شجاعت اور دلیری کی نئی داستانیں رقم ہورہی ہیں، ہست بر مومن شہید زندگی۔ بر منافق مرد نست وزندگی۔ مولانا روم نے کہا کہ مومن کے لیے شہادت زندگی ہے، منافق کے لیے موت اور تباہی ہے۔ جس نے ایک انسان کی جان بچالی، اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی، سیلاب نے کیسی تباہی مچائی ہے، کیا اس بار واقعی پہاڑ روئے ہیں؟ اگر یہ پہاڑ انسان کے، انسان پر حد سے زیادہ ظلم پر روئے ہیں تو پھر انسان ہی اس سیلاب میں کیوں ڈوبے، ظالم اور طاقت ور تو اب بھی نشہ میں چور ہیں، وہی منافقت، وہی چوری، وہی لوٹ مار، اس بار انہیں سیلاب پر چندہ کھانے، امداد کا مال جمع کرنے کا موقع پھر مل گیا ہے، انسانیت کا درد رکھنے والے تو اپنے حصہ کا کام کررہے ہیں، دنیا بھر سے پاکستان کو امداد، سیلاب کے آفت زردگان کے نام پر ملے گی، لیکن کیا یہ سرکار اور حکمرانوں کے ہاتھوں سے اہل، مستحق غربت کے مارے، گھروں سے محروم، پانی سے گھرے، بھوکے ننگے عوام تک پہنچ پائے گی؟
سندھ میں تباہی بہت پھیلی ہے، سلسلہ رکا نہیں ہے، ابھی اور پھیلے گی، بلکہ پھیلائی جارہی ہے، اپنی زمینوں اور فصلوں کو بچانے کے لیے پانی کے ریلے کا رخ آبادیوں کی طرف کیا جارہا ہے، اب پرانا دور نہیں ہے، یہ واقعات چھپے نہیں رہ سکتے۔ مکروہ چہرے سب کے سامنے ہیں، ان کے کرتوت بھی سامنے ہیں، ان کی منافقت کا پردہ چاک ہورہا ہے، یہ جو، ادھی کا شوہر پچاس پچاس روپے غریبوں میں بانٹ کر حاتم طائی کی سخاوت کو چیلنج کررہا ہے، یہ مصیبت زدہ افراد کا مذاق اُڑا رہا ہے، پورے پاکستان میں دوسو سے زائد ہیلی کاپٹر حکومت کے پاس ہیں، امدادی سرگرمیوں میں کہیں نظر نہیں آگئے، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے تک پانی میں گھرے مصیبت کے مارے افراد امداد کے لیے پکارتے پکارتے لوگوں کے سامنے پانی کے ریلے میں بہہ گئے۔ روتے ہوئے انسان حالات سے مجبور کے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں، نہ کشتی، نہ ہیلی کاپٹر، نہ کوئی اور امداد کا سامان، لوگ کمر سے رسے باندھ کر بپھرتی موجوں کا مقابلے کررہے ہیں، زندگی کا ٹمٹماتا چراغ پھر سے جلارہے ہیں، جن کو بچاسکتے ہیں، بچارہے ہیں، باپ اپنے دو بیٹوں کی جان بچانے کے لیے سرکش موجوں سے لڑ رہا ہے، بہتے پانی میں پوری قوت سے دونوں بچوں کو اٹھا کر تیرنے اور کنارے پر کھڑے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کررہا ہے۔ کامیاب بھی ہوجاتا ہے، اور بچوں کو محفوظ ہاتھوں میں بھی دے دیتا ہے، لیکن خود موجوں میں بہہ جاتا ہے، ان پانچ بھائیوں کی فریاد سن رہا ہوں۔ جو پانی سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے امداد کے لیے پکار رہے ہیں۔ لوگ انہیں دیکھ رہے ہیں، ویڈیو بنارہے ہیں۔ مدد کے لیے اداروں کو پکار رہے ہیں۔ لیکن کوئی امدادی ہیلی کاپٹر نہیں پہنچا اور پانچوں نوجوان پانی میں بہہ گئے۔ الخدمت کے نوجوان ہیں جان کی پروا کیے بغیر رسوں سے ڈوبی ہوئی کار کو پانی سے نکال رہے ہیں۔ اللہ جس کو چاہے زندگی دے۔ دو خواتین زندہ بچ گئی۔ پاکستان میں بارشوں کا 30سالہ ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ روز سیلاب سے ہونے والی اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے، لاشیں پانی میں تیر رہی ہیں۔ مجموعی طور پر 14 جون سے اب تک طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ایک ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ سیلابی ریلوں نے پل سڑک ریلوے لائین سب کچھ توڑ پھوڑ دیا ہے۔ بہت سے علاقوں کی حالت بہت مخدوش ہے۔ لوگوں کے پاس پینے کے لیے پانی نہیں ہے، کھانے کے لیے خوراک نہیں ہے، پہننے کے لیے کپڑے نہیں ہیں، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں مائیں نڈحال ہیں، جانور پانی میں بہہ گئے، جو بچ گئے ہیں، بھوکے کھڑے ہیں، ان کے لیے چارہ کہاں سے آئے۔ جانور کے تھن دودھ سے محروم ہیں اور بچے بھوک سے بے حال ہیں۔ سارے المیے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے آنے والے پانی ہولناک تباہی مچائی ہے، لوگ بے گھر ہیں، ہزاروں ایکڑ فصلیں زیر آب آگئیں۔ جتنی بڑی تباہی ہوئی ہے، اتنی بڑی تیاری نہیں ہوئی، این ڈی ایم اے کا ادارہ کھوکھلا اور بے جان ہے، نہ کوئی تیاری نہ کوئی ویژن۔ بس امداد کا انتظار کررہا ہے۔ جماعت اسلامی کی الخدمت اور کچھ این جی اوز رضاکارانہ طور پر امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں مگر اس کے باوجود متاثرین سیلاب کو موقع پر مکمل امداد فراہم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ تمام سرکاری مشنری کو سیلاب متاثرین امداد میں حرکت میں لانے کے بجائے مخالفین کی گرفتاری اور عمران خان کی دہشت گردی کی ایف آئی آر پر عملدرآمد کرانے کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ نیا پاکستان والے اب بھی جلسوں میں مصروف ہیں۔ انہیں بھوک سے بلکتے بچے پریشان اور مفلوک الحال امداد کی منتظر عوام نظر نہیں آ رہے۔ امداد کے لیے سیکڑوں کیمپ، خوراک اور طبی امداد کی ضرورت ہے۔ این ڈی ایم اے صرف نقصانات کی رپورٹ بنا رہا ہے۔ زیریں سندھ کے حیدر آباد اور میرپور خاص کے اضلاع بدین، ٹھٹھہ، سجاول، سانگھڑ اور عمر کوٹ میں کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ کچے مکانات گر گئے ہیں۔ پہلے بارشوں میں لوگ دیہاتوں سے باہر نکل کر سڑک پر آکر بیٹھ جاتے تھے لیکن اس بار سڑکیں بھی زیر آب آگئی ہیں۔ منافع خوری کو کوئی
موقع ہم ضائع نہیں کرتے اس لیے خیموں کی قیمت دو دن پہلے تین چار ہزار تھی اب ان خیموں کی قیمت دس سے بارہ ہزار روپے کردی گئی ہے۔ سندھ میں حکومت امدادی کام میں مصروف این جی اوز کے آسرے پر ہے، اور ان اداروں سے کہا جارہا ہے کہ امدادی سامان حکومت کے حوالے کردیں، وہ مستحقین میں تقسیم کریں گے۔ ان کے گوداموں میں تو اب تک پچھلا امداد ی سامان بھرا ہوا ہے، میرپور خاص میں ایک سرکاری گودام سے ہزاروں مچھر دانی برآمد ہوئی ہیں، جو غریبوں میں مفت تقسیم کرنی تھی۔ غریبوں کو امداد کے نام جو سامان غیر ممالک بھیجتے ہیں، وہ بین الاقوامی معیار کا ہوتا ہے، جب امداد کے نام پر چاکلیٹ، دودھ کے ڈبے، بہترین ٹینٹ، بستر اور کپڑے آتے ہیں تو سرکاری اہلکاروں کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔ وہ کہتے یہ قیمتی چیزیں ان غریبوں میں تقسیم کریں، یہ تو انہیں خراب کردیں گے۔ یہ ان کے لیے نہیں ہیں، انہیں علٰیحدہ رکھ دو، یہ ہم آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ ایسے کفن چور حکمرانوں کے دور میں سیلاب اور آفات نہ آئیں تو کیا آئے، پھر کہتے ہیں سیلاب اور زلزلے کیوں آتے ہیں؟