پاکستان کے مجموعی غیر ملکی قرضے بڑھ کر 126 ارب ڈالر تک پہنچ گئے

340

اسلام آباد: پاکستان کے مجموعی غیر ملکی قرضے بڑھ کر 126 ارب ڈالر تک پہنچ گئے،جون 2018 میں 75.3 ارب ڈالر قرض بڑھ کر 2022 میں 99.8 ارب ڈالر ہو گیا،پاکستان مزید 10ارب ڈالر قرض لے گا،بھاری سود کی ادائیگی معیشت پر بوجھ ہے۔

ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق فاطمہ جناح یونیورسٹی راولپنڈی کے اسسٹنٹ پروفیسر حماد منظور نے ویلتھ پاک سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے ٹیکس وصولی کے نظام میں مضبوط اصلاحات متعارف کرانے کی فوری ضرورت ہے۔

 حماد نے کہا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ٹیکس وصولی کا کمزور نظام ہے جس نے بہت سے دولت مند تاجروں کو ریلیف دینے کے راستے فراہم کئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہدف سے کم ٹیکس وصولی، کرنسی کی قدر میں 50 فیصد کمی، سود کی بلند شرح، زیادہ اخراجات کے ساتھ ساتھ سرکاری کمپنیوں کو ہونے والے نقصانات اوربدانتظامی عوامی قرضوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجموعی بیرونی قرضے اور واجبات 126 ارب ڈالر کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئے جو پاکستان کے لیے انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ بیرونی سرکاری قرضہ جو کہ وفاقی حکومت کی براہ راست ذمہ داری ہے جون 2018 میں 75.3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2022 میں 99.8 ارب ڈالر ہو گیا۔ بڑھتے ہوئے قرضوں کا براہ راست نتیجہ قرض کی ادائیگی کی لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق مارچ 2022 کے آخر تک عوامی قرضہ 44.5 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے کے بعد پاکستان نے کچھ دیگر مالیاتی اداروں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک سے تقریبا 10 ارب ڈالر کے قرض لینے کا منصوبہ بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حال ہی میںبتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سطحی معاہدہ طے پا گیا ہے اور فنڈ بورڈ اگست 2022 کے دوسرے ہفتے کے بعد ملاقات کرے گا جس میں پاکستان کی جانب سے 1.17 ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کی درخواست منظور کی جائے گی۔

 اسٹیٹ بینک کی تازہ ترین رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ قرضوں کا بوجھ مطلق طور پر معیشت کے حجم کے لحاظ سے بڑھ گیا ہے۔ پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے ٹھوس طویل مدتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک مشکل معاشی صورتحال سے دوچار ہے کیونکہ یہ مکمل طور پر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ترکی، چین، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے غیر ملکی قرضوں اور گرانٹس پر منحصر ہے جس کے نتیجے میں معاشی بدحالی مالی سال 22 میں بڑے مالیاتی اور بیرونی خسارے کا باعث بنی، افراط زر میں اضافہ ہوا اور ریزرو بفرز کو ختم کر دیا۔

انہوں نے مزید کہاکہ معیشت کو مستحکم کرنے اور ایک سخت پالیسی عمل میں لانے کے لیے حکومت کو اخراجات میں کمی پر توجہ دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ کا مقصد جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کے بنیادی سرپلس کو ہدف بنا کر حکومت کی بڑی قرض لینے کی ضروریات کو کم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی اخراجات کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔