وزیراعظم میاں شہباز شریف کئی روز سے قومی ڈائیلاگ اور میثاق معیشت کی باتیں کررہے ہیں۔ اتوار کے روز انہوں نے اس سے آگے بڑھ کر بات کہہ دی کہ اگر ہم ایٹمی قوت بن سکتے ہیں تو معاشی قوت کیوں نہیں بن سکتے ہمیں اپنی کوتاہیوں پر اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ سب مل کر آگے بڑھیں اور کشکول اٹھاکر سمندر میں پھینک دیں۔ میاں صاحب نے بھی وہی راستہ اختیار کیا ہے جو ان سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے اختیار کیا تھا یعنی زبردست تقریر۔۔۔ اس زبردست تقریر میں انہوں نے کہا کہ وطن مقدس امانت اور مشن ہے ایک مرحلہ قیام کی شکل میں آیا اور دوسرا ہمیں پورا کرنا ہے۔ میاں صاحب جوش خطابت میں کہہ گئے کہ قومیں اجتماعی نصب العین طے کرلیں تو مشکلات کے پہاڑ اور سمندر بھی راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ وزیراعظم نے چودہ اگست کے موقع پر پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح قائداعظم نے تحریک چلائی اسی طرح ہمیں کمربستہ ہونا پڑے گا۔ سب مل کر ملک کی تقدیر بدلیں گے مایوسیاں پھیلانے والوں کی ہار ہوگی۔ میاں صاحب اگر عمران خان کی طرح پہلی بار حکومت میں آئے ہوتے تو ان باتوں پر یقین کرنے کی تھوڑی بہت گنجائش تھی لیکن مسلم لیگ (ن) کا ماضی ان تمام باتوں کی سختی نہ صرف تردید کرتا ہے بلکہ اس کا رخ ان تمام باتوں کے خلاف رہا ہے جس معاشی قوت کی وہ بات کررہے ہیں اسی کا سبز باغ دکھاکر میاں نواز شریف تین مرتبہ اقتدار میں آکر نکالے گئے۔ مسلم لیگ جو کئی مرتبہ اقتدار میں رہی ہے معاشی ترقی کی جو شرائط وہ بتارہے ہیں مسلم لیگ اور اس کے ساتھی اس پر بھی پورا نہیں اترتے۔ جو کشکول اٹھاکر سمندر میں پھینکنے کا اعلان وزیراعظم نے کیا ہے وہ تو اسے مزید مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب سے تقریباً تین ارب ڈالر، امارات سے وعدے اور دیگر عرب ریاستوں کے دورے کا اعلان۔۔ کیا یہ دورے سمندر میں کشکول پھینکنے کے لیے ہوں گے، ایسا نہیں ہے۔ باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے کہ وزیراعظم کے دورے مزید رقم کے حصول کے لیے ہوں گے پھر ایسی تقریر کا کیا مطلب ہے؟؟ اس کا یہی مطلب ہے جو اب تک کے دوسرے حکمران کرتے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کا ایشین ٹائیگر آئی ایم ایف کے پنجرے میں بند ہے اسی ایشین ٹائیگر کو ٹائیگر عمران خان نے دنیا کا بڑا ملک بنانے والی تقریر کی تھی لیکن وہ بھی آئی ایم ایم کے پنجرے میں بند ہوگئے۔ اب شہباز شریف یہ بات کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم معاشی قوت بنیں گے۔ معاشی قوت بننے کے لیے جو وژن ہوتا ہے وہ ہمارے حکمرانوں میں نہیں ہے جس جذبے کی شہباز شریف صاحب نے بات کی ہے وہ پاکستان کے حکمرانوں ولی کسی پارٹی کے لیڈروں میں نہیں ہے۔ کارکن البتہ لیڈروں کی باتوں میں آکر جذباتی ہوجاتے ہیں۔ ورنہ یہ حقیقت تو سب جانتے ہیں کہ جس شخصیت یعنی قائداعظم کی تحریک کی وہ بات کررہے ہیں اس میں اور آج کے لیڈروں میں کوئی مماثلت ہی نہیں۔ قائد بات اور عمل کے سچے تھے، وقت کے پابند تھے۔ معاملات کو سمجھتے تھے اپنی صحت کے لیے مغربی ممالک نہیں بھاگتے تھے کرپشن نہیں کرتے تھے۔ چوروں ڈاکوئوں اور الیکٹ ایبلز کی سیاست نہیں کرتے تھے۔ قائداعظم کی طرح کی تحریک چلانے کے لیے ان جیسے کردار کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کردار کم از کم ملک کے حکمران طبقے میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ لہٰذا اتنی اونچی اونچی باتیں نہ کی جائیں۔ میاں صاحب تقریر کے زور میں یہ بھی بھول گئے کہ قوم نظریہ پاکستان سے اچھی طرح واقف ہے وہ کہتے ہیں کہ قومیں اجتماعی نصب العین طے کرلیں تو مشکلات کے پہاڑ اور سمندر بھی رکاوٹ نہیں بن سکتے لیکن مشکل تو یہی ہے کہ وہ خود بھی تاریخ سے واقف نہیں اور دوسروں کو بھی ایسا ہی سمجھ رہے ہیں۔ پاکستانی قوم نے 1940 میں اجتماعی نصب العین طے کرلیا تھا اور منزل بھی حاصل کرلی۔ لیکن عوام کی حکومت عوام کے ذریعے، عوام کے لیے کی راہ میں سب سے بڑے پہاڑ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان اور فوجی ڈکٹیٹرز بن گئے اور پھر آنے والے دور میں یہ پہاڑ مضبوط ہوتے چلے گئے۔ اب الیکٹ ایبلز اور پیسے کی سیاست ہوتی ہے اور ان اداروں کی جو جب چاہتے ہیں حکومتیں پلٹ دیتے ہیں۔ یہ لوگ قائداعظم کی طرح کی تحریک کیسے چلائیں گے یہ تو سب کے سب قائد کے نصب العین کی راہ کے سمندر اور پہاڑ ہیں۔ شہباز شریف صاحب کی باتوں سے تو اتفاق کیا جاسکتا ہے لیکن یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا ارادہ ان میں سے کسی چیز پر عمل کرنے کا نہیں۔ میثاق معیشت کی بات کرکے صرف لوگوں کو خوش کررے ہیں یا سبز باغ دکھارہے ہیں۔ ہاں ایک بات کی ضرورت ہے کہ قومی ڈائیلاگ کیا جائے۔ لیکن کون یہ کروائے گا۔ مسلم لیگ اور پی ڈی ایم عمران خان کو اس قابل نہیں سمجھتے۔ عمران خان ان دونوں کو چور ڈاکو کہتے ہیں۔ فوج بلائے تو عمران خان نہیں جائیں گے ممکن ہے فوج انہیں بلائے ہی نہیں لیکن یہ ڈائیلاگ ہوگا کیسے اور ضرورت اس قدر ہے کہ حکمران اپوزیشن اور تمام سیاسی فریقوں کو اپنی غلطیوں کوتاہیوں کا اعتراف کرکے ان کی اصلاح کا عزم کرنا ہوگا۔