بلوچستان کے علاقہ خضدار میں سیلاب نے تباہی مچا دی، مجھے الخدمت فاؤنڈیشن کے ایک امدادی کیمپ پر جانے کا اتفاق ہوا جہاں سیلاب زدگان کے لیے خوراک، ادویات اور خیموں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایک شام میں خیمے کے باہر کھڑا ہوا تھا، ایک خاتون سکینہ ڈھونڈتی ہوئی خیمے کے پاس آئی اور پوچھا کہ مجھے کھانے کے لیے کچھ غذا چاہیے میرے بچے بھوکے ہیں کیمپ میں بیٹھے فرد نے کہا ابھی تو کھانا ختم ہوگیا ہے صبح ٹرک پہنچیں گے ہم آپ کو پورے مہینے کا راشن دیں گے۔ اس عورت کی جیسے امید ہی ٹوٹ گئی ہو۔ کیمپ میں واقعی منتظمین کے لیے بھی کھانا موجود نہیں تھا۔ سکینہ جب واپس جارہی تھی اس نے مجھے جاتے جاتے جو بات کہی اس نے میری جان نکال لی، اس نے کہا کہ میں تو سنا ہے کہ ’’سراج الحق کے خیمے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا‘‘ اس عورت کو میں نے الخدمت فاؤنڈیشن کے خیمے میں بلایا جو کھانے کے ٹکڑے اور میری بیوی نے مجھے کچھ خشک میوہ جات دیے تھے جو بچ گئے تھے وہ میں نے اس عورت کو دیے اور تاکید کی صبح کیمپ میں آکر اگلے مہینے کا مکمل راشن لے جائیں، سارا منظر دیکھ کر مجھے خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق کا دور حکومت یاد آگیا۔
سیدنا عمر فاروق کی مبارک عادتوں میں سے ایک عادت یہ تھی کہ رعیت کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے رات کے وقت خود چل کر جائزہ لیا کرتے تھے اور جس کسی کو امداد کا مستحق خیال کرتے، رات کی تاریکی میں ہی ضرور مدد فراہم کر دیتے۔ یہ عادت رمادہ کے زمانے میں بھی جاری رہی بلکہ رمادہ کے زمانے میں وہ معاشرتی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھ رہے تھے اور ان کا تجزیہ بھی کیا کرتے۔ امام ابن کثیر نقل کرتے ہیں کہ رمادہ کے سال اْنہوں نے رات کے وقت مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت کیا تو کسی کو ہنستے نہیں پایا، نہ ہی لوگوں کو اپنے گھروں میں حسبِ عادت گفتگو کرتے سنا اور نہ کسی مانگنے والے کو مانگتے دیکھا۔ یہ صورت حال چونکہ خلاف ِ معمول تھی اس لیے اْنہوں نے فوراً محسوس کیا، چنانچہ اس کے سبب کے بارے میں دریافت کیا۔ اْنہیں بتایا گیا کہ اے امیر المؤمنین! سوال کرنے والے سوال کرتے رہے لیکن اْنہیں کچھ نہیں دیا گیا، اس لیے اْنہوں نے مانگنا اور سوال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ لوگ پریشانی اور تنگ دستی کا شکار ہیں، اس لیے نہ تو حسبِ معمول گپ شپ لگاتے ہیں اور نہ ہی ہنستے ہنساتے ہیں۔ ایسے حالات میں عمر صرف سرکاری رپورٹوں پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ رات کے اندھیرے میں خود جا کر حالات معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر کی کوشش یہ تھی کہ قحط سالی سے متاثرہ عوام کے دکھوں کا مداوا بیت المال سے کیا جائے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ بیت المال میں جو کچھ تھا، وہ اْنہوں نے خرچ کر دیا، یہ ان کا معمول تھا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری کے نام اپنے ایک مکتوب میں اْنہوں نے حکم دیا کہ سال میں ایک دن ایسا مقرر کرو جب خزانہ میں ایک درہم تک باقی نہ رہے اور وہاں جھاڑو لگا دی جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہو کہ میں نے ہر حقدار کا حق ادا کردیا ہے۔ صرف مقامی بیت المال سے امداد پر انحصار کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اْنہیں اْمید تھی کہ شاید قحط کا سلسلہ جلد ختم ہو جائے گا، مصیبت ٹل جائے گی اور باہر سے امداد منگوانے کی ضرورت نہ رہے گی لیکن خشک سالی جیسے جیسے طول پکڑتی گئی، عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا اور مدینہ منورہ کا بیت المال بھی خالی ہو گیا، تب سیدنا عمر نے امداد بھجوانے کے لیے صوبوں کو خطوط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ تاریخی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں انہوں نے ابو عبیدہ عامر بن جراح کو خط لکھا۔ شام کے گورنر سیدنا معاویہ اور عراق کے گورنر سعد بن ابی وقاص کو بھی لکھا۔ یہ خطوط انتہائی مختصر اور زور دار تھے۔ سب سے پہلے جس شخص کو مدد پہنچانے کی سعادت ملی، وہ ابو عبیدہ عامر بن جراح تھے۔ وہ امداد لے کر بنفس نفیس مدینہ منورہ پہنچے۔ ابو عبیدہ غذائی سامان سے لدے ہوئے چار ہزار اونٹ لے کر مدینہ منورہ پہنچے۔ سیدنا عمر نے مدینہ منورہ کے اردگرد قیام پزیر قحط زدگان کے درمیان یہ غذائی سامان تقسیم کرنے کا کام ابو عبیدہ کے سپرد کیا۔ تقسیم کا کام سیدنا ابوعبیدہ کے سپرد کرنے میں دو فائدے تھے۔ ایک تو یہ کہ دوسروں کے مقابلے میں وہ زیادہ جوش جذبے کے ساتھ یہ خدمت انجام دیں گے۔ دوسرے یہ کہ وہ خود اپنی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کر لیں گے اور واپس جا کر اہل شام کو حالات سے آگاہ کر سکیں گے۔
میری پاکستان کی عوام سے گزارش ہے کہ اپنا حصہ ڈالیں اور غریب کا سہارا بنیں ورنہ طوائفوں کے کوٹھے اور سرداروں کے بستر آباد ہوتے رہیں گے، حاکم وقت تو سو رہا ہے لیکن آپ ہی جاگ جائیں آج پاکستان کے بیش تر حصے سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں پاکستان میں 2022 کا مون سون غیر معمولی حد تک طویل اور تباہ کن رہا ہے جس نے ملک کے طول و عرض میں سیلابی کیفیت پیدا کی۔ ملک کے شمال میں گلگت بلتستان سے لے کر جنوب میں کراچی تک ہلاکتوں اور تباہی کا سلسلہ اب تک نہیں رکا اور نہ ہی حکومت اب تک اس سے ہونے والے مالی نقصان کا تخمینہ لگا سکی ہے۔
پاکستان کے وفاقی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے 14 جون سے اب تک کے مجموعی اعداد و شمار کے مطابق دو ماہ کے دوران 649 اموات ہو چکی ہیں اور ملک کے 103 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ اعداد وشمار پر نظر دوڑائیں تو بلوچستان کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں کے 27 اضلاع اور تین لاکھ ساٹھ ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں اب تک ایک 196 اموات ہو چکی ہیں جبکہ 81 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں انفرا اسٹرکچر کی بات کریں تو ساڑھے 21 ہزار مکانات، 690 کلومیٹر طویل شاہراہیں، 18 پل اور ایک لاکھ سے زیادہ مویشی متاثر ہوئے۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا کے 9 اضلاع سیلاب سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوئے جن میں اب تک بارشوں کی وجہ سے کئی سیلابی ریلے آئے۔ خیبر پختون خوا میں 74 بچوں سمیت 132 اموات ہو چکی ہیں جبکہ 148 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے میں مجموعی طور پر پچاس ہزار افراد متاثر ہوئے لیکن انفرا اسٹرکچر کی مد میں نقصان بلوچستان کی طرح نہیں ہوا۔ ساڑھے چھے کلومیڑ کی سڑکیں اور سات پل متاثر ہوئے جبکہ پانچ ہزار گھر جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوئے۔ سندھ میں 17 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، 66 بچوں سمیت 141 اموات ہوئی ہیں اور تقریباً پانچ سو افراد زخمی ہوئے۔ صوبے میں ساڑھے پانچ لاکھ افراد اور 32 ہزار سے زیادہ مکانات متاثر ہوئے۔ انفرا اسٹرکچر کے نقصان کی بات کریں تو 33،048 مکانات، اکیس سو کلومیٹر طویل سڑکیں متاثر ہوئی ہیں، 45 پل اور 32 دکانیں بھی متاثر ہوئیں۔ پنجاب میں تین اضلاع میں 141 اموات ہوئیں اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد مجموعی طور پر زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے میں بارہ ہزار سے زیادہ مکانات، 33 کلومیٹر طویل سڑکیں بھی متاثر ہوئیں جبکہ این ڈی ایم اے کے اعداد وشمار کے مطابق سات پلوں کو نقصان پہنچا۔ دوسری جانب گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مجموعی طور پر 38 اموات ہوئیں جہاں بالترتیب چھے اور دس اضلاع کے تقریباً دس ہزار افراد متاثر ہوئے اور آٹھ سو کے قریب مکانات متاثر ہوئے ہیں۔
میری آپ سے گزارش ہے اپنے فنڈز سراج الحق کی الخدمت فاؤنڈیشن کو دیں۔ جسے دیانتدار کے لقب سے پہچانا جاتا ہے، جو صرف سیاست کے لیے ہی نہیں بلکہ خدمت کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سیلاب میں ڈوبے ہوئے علاقوں میں جارہا ہے تاکہ لوگوں کی خدمت کرکے اپنے رب کو خوش کرسکے، کئی کئی گھنٹے سفر میں رہتا ہے، خود بھوکا رہتا ہے تاکہ لوگوں کی بھوک ختم کی جاسکے، اپنے فنڈز سراج الحق کی الخدمت فاؤنڈیشن کو دیں تاکہ سراج الحق کا خیمہ چلتا رہے، لوگوں کھانا کھاتے رہیں، ان کا علاج ہوتا رہے، انہیں خیمے ملتے رہیں۔ ریگستانوں میں لوگوں کو پینے کے لیے پانی ملتا رہے، سردیوں میں فٹ پاتھ پر پڑے ٹھٹھرتے لوگوں بے آسرا لوگوں پر خاموشی سے کمبل ڈالے جاتے رہیں، لاکھوں یتیم بچوں کو بہترین تعلیم ملتی رہے انہیں یہ احساس نہ کہ ہم بے آسرا ہیں، تاکہ غریب کا علاج الخدمت کے اسپتالوں سے مفت ہوتا رہے۔