا سمندر میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔ موسمیات والے ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے مشاہدات پر مبنی رپورٹیں دیتے ہیں، لیکن نظامِ قدرت پر اُن کا کنٹرول نہیں ہوتا، جیسے گاڑی میں جو شخص ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہے، یہ اُس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ گاڑی کو آگے لے جائے، پیچھے لے جائے، دائیں موڑے یا بائیں موڑے یا روک دے، سو اس نظام کی ڈرائیونگ سیٹ پر اللہ کی قدرت کارفرما ہوتی ہے۔
ماہرینِ ماحولیات وموسمیات ایک عرصے سے متنبہ کر رہے تھے کہ ترقی یافتہ ممالک کے صنعتی نظام سے جو طرح طرح کی گیسیں خارج ہورہی ہیں، یہ بالائی فضا، ماحول اور موسمی حالات کو متاثر کر رہی ہیں، ان خطرات کے نتیجے میں گلیشیر پگھل سکتے ہیں، جن سے بڑے پیمانے پر سیلاب آسکتے ہیں، جن کے پیدا کردہ حالات کو کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب نے کہا ہے: ’’پاکستان ایک فی صد خطرناک گیسیں خارج کر رہا ہے، لیکن اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے یہ دنیا کے دس سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ہے، یہ متاثرہ ممالک ہم صنعتی ممالک کی لالچ کی قیمت چکانے پر مجبور ہیں، قطبِ شمالی کے بعد سب سے زیادہ برفانی تودے (Glaciers) پاکستان میں ہیں، جن کی تعداد سات ہزار دو سو تریپن بتائی جارہی ہے‘‘، ذرا سوچیں! اگر خدانخواستہ یہ پگھلنا شروع ہوئے تو پاکستان میں کیا بچے گا۔ اس سے پہلے پاکستان میں سیلاب دریائوں سے آتے تھے، کبھی بھارت اپنے دریائوں (راوی، چناب اور ستلج) کا فاضل پانی پاکستان کی طرف موڑ دیتا تھا، لیکن اس سال یہ سارا سیلاب غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے آیا ہے، بعض جگہ ماہرین نے بتایا کہ Cloudburst ہوگیا، یعنی اچانک بادل پھٹ پڑے اور بے پناہ موسلادھار بارش برسی اور بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کا تیس فی صد رقبہ اس وقت زیرِ آب ہے اور اس کی بحالی میں شاید برسوں لگ جائیں۔ تاحال جانی، مالی، مکانات، زرعی اور مویشیوں کے نقصانات کے صحیح اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں، جو کچھ بتایا جارہا ہے، یہ اندازوں اور ظنّ وتخمین (Estimation) پر مبنی ہے، ان نقصانات کی تلافی میں برسوں لگ جائیں گے، لیکن یہ کسی کو اندازہ نہیں کہ آنے والے مہینوں اور برسوں میں موسم کی صورتِ حال کیا ہوگی۔ میڈیا پر بتایا جارہا ہے: یورپ اور امریکا کی بعض ریاستوں میں درجۂ حرارت ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے، توانائی کی کمی کا مسئلہ وہاں بھی درپیش ہے، جرمنی میں ابھی سے گیس کے کم استعمال کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور اگر گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجۂ حرارت میں تبدیلی کا یہ رجحان جاری رہا تو آنے والے برسوں میں مشکلات میں غیر متوقع اضافہ ہوسکتا ہے۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کو اپنے مستقبل کا علم نہیں ہے، حالات غیر یقینی ہیں اور انہیں مزید غیر یقینی بنایا جارہا ہے، ایسے میں کسی طویل منصوبہ بندی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ملک کی قسمت سے کھیلنے والوں نے اپنے کیے کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور نظم کے تسلسل اور سنجیدہ منصوبہ بندی پر توجہ دی جائے۔ اگر صورتِ حال یہی رہی کہ اسٹیبلشمنٹ کی ترجیح کوئی اور ہے، عدلیہ کی ترجیحات اور ہیں تو ایسے میں سول انتظامیہ مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک کے حالات کو یہاں تک پہنچانے میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عدلیہ کا بھی حصہ رہا ہے، کوئی دانستہ آنکھیں بند کرنا چاہے توکرسکتا ہے، ورنہ نوشتۂ دیوار ہر ذی ہوش کو نظر آرہا ہے۔
جب ہم دعا اور توبہ واستغفار کی بات کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اسباب کو ترک کردیا جائے، ہاتھ اٹھادیے جائیں اور ملک کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے، توکل کے معنی ہیں: ’’تمام تر ممکنہ اسباب کو اختیار کیا جائے، حکمت، تدبیر اور تدبّر سے حکمتِ عملی مرتب کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے، مگر اسباب کے سازگار ہونے اور مؤثر ہونے کے لیے ذاتِ مسبِّبُ الاسباب سے رجوع کیا جائے ‘‘، سب حالات کی باگ ڈور قدرت کے دائرۂ اختیار میں ہے، اُس کی رحیمی اور کریمی متوجہ ہوجائے تو صورتِ حال بہتر بھی ہوسکتی ہے اور ہمارے حق میں بدل بھی سکتی ہے۔ قرآنِ کریم ہمیں یہی سبق دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’بھلا سوچو تو سہی، جو کچھ تم (زمین میں) کاشت کرتے ہو، اُسے تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو اُسے ریزہ ریزہ کردیں اور تم باتیں بناتے رہ جائو کہ ہم پر تاوان پڑ گیا، بلکہ ہم تو محروم ہی ہو گئے، بھلا سوچو تو سہی! یہ پانی جو تم پیتے ہو، اُسے تم نے بادلوں سے اتارا ہے یا ہم اتارنے والے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو اسے سخت کھارا بنادیں، پھر تم شکر کیوں ادا نہیں کرتے، یہ تو بتائو! یہ آگ جو تم جلاتے ہو، اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرنے والے ہیں‘‘۔ (الواقعہ: 63-72)