امریکا اور چین کے درمیان تائیوان نقطہ ٔ کھولائو بن کر رہ گیا ہے۔ ایک ایسا نقطہ اور مقام جہاں دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان ایک ایسی تباہ کن لڑائی ہو سکتی ہے جس میں شاید ہی کوئی فاتح بن سکے۔ امریکا تائیوان کی آزادی اور خودمختاری کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے ہوئے ہے تو چین اسے ون چائنا پالیسی کی موت جان کر اپنی سرخ لکیر بنا چکا ہے۔ چین کو جب بھی محسوس ہوا کہ سرخ لکیر عبور ہو رہی ہے تو وہ کچھ بھی کر گزرے گا۔ ایک طرف امریکا کواڈ نامی اتحاد کے ذریعے چین کے گرد ایک بڑا گھیرا ڈالنا چاہتا ہے تو دوسری طرف چین بھی متبادل حکمت عملی اپنائے ہوئے جن میں ایک امریکا کے علاقائی اتحادی بھارت کا جوابی گھیرائو ہے۔ چین کی اس اسکیم میں پاکستان کا کردار اہم ہے۔ امریکا اس وقت پاکستان کو اپنی جانب گھسیٹنے کی ساری کوششیں بھارت کے گھیرائو کی پالیسی کو ناکام بنانے کی حکمت عملی کے تحت کر رہا ہے اور یہاں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا ایک بار پھر پاکستان 1962کی چین بھارت جنگ کی طرح پاکستان امریکا کے مبہم اشاروں کو مان کر کشمیر کی ٹرین مس کررہا ہے۔ لمحہ ٔ موجود میں پاکستان تو چین کے پہلو سے نکل کر امریکا کی جانب بڑھتا ہوا محسوس ہورہا ہے مگر اس پالیسی کے مستقبل کا تعلق پاکستان کے آنے والے دنوں کی سیاسی صورت گری سے ہے۔ چین کا ایک بحری جہاز سری لنکا کی بندرگاہ ہمبنٹوٹا میں بھارت کی مخالفت کے باوجود لنگر انداز ہو چکا ہے۔ شمالی سری لنکا کے شہر جافنا میں چین کی کیل کانٹے سے لیس ہو کر موجودگی کو بھارت اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھتا ہے۔ سری لنکا کا یہ علاقہ بھارت کے علاقے تامل ناڈو سے صرف پچاس کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ بھارت اپنے پہلو میں لنگر انداز جہاز کو جاسوس اور فوجی مقاصد کا حامل قرار دیتا ہے۔
دنیا کا ہر تجزیہ نگار دنیا کی پہلی اور دوسری معیشت میں اس ممکنہ ٹکرائو کا اپنے اپنے انداز سے تجزیہ کر رہا ہے۔ بھارت کے دفاعی تجزیہ نگار پروین ساہنی جو اس موضوع پر کئی کتابوں اور تحقیقی مقالوں کے مصنف بھی ہیں ایک ٹویٹ میں یوں رقم طراز ہیں۔ اگر امریکا اپنے اعلیٰ حکام کے تائیوان کے مسلسل دوروں کے ذریعے چینیوں کو مشتعل کرنے کا کام اور چین سے علٰیحدگی چاہنے والوں کی سرپرستی جاری رکھتا ہے تو چین کا ممکنہ ردعمل تین صورتوں میں سامنے آسکتی ہے۔ اول یہ کہ چین امریکا کے ساتھ کھلی جنگ لڑے گا جس کا نتیجہ کسی کی جیت کی صورت میں برآمد نہیں ہوگا۔ دوم یہ کہ ایسی جنگ چین کے پُرامن اُبھار اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا۔ سوم چین بھارت پر حملہ کرکے امریکا انڈو پیسفک اسٹرٹیجی کو تباہ کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا چین کو تائیوان کے دوروں کے ذریعے مسلسل مشتعل کر رہا ہے کیونکہ جنگ امریکا کا واحدآپشن ہے۔ یہ جنگ کیسی ہوگی اس کی تصویر کشی ناٹو کے سابق سپریم کمانڈر ایڈم جیمز اسٹیورڈس نے اپنے ناول ’’2034‘‘ میں کی ہے۔ یہ فکشن ہے جس میں چین تیرہ برس بعد کے حالات کی ایک تصوراتی تصویرکھینچی گئی ہے۔ جس کے مطابق چین آخر کار تائیوان پر بزور طاقت قبضہ کر لیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سائبر ٹیکنالوجی کا بہترین اور کامیاب استعمال کیا جاتا ہے۔ چین امریکی اسپیس کے ڈیجیٹل کنٹرول سسٹم کی حرکت کو روک کر امریکا کے لڑاکا جہازوں کو ناکارہ اور مفلوج بناتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے جہازوں کا سسٹم لاک کرکے اور ان کی نقل وحرکت روک کر نقصان سے بچا لیتا ہے۔
مسٹر ایڈم جیمز کا ایک اہم انٹرویو بھی کئی تصریحات کے ساتھ سامنے آیا ہے جس میں وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیںکہ چین کے پاس سیٹلائٹ کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ یوں یہ ایک مکمل سائبر وار کی منظر کشی ہے۔ فی الوقت امریکا کو اس میدان میں چین پر برتری حاصل ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ حملہ کرنے کی صلاحیت کی حامل سائبر ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں امریکا کی یہ برتری بتدریج ختم ہو رہی ہے۔ امریکا کی نیشنل سیکورٹی کمیشن کی رپورٹ میں گوگل سابق چیف ایگزیکٹو یرک سمتھ اور سابق ڈپٹی سیکرٹری آف ڈیفنس وابرٹ ورکے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اگلے دس پندرہ برس میں جو 2034 کے قریب کا دور ہی ہے چین امریکا کو ان میدانوں میں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائے گا۔ یوں مصنف کا کہنا ہے اس دن سے بچنے کے لیے امریکا کو اپنا موجودہ راستہ بدلنا ہوگا۔ اسے اپنے وسائل کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں لگانا ہوگا انجینئرنگ اور ریاضی پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکا اس جنگ میں جیت بھی سکتا ہے مگر یہ دونوں ملکوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تصوراتی کہانی کا مقصد یہ ہے کہ جنگ کو روکنے کے لیے ابھی سے اقدامات اُٹھائے جائیں جیسا کہ یورپی اقوام نے 1914 میں کیا تھا۔ مصنف کا کہنا تھا کہ چین اور روس قریب آرہے ہیں۔ دو اتھارٹیرین طاقتیں ایک دوسرے کی قوت بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں۔ روس کے پاس وسیع رقبہ، طاقت اور قدرتی وسائل ہیں جبکہ چین کی آبادی بہت بڑی ہے۔ مستقبل کے تصادم سے بچنے کا ڈھیلا ڈھالا حل مصنف نے یوں پیش کیا ہے کہ امریکا اپنے انتخابات میں چین کو مداخلت سے روکے انسانی حقوق کے معاملے میں اس کی ڈٹ کر مخالفت کرے جنوبی چین کے جزائر میں چینی عزائم کا مقابلہ کرے مگر ماحول اور موسم سمیت دوسرے شعبوں میں دوطرفہ تعاون بھی جاری رکھے۔ یہ حل کس حد تک کارگر ہوتا ہے اس کا جواب تو ایڈم جیمز کے پاس بھی نہیں۔ یہ وہ ممکنہ سنگین حالات ہیں جو چین اور امریکا کے درمیان پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ کشمکش ماضی کی سرد جنگ کی طرح دنیا کے کئی ملکوں کے اندر بالادستی اور اثر رسوخ کی لڑائی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور پاکستان ان ملکوں میں سرفہرست ہے۔