!!وقت فتح قریب ہے

1382

آج جماعت اسلامی کو ایک ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ عوام ہیلی کاپٹر کی رقم کا بندوبست کرا دیں گے ان شا اللہ مگر میری قوم کے لوگوں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر اتنا سوچیں کہ جو جماعت بنا کسی اقتدار کے آج مصیبت کی اس گھڑی میں ایک ہیلی کاپٹر کے لیے اتنی پریشان ہو رہی ہے سراج الحق صاحب آبدیدہ ہوگئے ان پانچ بھائیوں کو نہ بچا سکے حالانکہ یہ کام تو حکومت کے اداروں کا تھا۔ اگر ایسی جماعت اقتدار میں ہوتی تو شاید آج پورے پاکستان کے ہیلی کاپٹر اس آفت کے وقت میں امدادی کام کر رہے ہوتے۔تو آئیں آج عہد کریں کہ آئندہ ہر سطح پر ووٹ جماعت اسلامی کو دیں گے تاکہ ملک کی باگ ڈور ایک عوام دوست جماعت چلائے جس کا دل پتھر کا نہ ہو جو ایسی بے حس نہ ہو جیسی موجودہ حکومت ہے۔
سندھ حکومت کی شرمیلافاروقی اپنی دوستوں کے ساتھ پارٹیاں منا رہی ہیں کیا یہ وقت پارٹیاں منانے کا ہے؟ یا سیلاب زدگان کے ساتھ کھڑے رہنے کا؟ کیوں حکمرانوں کے دل اتنے سخت ہو گئے ہیں کیوں ان کے دل عوام کے درد پر نہیں کانپتے کیا ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے؟یاد رکھو اپنے وقت کے بڑے بڑے بادشاہوں کے تختے اللہ نے پلٹ ڈالے ہزاروں لاکھوں میلوں پر پھیلی سلطنتیں صرف اسی وجہ سے ان بادشاہوں کے ہاتھوں سے نکل گئیں کہ وہ عیاشیوں کے اندھیروں میں ڈوب گئے تھے۔تو ڈرو اس وقت سے جب تمہارا بھی انجام ان ہی جیسا نہ ہو جائے۔ قریب ہے وہ وقت جب عوام میں شعور آجائے گا اور حکومت جماعت اسلامی کی ہوگی ان شاء اللہ۔ میری ارض وطن نے بہت مشکلات کاٹ لیں کہتے ہیں نہ کہ اللہ بندے سے اس کی برداشت سے زیادہ آزمائش نہیں لیتا تو بس وہ وقت بہت قریب ہے جب فتح حق کی ہوگی۔ اور جیت ترازو کی ہو گی۔ بس جاگ اٹھو! میرے پاکستانیوں اور دیکھو کہ مصیبت کی ہر گھڑی میں تمہارے شانہ بشانہ کون کھڑا ہے۔ مانا کہ عمران خان اسمارٹ ہے مگر میرے ملک کے لیے اس کی اسمارٹ نیس کسی کام آرہی ہے ؟ مانا کہ ایم کیو ایم اردو زبان پر سیاست کرتی رہی مگر سب سے زیادہ نقصان بھی اردو زبان والوں کا یعنی کراچی والوں کا ہی کراتی رہی۔ مانا کہ ن لیگ کا انتخابی نشان شیر ہے مگر وہ ایک بزدل چوہے کی طرح ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جم کر کون کھڑا ہے کون ہے جس کے قدم بڑی سے بڑی مشکل میں ڈگمگاتے نہیں ہیں؟
وہ ہے صرف اور صرف ’’جماعت اسلامی‘‘ تو میرے ہم وطنوں اب غاصبوں چوروں لٹیروں کے ہاتھوں کو مزید مضبوط نہ کرنے کا عہد کریں اؤ آج ایک آواز ہو کر بولیں
’’حل صرف جماعت اسلامی‘‘
نزہت ریاض کراچی
کیا ہم آزاد ہیں
’’کیا ہم آزاد ہیں؟‘‘ یہ سوال جب بھی سامنے آتا ہے تو زنگ آلود ذہن کے آدھے پونے کھلے دریچوں سے باہر کی جانب سے آزاد ہلکی ہوا آنے لگتی ہے۔ جیسے آزادی کی ہوا اس زنگ کو صاف کرنا چاہ رہی ہو اور ذہن خود ہی زنگ اُتارنے پہ آمادہ نا ہو گویا ذہن اس زنگ میں لپٹا غلام ہے جس پہ آزادی کی ہوا کا کچھ اثر نا ہو۔ ایسے میں صرف ایک ہی جواب سمجھ میں آتا ہے: ہم توپوں، بندوقوں کی گھن گرج سے چھلنی ہونے سے تو کافی حد تک آزاد ہیں مگر ہماری ذہنیت پر ابھی بھی غلامی کی سوئیاں چمٹی ہوئی ہیں۔ ہم اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے تو آزاد ہیں مگر ہمارے پیروں میں ابھی بھی غلامی کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں اور ان بیڑیوں میں خون آلود پیر ہمارے اپنے ہی خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ہم نظریہ اسلام کے سبب آزاد تو ہو گئے ہیں مگر ہمارے ذہن میں ابھی بھی مغربی افکار کا زنگ لگا ہوا ہے۔ ہم نے انگریزوں سے آزادی تو حاصل کر لی ہے مگر انگریزی سے ابھی بھی رہائی نا پا سکے۔ ہم ذہنی غلام بن کر خود کو کامیاب تصور کرتے ہیں اس لیے آزاد ہو کر بھی ہم غلام ہیں۔ ہم آزادی کا دن مناتے ہیں لفظ آزادی کے مقاصد، نظریات سے ناآشنا ہو کر۔
کسی کا ایک خوبصورت جملہ:
’’پاکستان کا ایک مقصد تھا، مقصد پاکستان نہیں تھا‘‘
پاکستان تو آزاد کر لیا مگر جس مقصد کی خاطر آزاد ہوا وہ مقصد ہم بھول گئے، وہ نظریہ ہم بھول گئے۔ ہم آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا! آپ آزاد ہیں آزاد رہیں۔ انہوں نے ہمیں آزادی کی نوید ’’آپ آزاد ہیں‘‘ کہہ کر سنانے کے ساتھ ساتھ ایک تلقین بھی کی تھی ’’آپ آزاد رہیں‘‘ ہم نے نوید تو سن لی مگر ان کی تلقین پر عمل پیرا نہیں ہو سکے۔
ہم آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہیں۔ ہم آزاد نہیں ہیں۔
منیبہ مختار اعوان (لاہور)