سوچیے آج ہے انسان جہاں پر موجود
وہ یہاں کتنے مراحل سے گزر کر پہنچا
یہ ہر انسان کو سوچنا چاہیے اور وقتاً فوقتاً سوچتے رہنا چاہیے۔ بڑے لوگ تو جب یہ سوچتے ہیں تو اپنی آپ بیتی لکھ ڈالتے ہیں۔ اپنا بچپن اور تعلیمی دور کی ابتدا کیسے ہوئی، کیا کیا مشکلات پیش آئیں اور کون سے اساتذہ آج بھی یاد آتے ہیں۔ کچھ پہلے کے لوگ بتاتے ہیں کہ اسکولوں کے اساتذہ تمام طلبہ کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتے تھے۔ یاد رہے کہ اُس زمانے میں اسکول سرکاری ہی کے ہوتے تھے، ہر اسکول کے صدر مدرس کی جانب سے تمام اساتذہ کو ہدایت ہوتی تھی کہ سالانہ امتحانات کا نتیجہ بہتر سے بہتر آئے۔ خیر یہ کوشش تو آج بھی ہر اسکول اور اس کے صدر مدرس کی ہوتی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اساتذہ بچوں کے لیے امتحانوں کے زمانے میں خصوصی کلاسوں کا اہتمام کرتے تھے اور یہ سب فری آف کاسٹ ہوتا تھا بلکہ بعض اساتذہ اپنی طرف سے چائے، بسکٹ کا اہتمام بھی کرتے تھے۔
یوں تو آج بھی بہت سے بزرگ اکثر خاندانوں میں موجود ہوں گے جو اس کی گواہی دیں لیکن اگر کسی کو نہ ملیں یا یقین نہ ہو تو معروف مصنف انور غزالی کی کتاب ’’کہانی ابا جی کی‘‘ میں صفحہ نمبر 73 پر پڑھ لیں۔ انتہائی دلچسپ آپ بیتی ہے آج سے پچھتر سال قبل شروع ہونے والی اس سچی کہانی میں اس زمانے کے حالات کا ذکر ادبی چاشنی کے ساتھ موجود ہے۔ اور بڑی چشم کشا حقیقتیں بیان کی گئی ہیں۔ اب آج کے اسکولوں اور ان کے اخراجات کی بات کی جائے تو حالت یہ ہے کہ والدین اسکولوں کی فیسوں اور آئے دن کے مزید اخراجات سے بے حال ہیں، اکثر والدین اپنے بچوں کے اسکول تبدیل کروا رہے ہیں یا ہوم اسکولنگ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک والد صاحب کا کہنا ہے کہ نجی اسکول کی پڑھائی اچھی ہے لیکن فیس کی ادائیگی کی اب سکت نہیں رہی، لہٰذا دوسرے کم فیس والے نجی اسکول میں ڈالا ہے۔ ہمارے زمانے میں تو سرکاری اسکول سے پڑھ کر بھی بچے اچھے نمبر لے لیتے تھے۔ اب تو نجی اسکولوں میں ہزاروں روپے فیس بھروا کر وہی ٹیچر کہتے ہیں کہ شام کو ہم سے ٹیوشن لے لو۔ جس کی ہزاروں روپے فیس دوبارہ بھرو۔ بھئی دن میں بھی تو آپ ہی استاد ہوتے ہیں تو پھر کیا کمی رہ جاتی ہے کہ آپ ٹیوشن کے لیے گھروں میں بلاتے ہیں۔
پھر نجی اسکول اپنی کتابوں، کاپیوں اور یونیفارم کے لیے الگ خرچہ کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیمی نظام تو قابل رحم صورت حال میں ہے ہی اس سے زیادہ قابل رحم حالت والدین اور بچوں کی ہے۔ ناقص حکومتی پالیسیاں تعلیمی معاملات میں حکومتی پارٹیوں کی مداخلت خصوصاً سرکاری اسکولوں میں سفارشی اساتذہ اور دیگر کے غیر ضروری تبادلے گھوسٹ اسکول جہاں گدھے اور مویشی بندھے ہوتے ہیں، اساتذہ خود کیوں کہ سفارشی اور نااہل ہوتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کی کیا خاک تعلیمی رہنمائی کریں گے۔ فرنیچر، پنکھے تو ایک طرف سرکاری اسکولوں میں بیت الخلا یا تو موجود نہیں ہوتے یا جانے کے قابل نہیں ہوتے۔ پچھلے وقت میں اگر سرکاری اسکول بہترین کارکردگی دکھاتے تھے اور ہر لحاظ سے ایسے شاندار تھے کہ لوگوں کی اکثریت سرکاری اداروں میں داخلے کو ترجیح دیتی تھی۔ جو طالب علم نجی اداروں داخل کرایا جاتا وہ پڑھائی میں نکھٹو اور کمزور سمجھا جاتا تھا کہ ہائے بے چارے کو سرکاری اسکول میں داخلہ نہیں ملا۔
اب سرکاری اسکول کالج کیوں ایسے بدحال ہیں؟؟ حالاں کہ اساتذہ کی تنخواہیں تو بڑی بڑی ہیں لیکن اسکول تباہ حال اور طالب علم بے حال… معاملہ وہی ہے کہ سفارش پر نااہل لوگ بھرتی کرلیے جاتے ہیں۔ بلکہ ان ملازمتوں کے لیے بڑی بڑی رقوم رشوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ بجٹ میں پہلے ہی تعلیم کے لیے انتہائی قلیل رقم رکھی جاتی ہے اور جو ہوتی ہے اس کا استعمال غلط ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں فیس کا معاملہ ہو یا نصاب کا یا اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کا، سب ہی کے سلسلے میں ایک درست پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے ایک سو پچانوے ممالک میں سے پاکستان کا نمبر ایک سو پینسٹھ واں ہے۔ اور یہ اسی وجہ سے ہے کہ کبھی حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ (اشرافیہ) نے تعلیم پر سنجیدگی سے کوئی پالیسی بنائی ہی نہیں کہ کس عمر میں بچوں کو کیا کیسے اور کس زبان میں سکھانا ہے؟
یورپین ممالک میں بچے پانچ سال سے پہلے اسکول ہی نہیں جاتے۔ فن لینڈ میں تو سات سال سے قبل اسکول میں داخلہ نہیں دیا جاتا۔ وہاں کسی ریاضی کے استاد سے پوچھا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں، وہ مسکراتے ہوئے بولے میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں کیوں کہ اس طرح آپ زندگی کے ہر سوال کو باآسانی حل کرسکتے ہیں۔