شرافت، امانت، دیانت کی علامت: جماعت اسلامی

512

ایک سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کے انتخابی نشان ترازو پر مہر کیوں لگائیں۔ آخر دوسری سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی انتخابی دوڑ میں شامل ہیں۔ جماعت اسلامی میں ایسی کیا خوبیاں ہیں کہ جس کی وجہ سے کراچی میں بالخصوص اور سندھ کے دیگر اضلاع میں بالعموم اس کی کامیابی عوام کے مفاد میں ہے۔ اس سوال کا بالکل سیدھا سادہ جواب سب کے سامنے ہے۔ وہ یہ کہ جماعت اسلامی کو کراچی میں تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی۔ بابائے کراچی مرحوم عبدالستار افغانی پہلی بار 1979ء اور ازاں بعد 1983ء میں بحیثیت میئر کراچی منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے دونوں ادوار میں خدمت کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی جس کی سیاسی مخالفین بھی تعریف کرتے نظر آئے۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی کا انفرا اسٹرکچر تباہی سے دوچار تھا۔ سیوریج اور سڑکوں کا نظام نہ ہونے کے برابر تھا۔ بلدیہ عظمیٰ کی آمدنی کا بڑا ذریعہ حکومت سندھ سے ملنے والی امداد پر مشتمل تھا، مگر یہ امداد بھی محض لاکھوں تک محدود تھی۔ عبدالستار افغانی مرحوم نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر امانت و دیانت کی وہ مثال قائم کی بلدیہ کے ٹیکس بھی وصول ہونے لگے، رشوت کے بازار کو کم کیا گیا، یوں محدود وسائل میں ترقی کا وہ دور شروع ہوا جس کی بازگشت آج تک سنی جاسکتی ہے۔
شہر بھر میں پارک تعمیر ہوئے، اسکولوں کی عمارتیں تعمیر ہوئیں، ڈسپنسریاں قائم ہوئیں، سیوریج لائنیں بچھائی گئیں، گلی محلوں میں سڑکوں کا جال بچھ گیا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اس زمانے میں ایک رکشہ والا میئر کراچی کو اس لیے گالیاں دے رہا تھا کہ ہر گلی میں سڑک ہونے کی وجہ سے اب وہ یہ بہانہ نہیں بنا سکتا کہ ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں کیسے جائیں اور اس بنا پر زائد کرایہ کیسے وصول کرے، ہاں مگر شہر قائد کی ترقی اس وقت کی حکومت سندھ کو گوارا نہ ہوئی، جب عبدالستار افغانی نے موٹر وہیکل ٹیکس بلدیہ عظمیٰ کو دینے کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے کونسلرز کے ہمراہ صوبائی اسمبلی کی عمارت کی طرف احتجاجی مظاہرہ کرنا چاہا تو نہ صرف انہیں ان کے ساتھیوں کے ساتھ پابند سلاسل کیا گیا بلکہ بہ یک جنبش قلم میئر کراچی اور بلدیاتی کونسل کو بھی برخاست کردیا گیا۔ ان کی امانت، دیانت و شرافت کے سب ہی معترف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی موت پر بدترین مخالفین بھی ان کی بہترین کارکردگی اور ایمانداری کے قائل نظر آئے۔ یہ نکتہ بھی توجہ طلب ہے کہ دو مرتبہ شہر قائد کا میئر رہنے کے باوجود وہ اسی علاقے یعنی لیاری میں مقیم رہے جہاں میئر بنے سے قبل رہتے تھے۔ حالاں کہ موجودہ دور کے میئر اور سٹی ناظم انتخاب سے قبل کہاں رہتے تھے اور آج کہاں رہتے ہیں سب کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
شہر قائد کا عہد زرین مرحوم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت 2001ء میں شروع ہوا۔ یہ تاریخ ساز عہد آج بھی گواہی دیتا ہے کہ معیار و مقدار کے اعتبار سے اتنے کام ہوئے کہ جو اس کے بعد کے ادوار میں ہوسکے۔ پلوں کی تعمیر سے پارکوں کے قیام تک اسکول اور کالجوں کی عمارتوں سے سرکوں کے جال تک اور ہیڈ برج سے انڈر پاس تک تعمیر و ترقی کا وہ دور شروع ہوا جو آج بھی ان کی یاد دلاتا ہے۔ تعمیر و ترقی کا یہ سفر نعمت اللہ خان کے دورِ نظامت میں مکمل نہ ہوسکا تھا اور پھر سیاسی بازیگروں نے نااہل مقرر کردیے۔ یہی وجہ ہے کہ جو کام بعد میں ہوئے ان کا معیار انتہائی ناقص رہا۔ ان کے دور میں آج لمحہ فکر ہے۔ اے اہل وطن تم کب تک ٹھوکریں کھاتے اور دھوکے و فریب میں آتے رہو گے۔ اے اہل وطن تم نے راہبروں کے بھیس میں ہمیشہ رہزنوں ہی کو چنا اور اب تک تم اپنی بدحالی اور بربادی کا سبب بھی نہ جان سکے۔ قدرت نے تمہیں ایک موقع اور عطا کیا ہے۔ تم اپنی تقدیر بدل سکتے ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ ترازو پر مہر لگائو کیوں کہ یہی راہِ نجات ہے۔