ہندوستان میں سید مودودی کی کتابیں پڑھانے پر پابندی

975

ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا کہ بھارت میں عہد حاضر کے امام اور جماعت اسلامی کے بانی امیر سید ابوالاعلی مودودی کی کتابیں پڑھانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس میں حیرت کی بات تو نہیں ہے لیکن خوشگوار حیرت ضرور ہوئی کہ بھارت جیسے ملک میں ایک ایسے شخص کے مضامین جن میں جہاد کا سبق دیا جارہا ہو علی گڑھ یونیورسٹی اور دیگر ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں پتا نہیں کب سے پڑھائے جار ہے تھے اور نصاب کا بھی حصہ تھے۔
اس سلسلے میں بھارتی ٹی وی چینلوں نے اشتعال انگیزی پھیلائی ہوئی ہے اور دنیا کو باور کرایا جارہا ہے کہ مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی کتابیں پڑھ کر بھارت میں رہنے والے نوجوان دہشت گردی کی وارداتیں کررہے ہیں اور مسلمانوں کے جہاد کے تصور کو دیگر مذاہب اور خصوصاً بھارت کے نوجوانوں میں زہر اگلا جارہا ہے جو قطعی طور پر ایک سیکولر ملک میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
بھارتی میڈیا میں آنے والے مبصرین جن میں مرد و خواتین شامل ہیں، ان کا کہنا تھا کہ مسلمان جہاد کو فرض سمجھتا ہے اور مولانا نے بھی اس کا ذکر ان مضامین میں کیا ہے۔ یہی نہیں اس سے بڑھ کر وہ کہتے ہیں کہ اسلام کو پوری دنیا میں پھیلانا اور شریعت کو قائم کرنا ہم سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ جہاں اس قسم کے مضامین پڑھائے جارہے ہوں اور وہ بھی ہندوستان عرف بھارت میں تو وہاں امن کیسے قائم ہوسکے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ طلبہ ’’مودودی‘‘ کی کتاب پڑھ کر یہ بات اپنے ذہنوں میں نہ بٹھائیں کہ ہندوستان کی بڑی آبادی کافر ہے، بت پرست ہے اور ان کو نیست و نابود کرنا ایمان کا حصہ ہے۔ لہٰذا مودی سرکار اس بات کی کھوج لگائے کہ بھارت میں کب سے اس قسم کے مضامین پڑھائے جارہے ہیں اور کہاں کہاں اس کو نصاب کا حصہ بھی بنایا گیا ہے اور جو لوگ اس کے قصوروار ٹھیرائے جائیں انہیں سزائوں کے ساتھ ساتھ ملک بدر کرنا بھی ضروری ہے۔
مادر پدر آزاد بھارتی میڈیا جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہنے والوں پر میڈیا وار مسلط کیا ہوا ہے اور بے ہودہ اور بے مقصد فلمیں اور ڈرامے دکھا دکھا کر مسلم معاشرے کے بگاڑ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے اس کا بس نہیں چل رہا کہ دہشت گرد ہندوں کو خدانخواستہ ورغلا کر مسلمان اساتذہ، طلبہ اور خود یونیورسٹی کی عمارت اور دیگر تعلیمی اداروں کو ناپاک عزائم کے لیے نشانہ نہ بنادیں۔ اگر ایسی کوئی صورتحال سامنے آتی ہے تو پاکستان کی حکومت اور عوام کو اس کے خلاف تیار رہنا چاہیے اور بھرپور اس کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔
دوسری طرف پاکستان کی حکومت اور وزارت تعلیم کو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی ذہنی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنی چاہیے جو اس بات کا جائزہ لے کہ سید مودودی جیسے مفکر اسلام اور مجتہد کی لکھی گئی مختلف موضوعات پر کتابوں کو پڑھ کر، سمجھ کر جانچا جائے اور ان میں سے چند اہم اور وقت کی مناسبت سے موضوعات کا چنائو کرکے فوری نصاب کا حصہ بنادیا جائے جس کو انٹر، گریجویشن اور ماسٹرز کے نصاب میں شامل کرکے ڈگری کے حصول کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔
یہی نہیں جس طرح حکومت پاکستان نے بھارتی ٹی وی چینلوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے، دیگر سماجی ذرائع ابلاغ کے ہتھیار جس میں یو ٹیوب، فیس بک اور دیگر آلات شامل ہیں، ان پر بھی کوئی ٹیکنیکل چیک لگادیا جائے جس سے نئی نسل کی اخلاقی و بے راہ روی کے معاملات کو کنٹرول کیا جاسکے۔ یہ ہی وقت ہے جب ہم اپنی قوم کو سدھار کی طرف لے جاسکتے ہیں۔