17 اگست 2022ء کو لاہور میں جماعت اسلامی کے کارکنان نے امیر ضلع لاہور کی قیادت میں لیسکو آفس کے باہر بجلی بلوں میں ظالمانہ اضافے اور ناجائز ٹیکسوں کے خلاف پرامن احتجاج کیا لیکن افسوس! پرامن لوگوں کے پرامن احتجاج میں لیسکو کے عملے نے کارکنان پر تیزاب پھینکا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل امیرالعظیم اور امیر لاہور ذکراللہ مجاہد بذات خود بھی اس احتجاج میں شریک تھے۔ یہ لوگ اپنے کاروبار اور کئی طرح کی ذاتی مصروفیات چھوڑ کر سخت گرمی میں سڑک پر بیٹھے تھے۔ کیا اضافی بلوں اور ٹیکسوں سے صرف یہی لوگ متاثر تھے؟ بالکل بھی نہیں کیونکہ یہ لوگ صرف اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ عوام کے حق کے لیے بھی نکلتے ہیں۔ چاہے عوام کا تعلق جس پارٹی سے ہو۔ جب بھی نظریہ پاکستان اور اسلامی قوانین پر آنچ آنے کا خدشہ ہو، کسی انسان پر کوئی ظلم و زیادتی ہو یہ لوگ نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ دوسروں کی طرح یہ اپنی کرسی و اقتدار کے لیے نہیں نکلتے اور نہ ہی ان کے لیے باؤلے ہوتے ہیں۔ یہ جب بھی گھروں سے نکلتے ہیں مقصد صرف دین اور عوام کی خدمت ہوتا ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے کارکنان اس شجر کے پھل و پھول ہیں جس کا پودا مولانا مودودی نے 26 اگست 1941ء میں لگایا۔ صرف 75 افراد سے شروع ہونے والا قافلہ آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اس جماعت کا کارکن اور رکن بننا اتنا آسان نہیں۔ اس جماعت کی رکنیت کے لیے نہ تو حسب و نسب کام آتا ہے اور نہ ہی دولت مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ اس جماعت میں داخلہ کے لیے کوئی زبردستی نہیں بلکہ فرد اپنی پسند اور اختیار سے آتا ہے۔ جماعت میں داخل ہونے کے بعد ہر مرد و خواتین کو تربیتی سیشن کروائے جاتے ہیں۔ یہ سیشن ہر کارکن کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ان سیشن میں قرآن، حدیث اور لٹریچر پڑھایا جاتا ہے۔ اخلاقیات سنوارنے پر زور دیا جاتا ہے۔ دلائل کے ساتھ معاشرتی زندگی کی اصلاح کی طرف گامزن کیا جاتا ہے۔ نہ صرف اپنے کنبے بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کی فکر کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ اکل حلال اور حرام لقمہ سے اجتناب کو شرط رکھا جاتا ہے۔ انہیں علم حاصل کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ تم مسلمان ہو تمہارا مطمح نظر صرف آخرت ہونا چاہیے، تمہیں دنیا و آخرت میں سرفرازی و ممتازی تبھی ملے گی جب تم اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار اور آپؐ کی تربیت و تعلیمات پر عمل پیرا ہو گے۔ انہیں جہالت، ظلم، ناشکری، بغاوت، نمک حرامی اور غداری سے سختی سے اجتناب کرنے کا کہا جاتا ہے۔ انہیں حق شناس، راست باز بننے اور عمدہ اخلاق اپنانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ انہیں اپنے اندر سے تنگ نظری ختم کرکے اس کی جگہ خودداری، عزت نفس، انکساری، نفس کی پاکیزگی پیدا کرنے کی طرف زور دیا جاتا ہے۔ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ جب دنیا کا دائرہ تمہارے اوپر تنگ ہونے لگے تو اس وقت مایوس اور دل شکستہ نہیں ہونا، اپنے اندر عزم و حوصلہ، صبر و توکل کی طاقت پیدا کرنی ہے، ہر مصائب کا مقابلہ بہادری سے کرنا ہے، اپنے اندر قناعت اور بے نیازی کی شان پیدا کرنی ہے۔ فرض عبادات کا خیال رکھنا اور نوافل کا اہتمام کرنا ہے۔ قرآن و سیرت کا مطالعہ اور ان پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اپنی سیرت و اخلاق کی پاکیزگی کا اہتمام کرنا ہے۔ منافقت اور تنافض کو اپنی زندگی سے دور کرنا ہے۔ آپس میں اتحاد اور محبت کا علم پکڑنا ہے اپنا وقت، جان و مال اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر اس کی خوشنودی میں صرف کرنا ہے۔
کارکنان کو اس خاص تربیت سے گزار کر رکنیت کی طرف منتقل کیا جاتا ہے۔ کارکن سے رکن بننے کا سفر دنوں اور مہینوں پر نہیں بلکہ برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ کئی لوگ بوڑھے ہو جاتے ہیں لیکن رکنیت نہیں ملتی۔ رکنیت کے لیے ذاتی اصلاح، ہمت و کوشش، دین کے لیے اخلاص، عملی کام، سب کچھ دیکھا جاتا ہے۔ جسے رکنیت نہیں ملتی وہ بالکل بھی برا نہیں مناتا نہ ہی اپنے مشن سے دور ہوتا ہے اور جسے مل جاتی ہے وہ اور زیادہ عاجزی اختیار کر لیتا ہے۔ ہوسکتا ہے جماعت کا کوئی رکن انسانی تقاضے کے تحت کبھی کوئی خطا بھی کر جائے لیکن اللہ کی توفیق سے وہ حرام سے ہمیشہ دور ہی رہتا ہے۔ ہر فرد کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام دیا جاتا ہے۔ مرد و خواتین میں سے اگر کوئی بھی اپنی اصلاح، اپنے دین اسلام اور ملک کے لیے کچھ کر کے اپنے توشہ آخرت میں کچھ سرمایہ محفوظ کروانا چاہتا ہے تو جماعت اسلامی اس کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے۔ اس جماعت میں قلمی مجاہدین بھی ہیں، مبلغ بھی ہیں، خدمت خلق میں جانثاری سے کام کرنے والے بھی ہیں اور ملکی نظام کی اصلاح کار کے لیے سیاستدان بھی ہیں۔ جماعت اسلامی کے مضبوط تربیتی نظام کی وجہ ہی سے ایسا ممکن ہوا کہ آج تک جتنے بھی لوگ اسمبلیوں میں گئے ان میں سے کسی ایک پر بھی کرپشن ثابت نہیں ہوسکی۔ رکن اسمبلی یا سینیٹر ہونے کے باوجود ان کے گھریلو حالات ویسے ہی رہے جیسے پہلے تھے۔ ان کے بچوں کی ٹرانسپورٹ بھی عام اور اسکول بھی عام، ان کا رہن سہن بھی عام۔ یہ جوں جوں اقتدار و عہدے حاصل کرتے ہیں توں توں خدمتِ خلق میں زیادہ ڈوبتے ہیں۔ شہادت حق ان کی زندگی کا مشن ہے۔
یہ اسمبلیوں میں صرف اس مقصد کے لیے جاتے ہیں کہ اختیار حاصل کرکے اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کا بول بالا کیا جائے۔ یہ دوسروں کی طرح اقتدار حاصل کرنے کے لیے باؤلے نہیں ہوتے بلکہ ان کا اعلان ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی جماعت اگر مکمل اسلامی نظام نافذ کرتی ہے تو ہم ان کے ساتھ ہیں۔ جب کوئی نظریہ پاکستان اور اسلام کے خلاف کسی قسم کی قانون دانی کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کے خلاف سینہ سپر ہو کر شہادت حق کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت ہی تو ان کا مقصد حیات ہے۔