بنیان مرصوص بننے کی ضرورت

814

۔5 اگست 2019ء میں ایک بھارتی صدارتی حکم نامے میں مودی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کی دفعات کو منسوخ کرکے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی صدا کو دبانے کی ناکام کوشش کی۔ مودی جو مسلم دشمنی میں مشہور ہے اس نے مذکورہ آرٹیکل پلاننگ کے تحت ختم کیا تاکہ اس خصوصی قانون کے خاتمے کے بعد بھارت بھر کے رہائشی مقبوضہ کشمیر میں جائداد خرید کر مقبوضہ وادی میں مستقل طور پر رہائش اختیار کرسکیں اور مسلم اکثریتی خطے میں جغرافیائی تبدیلیاں وقوع پزیر ہوں، مسلم اکثریت والا مقبوضہ کشمیر ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل ہو جائے۔ کشمیری مجاہدین کشمیری اور دوسرے مسلمانوں کی آزادی کی صبح دیکھنے کے لیے برس ہا برس کی قربانیاں کیسے پس پشت ڈال سکتے تھے۔ اس کالے قانون کو تسلیم کرنے یا اس پر خاموش رہنے کا مطلب تھا کہ ایک کروڑ سے زائد کشمیری مسلمانوں پر بھارت کا حیوانی ظلم و ستم جائز تصور کرلیتے۔ ہرگز نہیں، نہ صرف کشمیری مسلمان بلکہ دنیا بھر کے مسلمان اس ظلم کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے لیکن ظالم بھارت نے اپنی غلطی تسلیم کرنے اور اسے سدھارنے کے بجائے اگست 2019ء ہی میں مسلمانوں پر ظلم و ستم، حیوانیت مسلط کرنے کی ایک نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔ حریت راہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ پوری وادی پر کرفیو لگا دیا گیا۔ اس کرفیو نے دنیا کے سب سے طویل لاک ڈائون کا درجہ حاصل کیا۔ فون اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی۔ تعلیمی ادارے بند کر دیے۔ کشمیریوں کے لیے نہ صرف جینا دشوار کیا گیا بلکہ ان کے جوانوں کو شہید کیا، املاک کو نقصان پہنچایا، عورتوں کی عصمت دری کی، خواتین بیوہ ہوئیں، بچے یتیم ہوئے، لوگ زخمی ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کیے گئے اور بدترین تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ مظلوموں کے لیے وہاں قائم کیے گئے عقوبت خانے ہٹلر اور چنگیز خان کے مظالم کو بھی مات دے رہے ہیں۔ ان کی ہڈیاں ہتھوڑوں سے توڑی جاتیں ہیں، سر اور ڈاڑھی کے بال نوچ لیے جاتے ہیں، انہیں جان لیوا ٹارچر سیلوں میں رکھا جاتا ہے، بلکہ ان کی حد بندی کمیشن نے آبادیاتی تبدیلی کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے مئی 2022ء میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں حد بندی کمیشن نے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تمام 90 اسمبلی حلقوں کے نقشے تبدیل کر دیے ہیں۔ کئی علاقوں کے نام تبدیل کیے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کے نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے بھارتی غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں 3.4 ملین سے زائد جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔ یہ سب گھٹیا و منافقانہ چالیں اس لیے ہیں تاکہ کشمیری مسلمانوں کی مطالبہ آزادی کی آواز کو دبا کر انہیں مستقل اپنے ظلم کے پنجے میں جکڑ کر رکھ سکیں۔
عالمی عدالتوں سے انصاف کی کیا توقع، یہ تو خود ظلم اور کفر کی پشت پناہی کرنے والی ہیں۔ انہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا امریکی لفنڈروں پر بندوق تاننا تو نظر آتا ہے جو جھوٹ پر مبنی داستان ہے اور اسی جھوٹ پر اس معصوم عورت کو تاحیات قید کی سزا بھی سنا دیتی ہے۔ کشمیر پر ظلم و ستم کے معاملے میں ان کی آنکھیں اندھی کیوں ہو چکیں ہیں؟ اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ان کا مشن ہے۔ دنیا میں جہاں بھی نظر دوڑائیں ظلم کا شکار صرف مسلمان ہی نظر آتے ہیں۔ بیوقوف تو ہم ہیں جو ان سے ہمدردی کی توقع رکھتے ہیں۔ عرب حکمران تو فلسطین کے معاملے میں بھی بے حس نظر آتے ہیں کشمیر کی انہیں بھلا کیا فکر ہو گی۔ پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر کو اپنے ایجنڈے میں شامل تو ضرور کرتے رہے ہیں لیکن کشمیر اور کشمیریوں کا وہ حق ادا نہیں کر سکے جس کے وہ حقدار ہیں مگر پاکستانی عوام کے دل ان کشمیریوں کے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ انہیں اپنے وجود کا حصہ مانتے ہیں اور ان کی تکلیف پر رنجیدہ بھی ہوتے ہیں۔ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد اس بات پر مصر ہے کہ ہماری حکومت ہمیں کشمیر میں جہاد کرنے کی اجازت دے غاصب ظالموں کو ہم خود وادی سے نکال پھینکیں گے۔ یہ لوگ کشمیریوں کی پاکستان کا حصہ بننے کی خواہش اور پاکستان کے ساتھ محبت کا مکمل ادراک بھی رکھتے ہیں اور انہیں مان بھی دیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانیوں کی محبت کو کشمیری بھی محسوس کرتے ہیں جبھی تو ہر موقع پر وہ اپنے گھروں پر پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔ وہ بھی اپنے آپ کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ شہداء کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر تدفین کرتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ دنیا میں مسلم حکمران طبقہ میں اکثریت تو کیا بلکہ ایک دو چھوڑ کر سب حکمران دنیاوی مناصب و جاہ کی حب میں مبتلا ہیں۔ عیش پرستی ان کی رگوں میں دوڑتی ہے۔ انہیں بطور مسلم حکمران کے اپنی ذمے داریوں کا ادراک و احساس ہی نہیں۔ دنیا میں جگہ جگہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے لیکن ان کی آنکھوں پر پردے ہیں۔ اب انہیں اپنی آنکھوں پر سے غفلت کے پردے ہٹانے ہوں گے۔
انصاف کے لیے عالمی عدالتوں کی طرف نہیں دیکھیں گے بلکہ مسلمان حکمران مل کر اپنا الگ مسلم بلاک بنائیں۔ آپس میں اتحاد و تنظیم کو ترجیح دیں۔ آپس میں تجارت کریں، اپنا الگ مسلم ورلڈ بینک بنائیں۔ آپس میں ایک دوسرے کی عوامی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ اسلام کی وہ شان پکڑیں جس کا حکم انہیں رب کائنات نے دیا ہے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے لیے انتہائی نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوتے ہیں۔ پھر دیکھنا ان شاء اللہ مسلمان دنیا میں نہ صرف معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط ہوں گے بلکہ کافر انہیں کبھی اپنا تر نوالہ نہیں سمجھیں گے بلکہ انہیں معلوم ہوگا کہ اگر ظلم کی نیت سے کسی مسلمان کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کوشش بھی کی تو یہ ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اس بار ہم کشمیریوں کے ساتھ صرف یوم استحصال ہی نہ منائیں بلکہ ہر فرد اپنے طور پر مسلم اتحاد کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالے۔ اس بار عزم کریں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بنیان مرصوص بن کر اپنے رب کے پسندیدہ بندے بننا ہے، کشمیر اور دوسرے مقبوضہ علاقوں کو ان کے چنگل سے آزاد کروانا ہے۔ ایسا اس وقت ہی ممکن ہے جب سارا عالم اسلام بنیان مرصوص کے روپ میں آ جائے۔ ان شاء اللہ۔