2019ء میں پاکستان 39 ماہ کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بنا تھا لیکن اب تک پاکستان کو 6 ارب ڈالر میں سے صرف 3 ارب ڈالر جاری کیے گئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کی وجہ حکومت ِ پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں غیر سنجیدہ طرزِ عمل ہے۔ آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالر قرضے کی آخری قسط 2 فروری 2022ء کو اس شرط پر جاری کی تھی کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت قانون سازی کے ذریعے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خود مختاری دے گی۔ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کی یقین دہانی پر ہی 15 جنوری 2022ء کو مِنی بجٹ پیش کیا جس میں متعدد اشیا پر 343 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگا دیے۔ مِنی بجٹ میں لگائے گئے اضافی ٹیکس ہوشربا مہنگائی پر عوام اور اپوزیشن جماعتوں کا شدید ردعمل آیا تو عوامی وسیاسی لہر کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سابق وزیراعظم عمران خان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو جون 2022ء تک منجمد کردیا جس پر آئی ایم ایف نے مارچ 2022ء میں جاری ہونے والی نئی قسط روک لی جو آج تک جاری نہیں کی گئی۔
عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد وزیراعظم میاں شہباز شریف کی مخلوط حکومت نے عوامی مخالفت کے خوف سے پی ٹی آئی حکومت کے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے منجمد کرنے کے فیصلے کو برقرار رکھا لیکن وہ بھی عمران حکومت کی طرح اس کے لیے مطلوبہ فنڈز فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ شہباز حکومت نے روپے کی مسلسل گراؤٹ، اسٹیٹ بینک کے پاس ڈالرز کی کمی، ادائیگیوں کا توازن بگڑنے کے نتیجے میں معاشی دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے دروازے پر جا بیٹھی اور بالآخر آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ پٹرول کی قیمتوں پر سبسڈی ختم کر کے ایک ماہ کے اندر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 92 فی صد تک اضافہ کردیا۔ شہباز حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ برقرار رکھتے ہوئے تجدید عہد کیا کہ پٹرولیم لیوی کو 5 روپے سے بتدریج بڑھا کر 50 روپے فی لیٹر کردے گی۔ بجٹ 23-2022ء کے ریونیو جمع کرنے کے ہدف میں 467 ارب روپے کا اضافہ، بجٹ 23-2022ء میں ماہانہ ایک لاکھ سے کم تنخواہ دار طبقے کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ، مرکز کو نقد سرپلس میں فراہم کرنے کے لیے صوبوں کے ساتھ 750 ارب روپے کے تحریری معاہدے کرنے، بجلی کے ماہانہ بِلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اضافی رقم کی وصولی کا تسلسل برقرار رکھنے اور بجلی کی بنیادی قیمت میں بتدریج 7.91 روپے فی یونٹ اضافہ کرے گی۔
13جولائی 2022ء کو آئی ایم ایف نے تصدیق کی ہے کہ ناتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف کے جاری پروگرام (Extended Fund Facility) کے ساتویں اور آٹھویں جائزے کے تحت 0.894 ارب ایس ڈی آر (Special Drawing Rights) یعنی 1.177 ارب ڈالر قرضے کی قسط جاری کرنے اور منصوبے کو 2023ء کے اختتام تک توسیع دینے اور پیکیج میں 0.720 ارب ایس ڈی آر یعنی ایک ارب ڈالر مزید شامل کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا ہے تاہم یہ معاہدے اگست 2022ء میں ہونے والا آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا۔
امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ سعودی عرب یقین دہانی کروائے کہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرضہ ملنے کے بعد سعودی عرب سے پاکستان کو 4 ارب ڈالر کی فنڈنگ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بلوم برگ کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مالیاتی پریشانیوں اور غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باعث پاکستان کا روپیہ اور بانڈز ڈوب رہے ہیں اس لیے آئی ایم ایف سے ملنے والی 1.177 ارب ڈالر کی قسط پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ناکافی ہوگی۔ خیال رہے کہ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی اور اسٹیٹ بینک کے بیرونی اثاثوں کو بڑھانے کے لیے آئندہ 12 ماہ میں 41 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے موجودہ اور سابق حکمرانوں کا المیہ ہے کہ وہ اپنی کمزور گورننس، کمزور مالی نظم ونسق، غیر ضروری اخراجات اور کرپشن پر قابو پانے میں سنجیدہ نہیں رہے۔ ہر حکومت کو مالیاتی ومعاشی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر حکومت معاشی خسارے سے نمٹنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوکر سخت شرائط پر قرضے لے تو لیتی ہیں لیکن قرضے کے بہترین استعمال اور قرض خواہ کی شرائط کو پورا نہیں کرتی۔ عالمی اداروں سے ملنے والے قرضے عوام کی بہبود پر خرچ ہونے کے بجائے اصل زر اور اس پر سْود کی ادائیگی، نااہل حکمرانوں کی کرپشن، خراب طرزِ حکمرانی، بد ترین مالیاتی نظم و نسق اور کاہل نوکر شاہی کی نذر ہو جاتے ہیں اور بالآخر ہر حکومت قرضوں کا بوجھ ٹیکسوں اور مہنگائی کی شکل میں عوام کو منتقل کر دیتی ہے۔
پاکستان کے معاشی بحران کی واحد وجہ حکمرانوں کا سْودی معیشت اور عالمی سْودی ساہوکاری یعنی سْودی بینکاری پر انحصار ہے۔ سابق حکمرانوں نواز شریف، بے نظیر بھٹو، پرویز مشرف، آصف زرداری، عمران خان اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے پاس وفاقی شرعی عدالت کے واضح فیصلے کے بعد قانونی اختیار تھا کہ وہ عوام کو قرضوں اور سْود کے گھن چکر سے آزاد کرنے کے لیے مالیاتی اور معاشی نظام کی تنظیم نو کرتے اور پاکستان میں غیر سْودی نظام معیشت کو متعارف کرواتے۔ تمام حکومتوں اور اْن کے ماتحت مالیاتی اداروں نے مالیاتی خسارہ کی اصل وجہ ’’سود‘‘ کا خاتمہ نہیں کیا گیا بلکہ پورے سْودی نظامِ معیشت کی حفاظت کی اور معاشی بحران سے نکلنے کے لیے طویل المدت منصوبہ بندی اور موثر وانقلابی فیصلوں سے گریز کرکے مزید قرضے لیے اور مہنگائی کا عذاب عوام پر مسلط کردیا۔
موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کا حل یہ ہے کہ وفاقی حکومت نیک نیتی کے ساتھ آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے سْودی قرضوں سے نجات کا منصوبہ، لائحہ عمل اور روڈ میپ تیار کرے اور غیرسْودی نظام معیشت کے لیے دْور رس منصوبہ بندی کرنے کے لیے اندرون اور بیرونِ ملک مقیم درد مند پاکستانی ماہرین ِ معاشیات سے رہنمائی حاصل کرے۔ آمدن میں اضافہ کرنے کے لیے مْلکی وسائل کو قابل ِ عمل بنا کر عوامی ضروریات پورا کرے۔ غیر ضروری حکومتی اخراجات سے اجتناب کرے۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے۔ امیروں پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرے اور اْن کو حاصل اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ واپس لے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کو کم کرے۔ کاروباری طبقے کو بلا امتیاز سہولتیں دے۔ زراعت کو ترقی کا محور بنا کر کسان کو خوشحال بنائے اور صنعت کاری کو فروغ دے کر عالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات بیچ کر زرِ مبادلہ کمائے۔ کرپشن کو جڑ سے اْکھاڑنے اور بلا امتیاز احتساب کا نظام قائم کرنے کے لیے نیب کو عدالت عظمیٰ کے ماتحت کرے۔ کمرشل بینکوں کے سْودی قرضوں کے بجائے کاروباری سرمایہ فنڈ (Capital venture fund) قائم کرے جس کے تحت پبلک اور نجی سرمایہ کار افراد یا کمپنیاں کاروبار شروع کرنے کے لیے نئے کاروباری افراد کو فنڈز فراہم کریں اور اس کا منافع سرمایہ کار اور کاروبارکرنے والے افراد میں برابر تقسیم ہو اور اس میں کسی قسم کا سْود شامل نہ ہو۔ جب تک حکمرانوں نے اللہ کے ساتھ معاشی جنگ بند نہ کی تب تک معاشی بحران بھی جاری رہے گا اور سیاسی بحران بھی۔