اسلام کو ’’بھارتیانے‘‘ کا ناپاک منصوبہ (حصہ دوم)

499

’’جہاد‘‘ ایک جامع اصطلاح ہے، گزشتہ کچھ عشروں سے دشمنانِ اسلام نے جہاد کو فساد کا ہم معنی قرار دے رکھا ہے، یہ نظریہ فریب ہے، باطل ہے اور اسلام سے نفرت کا آئینہ دار ہے۔ جہاد کے اپنے تقاضے اور حدود وقیود ہیں، اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ مسلمان ہر وقت اور ہر ایک کے ساتھ جِدال وقِتال کے لیے آمادہ رہتے ہیں، بحیثیت مسلمان ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت جن اقوام کو دنیا پر مادّی وسائل اور حربی صلاحیت کے اعتبار سے غلبہ حاصل ہے، انہوں نے آج تک دانستہ انتہاپسندی (Extremism)، دہشت گردی (Terrorism)، عسکریت پسندی (Militancy) کی کوئی جامع مانع متفق علیہ (Comprehensive & Agreed upon) تعریف نہیں کی تاکہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں، ان الزامات کو ایک حربے کے طور پر مسلمانوں کے خلاف استعمال کرسکیں، انہوں نے حریّتِ وطن کی جِدّوجُہد (Struggle for Freedom) اور دہشت گردی میں بھی نہ تفریق کی ہے اور نہ ان دونوں کے درمیان ’’مابہ الامتیاز (Distinctive Feature) بتایا ہے۔ انسانی تاریخ میں جِدال وقِتال ہمیشہ ایک غیر مطلوب اور ناگزیر ترجیح رہی ہے، رسول اللہؐ نے ایک موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’لوگو! دشمن سے تصادم کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت مانگتے رہو، لیکن جب (ناگزیر طور پر) دشمن سے ٹکرائو ہوجائے تو (پھر) صبر کرو (اور ثابت قدم رہو)‘‘۔ (بخاری) امریکیوں کے اجداد نے بھی برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے اٹھارہویں صدی کے رُبعِ آخر میں مسلح جِدّوجُہد شروع کی تھی اور امریکی آج بھی اپنی آزادی کے لیے مسلّح جِدّوجُہد کرنے والوں کو اپنا ہیرو اور نشانِ افتخار (Symbol of Pride) مانتے ہیں۔
بھارتی دستور کے آرٹیکل 25 تا 30 کے تحت بھارتی شہریوں کو آزادیِ ضمیرو آزادیِ مذہب کی اجازت ہے، انہیں اپنے مذہب، زبان، رسم الخط، ثقافت، مذہبی تعلیم اور رفاہی مقاصد کے لیے ادارے قائم کرنے، وقف قائم کرنے اور اُن کے انتظامی امور کو چلانے کاحق حاصل ہے، جبکہ ڈاکٹر پروین بائی توگڑیا جیسے متعصب ہندوتوا کے نظریات کے حامل لوگ مسلمانوں سے آئینی حقوق کو سلب کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اُن کے نزدیک مسلمانوں کے دینی مدارس وجامعات معاذ اللہ! کینسر ہیں اور ان کو جڑ سے اکھیڑنا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں جن مقامی باشندوں نے اسلام قبول کیا ہے، انہیں ہندوتوا کے حامی دَلِت اور ملیچ سمجھتے ہیں، جو اُن کے نزدیک قابلِ نفرت وحقارت ہیں۔
اسلام آفاقی دعوتی دین (Missionary Religion) ہے، اسے کسی خاص ملک کی سرحدوں کے اندر محدود نہیں کیا جاسکتا، اس کی دعوت سارے عالَمِ انسانیت کے لیے ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے رسولِ مکرّم!) آپ کہیے: لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں‘‘، (الاعراف: 158) رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’(مجھ سے پہلے) نبی ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے سارے عالَمِ انسانیت کے لیے رسول بناکر بھیجا گیا ہے‘‘، (بخاری) ’’مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہے اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے‘‘۔ (مسلم)
اسلام میں دین اور ملّت ہم معنی ہیں، ان میں فرق محض اعتباری ہے: شریعت، اِس حیثیت سے کہ اُس کی اطاعت کی جاتی ہے، دین ہے اور جب اُسے مدوَّن اور منضبط کردیا جائے تو یہ ملّت اور مذہب کہلاتی ہے۔ دین اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے، ملّت رسول کی طرف منسوب ہوتی ہے اور مذہب مجتہد کی طرف منسوب ہوتا ہے، ہر ملّت دین ہے، لیکن ہر دین ملّت نہیں ہے۔ وہ قوم یا گروہ جس کی طرف کوئی رسول مبعوث کیا گیا ہے، امت کہلاتی ہے، سو تمام مسلمانانِ عالم سیدنا محمد رسول اللہؐ کی اُمّتِ اجابت (Followers) ہیں، اس نظریے سے مسلمان کبھی بھی دست بردار نہیں ہوسکتے۔ مسلمان مصلحت پسندی کا شکار ہوکر غیر مسلموں کے ساتھ کتنی ہی ملایَنت (Leniency) اور ملاطفت کا برتائو کریں یا مداہنت سے کام لیں، قرآنِ کریم نے متنبہ کیا ہے کہ کافر اس حد تک جانے کے باوجود تم سے خوش نہیں ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور یہود ونصاریٰ آپ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے تاوقتیکہ آپ ان کی ملّت کی پیروی کریں، آپ کہیے: اللہ کی (دی ہوئی) ہدایت ہی (حقیقی) ہدایت ہے (اور اے مخاطَب!) اگر (حق کا) علم آنے کے بعد بھی تم اُن کی خواہشات کی پیروی کرو گے تو تمہیں اللہ (کے عذاب سے) بچانے کے لیے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ مددگار‘‘، (البقرہ: 120) ’’اور اگر آپ اہلِ کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانیاں بھی لے کر آجائیں، پھر بھی وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے، نہ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں، نہ وہ ایک دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں اور (اے مخاطَب!) اگر علم حاصل ہونے کے بعد تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی تو تم بے شک ضرور ظلم کرنے والوں میں سے ہوگے‘‘، (البقرہ: 145) ’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بنائو، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو اُنہیں دوست بنائے گا تو یقینا وہ ان ہی میں سے ہوگا، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ (المائدہ: 51)
الغرض اگرچہ کفار کے درمیان باہم مفادات کا ٹکرائو (Conflict of Interest) بھی ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے کو ناپسند بھی کرتے ہیں، لیکن جب ان کا مقابلہ اسلام اور مسلمانوں سے ہوجائے تو پھر وہ اپنے باہمی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اسلام کے مقابل یکجا ہوجاتے ہیں، چنانچہ مشہور مقولہ ہے: ’’اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ‘‘، یعنی سارے کافر اسلام کے مقابل ایک ہی ملّت ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اپنے تصورِ امّت اور ملّت سے دست بردار ہوکر اپنے سارے امتیازات اور خصوصیات کو چھوڑ دیں اور کافروں میں اس حد تک گھُل مِل جائیں کہ ان کا کوئی امتیاز باقی نہ رہے، علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو عام فہم زبان میں بیان کیا ہے:
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے، جَمعِیَّت تیری
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں قومیں اور قبیلے بنادیا تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو، بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا، بے حد خبر رکھنے والا ہے‘‘، (الحجرات: 13) علامہ اقبال نے کہا ہے:
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، مَحفلِ انجم بھی نہیں
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
قرآنِ کریم نے غزوۂ بدر کو ’’یوم الفرقان‘‘ سے تعبیر کیا ہے، اس کے معنی ہیں: ’’حق کو باطل سے ممتاز کرنے والا دن‘‘، غزوۂ بدر میں جو لشکر ایک دوسرے کے مقابل صف آرا تھے، اُن میں دنیاوی لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے تمام اسباب موجود تھے، اُن کی زبان ایک تھی، نسب، قبیلہ اور برادری ایک تھی، خونی رشتے بھی موجود تھے، رنگ بھی ایک تھا حتیٰ کہ اگر ایک طرف باپ تھا تو دوسری طرف بیٹا، ایک طرف چچا تھا تودوسری طرف بھتیجا، بعض ابنائے اَعمام (Cousins) تھے،
ایک طرف ماموں تھا تو دوسری طرف بھانجا، الغرض وہ تمام نسبتیں موجود تھیں جو انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ باہم ٹکرائے اور فیصلہ کن جنگ ہوئی، یہی منظر غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق میں تھا، کم وبیش یہی رشتے صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے، لیکن جب یہ رشتے اسلام سے متصادم ہوئے تو امام الانبیاء والرُّسل، خاتِمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمد رسول اللہؐ اور آپ کے جانثار صحابہ نے رشتۂ اسلام کو مقدم رکھا اور ان تمام رشتوں، نسبتوں اور قربتوں کو اسلام پر قربان کردیا۔
اقوامِ عالَم اگرچہ نظریاتی طور پر حقوقِ انسانیت، حقِ آزادیِ مذہب اور حقِ آزادیِ اظہارکی داعی ہیں اور حقوقِ انسانی کے منشور پر دستخط کرچکی ہیں، اپنے آپ کو اُن کا پابند سمجھتی ہیں، لیکن کشمیر، فلسطین، ایسٹ تیمور اور سوڈان کے حوالے سے ان کے معیار ات بدل جاتے ہیں۔ بھارت چونکہ آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے، ایک بڑی عالمی منڈی ہے، بظاہر آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، اُس کی معیشت بھی مستحکم ہے، نیز امریکا اور اس کے اتحادی اُسے چین کے مقابل قوت بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ چین کے لیے خطرہ بنارہے اور چین اپنے سیاسی واقتصادی مفادات کو پوری دنیا پر حاوی نہ کرسکے، اس لیے بھارت کی جانب سے حقوقِ انسانی، مذہبی منافرت وعصبیت اور اقلیتوں پر مظالم کے حوالے سے اس کے خلاف انضباطی اور تادیبی اقدامات نہیں کیے جاتے، صرف رسمی بیانات پر اکتفا کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے بھارت اقوامِ عالَم کی پروا بھی نہیں کرتا، کیونکہ چین کے محاصرے کے لیے بڑی اقوام کا جو چار رکنی (Quad) اتحاد بنایا گیا ہے، اس میں امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھارت بھی شامل ہے۔ ماضی میں جب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان دنیا کے ممالک کو اپنے زیرِ اثر لانے کے لیے سرد جنگ جاری تھی، تو اُس وقت نہرو کی قیادت میں بھارت غیر وابستہ ممالک (Non Alliend Countries) کی قیادت کر رہا تھا، لیکن اب نریندر مودی کی قیادت میں بھارت نے غیر وابستگی کا چولا اتار پھینکا ہے اور وہ چین کے مقابل امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے، حالانکہ اس وقت بھی بھارت چین کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
اللہ کی قدرت سے بیش تر مسلم ممالک بحری اور برّی ذرائع سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے بعض مسلم ممالک کو معدنیات کی بے پناہ دولت سے مالا مال کر رکھا ہے، یہ ممالک عالمی تجارتی گزرگاہوں پر واقع ہیں، ان کی مجموعی آبادی بھی بہت ہے، اگر یہ صدقِ دل سے اپنی اپنی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے ایک مشترکہ بلاک اور مشترکہ منڈی قائم کریں تو بلاشبہ عالمی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے اور نہ اس کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ان مسلم ممالک میں باہم آویزش بھی جاری ہے، ان میں سے بیش تر امریکا اور مغرب کے زیرِ اثر ہیں، بعض ممالک بدستور روس کے زیرِ اثر ہیں، اس لیے یہ اپنی کوئی متفقہ پالیسی بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، یعنی آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں، ورنہ بھارتی انتہا پسند کبھی بھی مسلمانانِ ہند کے بارے میں یہ رویہ اختیار کرنے کی جسارت نہ کرپاتے۔