لندن اور اسلام آباد لیگیں۔ نیا ٹوپی ڈراما

761

مومن کی خصوصیت تو یہ ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا، لیکن پاکستانی قوم کے بارے میں تو سوال اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ وہ کس قسم کے لوگ ہیں، انہیں تو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسا جاچکا ہے اور ہر بار ہی اس سوراخ سے برآمد ہونے والے ڈسنے سے پہلے چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں اور پھر قوم کو ڈس کر چلے جاتے ہیں۔ تھوڑا عرصہ بل میں گزارتے ہیں اور پھر نئی کینچلی چڑھا کر آجاتے ہیں۔ شاید کینچلی پر کوئی اعتراض کرے لیکن سانپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک خاص مدت کے بعد وہ کینچلی (کھال) بدلتا ہے۔ چناں چہ ہمارے حکمراں بار بار کینچلی بدل کر آجاتے ہیں اور عوام ہر بار ان پر یقین کرلیتے ہیں۔ بس ان کا انداز ہر مرتبہ الگ ہوتا ہے لیکن اب تو نام بھی بدلنے کا تکلف نہیں کیا جارہا۔ پاکستان میں چار مرتبہ حکمرانی کرنے والی مسلم لیگ (ن) نے ہر مرتبہ قوم کے ساتھ وہی کیا ہے جو آج کل کر رہی ہے لیکن اس سارے عمل میں سب سے بڑا شریک مجرم پاکستانی میڈیا ہے جس کی مدد سے ہر چند سال بعد وہ مجرموں کا چہرہ صاف کرکے پیش کیا جاتا ہے، عوام ان سے امیدیں باندھتے ہیں اور یہ پھر ڈس لیتے ہیں، چوں کہ بار بار یہ لوگ اقتدار میں آچکے (اس میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی بھی شامل ہیں) اس لیے ان کو اپنے داغ دھبے دور کرنے کے لیے کسی ڈرامے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چناں چہ نیا ٹوپی ڈراما شروع کیا گیا ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹر کو پھر اندر کی کہانی مل گئی۔ مسلم لیگ لندن اور مسلم لیگ اسلام آباد کی اصطلاح استعمال کی گئی اور یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ کوئی الگ الگ گروپ ہیں۔ ان دونوں میں بڑا فاصلہ پیدا ہوگیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ملک اور قوم کے خیرخواہ ظاہر ہورہے ہیں۔ اور جس طرح یہ گروپ بنے ہوئے ہیں کسی وقت اچانک شیر و شکر بھی ہوجائیں گے۔ محترم قاضی حسین احمد مرحوم نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے قیام کے وقت ہی کہہ دیا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جو ایک دوسرے کی دشمن سمجھی جاتی ہیں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہوں گی اور ایک دوسرے کی حلیف ہوں گی اور آج ایسا ہی ہورہا ہے کیوں کہ عوام کے حقیقی نمائندوں کا راستہ روکنے کا ذریعہ ہیں۔
ایک اجلاس کی روداد اخبار کی زینت بنی، پی ٹی آئی نے تو اسے نورا کشتی قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے اس سے زیادہ نورا کشتی کو کون سمجھتا ہوگا۔ مسئلہ تو یہی ہے کہ پورے ملک میں برسہا برس سے نورا کشتی ہورہی ہے۔ جو لوگ کبھی مسلم لیگ میں تھے وہ پیپلز پارٹی سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی میں پہنچ گئے اور جو پیپلزپارٹی میں تھے وہ مسلم لیگ، ق لیگ، مشرف لیگ سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی میں پہنچ گئے اور جو پی ٹی آئی میں آئے تھے اب پَر تول رہے ہیں لیکن وہ نہیں ان کو کوئی تول رہا ہے کہ کِسے کہاں فٹ کیا جائے۔ یہ سارے سیاسی ایکٹرز ہیں، انہوں نے سیاست کی خوب ایکٹنگ کرکے سیاست کو بدنام کیا ہے۔ یہ اس مفاد پرست کلب کا حصہ ہیں جو کبھی چینی مافیا، کبھی گندم مافیا اور کبھی پٹرولیم مافیا بن کر عوام کو ڈستی ہے۔ چند روز قبل پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے پٹرول کمپنیوں اور ڈیلرز کو اربوں روپ کا جو فائدہ پہنچایا گیا اس پر کسی کی نظر نہیں گئی، اوگرا کی جانب سے 15 روپے کمی کی خبر چلوائی گئی اور جب لوگ یہ یقین کر بیٹھے کہ قیمتیں کم ہوں گی تو اچانک پونے سات روپے اضافہ کردیا گیا، اس طرح تیل کمپنیوں کا پرانا اسٹاک عوامی رش سے بچ گیا اور ڈیلرز کے پاس جو ذخیرہ تھا وہ بھی اگلے دن سے پونے سات روپے زیادہ میں فروخت ہوا۔ اس ڈرامے سے دو مافیاز کو خوش کردیا گیا۔ اب عوام کی فکر ان کو کھائے جارہی ہے۔ آنے والے دنوں میں جب بیرونی قرضوں سے خزانہ بھرنے لگے گا تو کچھ دن کے لیے پٹرولیم قیمتوں میں بھاری کمی کردی جائے گی جس کے بعد پی ڈی ایم والے بغلیں بجائیں گے۔ عوامی ہمدردی اور ریلیف کے راگ الاپیں گے اور لوگ پچھلے مظالم بھول جائیں گے۔ اور ایک بار پھر ان ہی سے ڈسے جائیں گے۔
عوام بار بار پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، ق لیگ، مشرف لیگ، متحدہ وغیرہ سے دھوکے کھانے کے بعد ان تمام پارٹیوں کے ملغوبے سے بھی دھوکے کھائے بیٹھے ہیں۔ اب کچھ لوگ پی ٹی آئی سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں، کچھ نواز شریف کے منتظر ہیں اور کچھ سمجھ رہے ہیں کہ بھٹو پھر زندہ ہونے والا ہے۔ لیکن ہوگا وہی جو سپیرے نے طے کر رکھا ہے۔ کس بل کے سامنے کون سی بین بجائی جائے گی یہ اس کا فیصلہ ہے۔ تبدیلی کی بین بچ چکی، بھٹو کی بین بھی اور نواز شریف کی بین بھی بچ چکی۔ سپیرے کو بھی نیا بل تلاش کرنا چاہیے، لیکن اسے اب عوام کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں، عوام کو چھوٹے موٹے ٹوپی ڈرامے کے ذریعے بے وقوف بنالیا جاتا ہے۔ لندن مسلم لیگ اور اسلام آباد مسلم لیگ کا ٹوپی ڈراما بھی اسی کا حصہ لگتا ہے۔ اب لوگ لندن مسلم لیگ کو اچھا سمجھنے لگیں گے۔ زرداری صاحب کی عوامی ہمدردی کو اچھا سمجھیں گے اور ایم کیو ایم کی عوام کے لیے تڑپ کو سچا سمجھیں گے، پھر نئے بل کی کیا ضرورت۔ عوام اپنے آپ کو مومن ثابت کریں، ان ہی سوراخوں سے بار بار نہ ڈسے جائیں۔ آخر بھٹو کا تماشا، نواز شریف کا تماشا، عمران خان کا تماشا، الطاف حسین کے تماشے کب تک چلتے رہیں گے۔ اس ٹوپی ڈرامے کے لیے ہمیشہ کی طرح ڈراما چلانے والے ادارے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام پاکستانی میڈیا بہت عمدگی سے کرتا ہے۔ اب تو ان کے ٹوپی ڈراموں کا پردہ چاک ہوجانا چاہیے۔