حالیہ سیلابی صورتحال ، جنگلی حیات شدید نقصان کی زد میں

332

کراچی(اسٹاف رپورٹر) حالیہ سیلاب اورمون سون بارشوں سے جہاں انسانی آبادیوں، زراعت، لائیواسٹاک اورانفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے وہیں متاثرہ علاقوں میں جنگلی حیات اور ان کی آماجگاہوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

ہزاروں جانورمحفوظ اوراونچے مقامات کی طرف ہجرت کرگئے ہیں جبکہ بلوچستان میں سب سے زیادہ جنگلی حیات متاثرہوئی ہے۔ماہرین کاکہنا ہے انسانی جانوں اورآبادیوں کو بچانے کے ساتھ جنگلی حیات کے حوالے سے بھی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو اس وقت تاریخ کے بدترین سیلاب کی صورتحال کا سامنا ہے۔ نینشل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے ملک بھرکے 66 اضلاع کو آفت زدہ قراردیا جاچکا ہے۔ سب سے زیادہ 31 اضلاع بلوچستان، سندھ کے 23، خیبرپختونخواہ کے 9 اور پنجاب کے تین اضلاع بری طرح متاثرہوئے ہیں۔

ان اضلاع میں جہاں انسانی آبادیوں، زراعت، لائیواسٹاک اورانفراسٹرکچرکو نقصان پہنچاہے وہیں جنگلات اورجنگلی حیات بھی متاثرہوئی ہے۔ پنجاب کے متاثرہ علاقوں راجن پور، لیہ اورڈی جی خان میں پاڑہ ہرن، جنگلی خرگوش، کالا اوربھورا تیتر سمیت زمین پررہنے والے دیگر جانور اور پرندے متاثر ہوئے ہیں۔ جبکہ سندھ میں حالیہ سیلاب نے جنگلی اور آبی حیات کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔

دریائے سندھ کے دائیں اور بائیں کنارے کے دریائی جنگلات میں ہرن، جنگلی سور، تیتر، جنگلی بلی، لومڑی اور گیدڑ پائے جاتے ہیں، جبکہ یہ علاقہ سانپوں، چھپلکیوں کا بھی مسکن ہے۔ سرکاری جنگلات کے علاوہ نجی جنگلات جنہیں مقامی طور پرکیٹی کہا جاتا ہے وہ بھی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جوجنگلی حیات کااہم مسکن ہیں۔

وائلڈلائف سندھ کے ذرائع کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاڑہ ہرن کی اچھی خاصی آبادی ہے خدشہ ہےکہ ہرنوں کی بڑی تعدادسیلابی پانی میں بہہ گئی ہے ۔سیلاب کاپانی اترنے کےبعددرست صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکے گا۔ سندھ کے متاثرہ علاقوں کالا اوربھورا تیتربھی بکثرت پایا جاتا ہے۔

جنگلات وجنگلی حیات کے ماہربدرمنیرنے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تیتر بڑی پرواز نہیں کرسکتا ہے اور تھوڑی پرواز کے بعد زمین پر دوڑنے لگتا ہے۔ یہ انڈے بھی زمین پر جھاڑیوں میں ہی دیتے ہیں اوران دنوں تیترکا بریڈنگ سیزن بھی چل رہا ہے۔سیلاب سے تیتر کے انڈے ضائع ہوگئے ہیں جس سے ان کی آبادی متاثرہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ تیتر قریبی کھیتوں اور درختوں پرپناہ لیتے ہیں اورپانی اترنے پرواپس آجائیں گےمگر خدشہ یہ ہے کہ ساٹھ سے ستر فیصد آبادی متاثر ہوئی ہے۔

ماہرین جنگلی حیات کے مطابق دریائے سندھ کے جنگلات میں رینگنے والے جانداروں کی اکثریت پانی میں بہہ گئی ہے اور ان کے بل مکمل طور پر زیر آب آگئے ہیں، ان جانداروں میں سانپ، چھپکلیاں، کیڑے مکوڑے شامل ہیں۔ سیلاب سے لومڑی، گیدڑ ، چوہے، جنگلی بلی، اود بلاؤ بھی متاثر ہوئے ہیں۔

پنجاب وائلڈلائف ماہرین کے مطابق سیلاب نے دریائے سندھ میں موجود نایاب انڈس ڈولفن کو بھی متاثر کیا ہے۔دریائے سندھ میں طغیانی کی وجہ سے انڈس ڈولفن ڈاؤن اسٹریم میں سے نکل کر نہروں میں چلی جاتی ہے اور جنوری میں جب یہ نہریں بھل صفائی کے لیے بند کی جاتی ہیں تو اس وقت انہیں بچا لیا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے جیسے ہی سیلابی صورتحال ختم ہوگی بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے جنگلی حیات اور ان کی مسکن کا سروے ہوگا جس کے بعد ان کی بحالی کا منصوبہ بنایا جائے گا۔

سیلاب نے سب سے زیادہ بلوچستان کو متاثرکیا ہے جو جنگلی حیات کے حوالے سے پاکستان کا سب سے زرخیز صوبہ ہے۔ پاکستان میں ممالیہ جانوروں کی کل تعداد 188 ہے، جس میں سے 71 بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح پرندوں کی کل تعداد 666 ہے، جن میں سے 356 بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔ 174 رینگنے والے جانوروں میں سے 94 بلوچستان میں موجود ہیں۔ جب کہ جل تھلی جانوروں (ایمفیبیئن) کی 14 اقسام میں سے آٹھ بلوچستان میں پائی جاتی ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں تین نیشنل پارک، 14 وائلڈ لائف سینچریز ہیں۔ جبکہ آٹھ گیم ریزرو ایریاز، پانچ رامسر سائیڈ اور ایک کومینجمنٹ آف پروٹیکٹڈ علاقہ ہے۔

جنگلی حیات کی کنزرویشن کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت رکھنے والے ڈاکٹرعاشق احمد خان کا کہنا ہے کہ سیلاب سے بڑے جانوروں اورپرندوں کی بجائے چھوٹے جانوروں اوررینگنے والے جانوروں کو نقصان پہنچا ہے۔ بڑے جانور محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں جبکہ پرندے بھی یہ علاقہ چھوڑجاتے ہیں۔ بلوچستان میں برفانی چیتا، سیاہ اور بھورے ریچھ، اود بلاؤ، لومڑی کی کئی اقسام سمیت ہمالیہ کی پہاڑی بکری، مارخور،مارکو پولو بھیڑ، شاپو( جو گھڑیال کی ایک قسم)، مشک ہرن، جنگلی مرغابی، تیتر اور اس کی نسل کا رنگین پرندہ ٹریگوپان وغیرہ یہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مونال، سرخاب، بھورے رنگ کے خرگوش، اور سائبیریا سے آنے والے سینکڑوں پرندے بلوچستان کی جنگلی حیاتیاتی تنوع کا حصہ ہیں۔

ڈاکٹرعاشق احمد کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے نیشنل پارک، زیارت کا گیم ریزروایریا اورموسی خیل ضلع متاثرہوئے ہیں۔ موسی خیل میں سلیمان مارخور اوراڑیال کا مرکز ہے، یہاں ان جانوروں کی ٹرافی ہنٹنگ کروائی جاتی ہے۔موسی خیل پنجاب سے متصل ہے ۔اسی طرح زیارت نیشنل پارک، ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک اور ہنگول نیشنل پارک قابل ذکرہیں۔یہاں بلوچستان کا سب سے بڑا دریا ہنگول بہتا ہے۔ اس پٹی پر چنکارہ، اڑیال اور ہرن ملتے ہیں اور کہیں کہیں چیتے اور مگر مچھ بھی پائے جاتے ہیں۔ سرد موسم میں سائبیریائی پرندے بھی آ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیارت نیشنل پارک میں سلیمان مارخور موجود ہیں۔

خیبرپختونخواہ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں سوات، ڈی آئی خان، ٹانک،لوئردیر، نوشہرہ، چارسدہ، صوابی، لوئرکوہستان، شانگلہ اورمردان میں بھی جنگی اورآبی حیات کو نقصان پہنچا ہے۔ان علاقوں میں آئی بیکس، بلیوشیپ، برفانی چیتا، بھورا ریچھ، تبتی بھیڑیا، مارموط ، بٹیر، چکور،کالا تیتر ، بھوراتیتر، فاختہ، بلبل، گیدڑ، جنگلی خرگوش،جنگلی بلی، سیہہ، جنگلی سور، نیولا،ہمالی طاؤس اور تیندوے جیسے جانوراورپرندے پائے جاتے ہیں۔ ماہرین جنگلی حیات کاکہنا ہے سیلاب زدرگان کی امداد اوربحالی کے ساتھ ساتھ ہمیں جنگلی حیات اور ان کی آماجگاہوں کی بحالی اورتحفظ پر بھی کام کرنا ہوگا۔ غیرقانونی شکاراورموسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پہلے ہی جنگلی حیات ناپید ہوتی جارہی ہے سیلاب کی وجہ سے ان کی آبادی اورمتاثرہوگی۔

جنگلی حیات کےماہر بدرمنیرکہتےہیں سیلاب کی صورتحال بہتر ہوتے ہی متاثرہ علاقوں میں جنگلی حیات کا سروے شروع کیا جانا چاہیئے۔انہوں نے بتایا کہ جنگلی حیات کی بحالی میں تین سال لگ سکتے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں جنگلی حیات کے شکار پر مکمل پابندی عائد کرنا ہوگی۔

حالیہ سیلاب کے دوران دریائے سندھ کے جنگلات میں رینگنے والے جانداروں کی اکثریت پانی میں بہہ گئی ہے اور ان کے بل مکمل طور پر زیر آب آگئے۔ ان جانداروں میں سانپ، چھپکلیاں، کیڑے مکوڑے شامل ہیں۔