لیبیا: بدنام حکمران اور حقائق

626

دنیا کے بدنام ترین حکمرانوں میں ایک تو بالاتفاق ہٹلر کو قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ ستر، اسّی برس پرانا قصہ ہوگیا، تاہم گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے میں دنیا کے جن حکمرانوں کو بدنام ترین اور بدترین قرار دے کر نہ صرف نکالا گیا بلکہ وہ کارنامہ بھی بزعم خود عبرتناک قرار دیا گیا ان میں 1969ء سے لیبیا پر حکمرانی کرنے والے کرنل معمر قذافی بھی ہیں۔ معمر قذافی کے علاوہ مصر کے صدر حسنی مبارک اور عراق کے صدر صدام حسین بھی شامل ہیں۔ لیکن اگر جائزہ لیں تو ان لوگوں کے جرائم کیا تھے جن پر امریکا اور مغربی ممالک ان کے خلاف ہوگئے تو حیرت انگیز باتیں سامنے آئیں گی۔ 1969ء میں نوجوان فوجی افسروں کی قیادت کرتے ہوئے کرنل قذافی نے شاہ ادریس کا تختہ الٹا۔ وہ ملک سے فرار ہوگئے اس لیے خون خرابا نہیں ہوا۔ قذافی کی قیادت میں انقلابی کونسل نے بادشاہت کے خاتمے کا اعلان کیا۔ مغرب کو اسلامی ممالک میں بادشاہت بہت بری لگتی ہے اس لیے ادریس کی بادشاہت ختم ہونے سے انہیں زیادہ تکلیف نہیں ہوئی لیکن تکلیف اس بات پر ضرور ہوئی کہ قذافی نے لیبیا کو لیبین عرب ریپبلک قرار دے دیا اور اس کا نعرہ یا ماٹو ’’آزادی، سوشلزم اور اتحاد‘‘ رکھا۔ قذافی کی قیادت میں لیبیا میں انقلابی کونسل نے تعلیم، صحت اور رہائش کے لیے فنڈز فراہم کرنا شروع کیے جس کے بعد پورے ملک میں تعلیم مفت کردی گئی اور لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے پرائمری تعلیم لازمی کردی گئی۔ عوام کے لیے صحت کی خدمات مفت فراہم کی جانے لگیں۔ البتہ سب کے لیے اپنی چھت یا رہائش کا وعدہ مشکل تھا اس لیے پورا نہیں ہوسکا۔ جس لیبیا کو امریکا حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اس کے عام آدمی کی فی کس آمدنی قذافی کے دور میں 11 ہزار ڈالر سے زیادہ تھی۔ جو افریقا میں پانچویں نمبر پر تھی۔ البتہ دیگر ممالک کی طرح اس خوشحالی کے ساتھ کچھ متنازع خارجہ پالیسی بھی آئی جس کی وجہ سے اندرون ملک سیاسی انتشار پیدا ہوا اور اسے مغرب نے مزید ابھارا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ جرم یہ ٹھیرا کہ سرد جنگ کے دنوں میں قذافی نے مشرقی بلاک کی حمایت سے فیدل کاسترو (کیوبا) نیلسن منڈیلا اور فلسطین میں یاسر عرفات کی تحریکوں کی حمایت کی۔ جب کہ آئرش ریپبلکن آرمی اور مغربی صحارا کے پولیساریو فرنٹ کی حمایت کی، 1980ء کے عشرے میں قذافی کی یہ حمایت عروج پر تھی۔
کرنل قذافی کا جو جرم تھا اس پر انہیں سزا دینے اور دنیا کے لیے عبرت بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ حالاں کہ نیلسن منڈیلا کی تحریک کی ساری دنیا حمایت کرتی تھی اور فلسطین کی تحریک آزادی کی بھی سوائے اسرائیل اور امریکا کے سب ہی حمایت کرتے رہے تھے۔ مسئلہ تو کیوبا اور آئرش ریپبلکن آرمی تھے۔ قذافی مہم جو ہونے کے سبب ہر جگہ ٹانگ اڑانے کے عادی بھی تھے لہٰذا اس وقت لیبیا پر الزام لگا کہ اس کی حکومت ان تحریکوں کے حملوں میں مدد دیتی ہے یا ان حملوں میں بالواسطہ دوسری تحریکوں کی مدد کرتی ہے۔ قذافی کی مشرقی بلاک میں شمولیت کے بعد ان پر یہ الزام بھی لگا کہ لیبیا نے پڑوسی افریقی ملکوں پر درجنوں حملے بھی کیے ہیں۔ مغربی ریاستیں لیبیا سے ناراض تھیں۔ چناں چہ اس ناراضی کا نتیجہ 15 اپریل 1986ء کو سامنے آیا جب امریکی میرین کور اور فضائیہ نے لیبیا پر حملے کیے۔ لیبیا نے دفاع میں ایک امریکی طیارہ بھی گرادیا۔ 40 لیبیائی اس حملے میں ہلاک ہوئے لیکن اس میں جب لیبیا کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ قذافی کی بیٹی حنا قذافی بھی حملے میں ہلاک ہوئی ہے تو امریکا اور یورپ نے اس دعوے کو مشتبہ قرار دے دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ قذافی کی بیٹی وجود بھی رکھتی تھی یا نہیں۔ اس آپریشن کا نام ایلڈوراڈو رکھا گیا تھا۔ اس آپریشن میں امریکی دعوے کے مطابق 45 لیبیائی فوجی اور 16 سے 30 شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد لیبیا کا نام سوشلسٹ پیپلز لیبین عرب جماہریہ سے بدل کر عظیم سوشلسٹ پیپلز لیبین عرب جماہریہ کردیا گیا۔ اس کے بعد قذافی نے توسیع پسندی اور کالونین ازم کے خلاف جدوجہد کرنے والی تحریکوں کی مدد کا اعلان کیا۔
امریکی حملے کے بعد سے قذافی کے انداز سیاست اور خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیاں آئیں اور وہ کھلے عام صہیونیت مخالفین کی حمایت کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عرب اتحاد اور افریقی اتحاد کے بھی علمبردار بن گئے اور سیاہ فاموں کے حقوق کے ہمنوا بھی بن گئے۔ اس نے عرب اور افریقی دنیا اور اسلامی ممالک میں قذافی کو بڑی مقبولیت دی۔ جب 1974ء میں وہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں پاکستان آئے تو مقبول لیڈر کے طور پر ان کا استقبال کیا گیا۔ جب کہ پاکستان میں کئی مقامات پر قذافی ٹائون، قذافی چوک وغیرہ قائم ہوئے لیکن صہیونیت کے خلاف تحریکوں کی حمایت اب قذافی کا سب سے بڑا جرم بن گیا اور مغرب نے سچے اور جھوٹے الزامات عائد کرکے دنیا بھر میں قذافی کے خلاف مہم چلائی۔ یہاں تک کہ قذافی کو ذہنی طور پر فاتر یا دیوانہ بھی قرار دیا جانے لگا۔ شاید اسی لیے انہیں ڈونلڈ ٹرمپ ملے۔ مغربی ممالک اور خصوصاً امریکا کو فکر یہ تھی کہ قذافی ایک جانب مشرقی بلاک میں ہے اور سوویت یونین کا حلیف ہے اور اس سے بھاری تعاون بھی حاصل کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ مغربی یورپ میں امریکی اتحادی ممالک سے بھی قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ مغرب اسے خارجہ پالیسی کی خرابی قرار دیتا تھا جب کہ یہ لیبیا کی خارجہ پالیسی کی کامیابی تھی کہ امریکا اور اسرائیل کا مخالف ہونے کے باوجود امریکی اتحادیوں سے اچھے تعلقات رکھتا تھا۔ 9/11 کے بعد لیبیا کے تعلقات جو امریکا نے مغربی ممالک سے خراب کرادیے تھے دوبارہ معمول پر آنے لگے لیکن ان کی شرط یہ تھی کہ لیبیا ایٹمی عدم پھیلائو کی مہم میں شامل ہوجائے گا اس کے عوض لیبیا پر عائد پابندیاں بھی نرم کردی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی 2011ء کے اوائل میں 27 فروری کو امریکی سرپرستی میں قذافی کے خلاف قومی عبوری کونسل تشکیل دی گئی اور قذافی کے مخالفین نے اس کونسل کے تحت کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ یہ کونسل اپنے قبضہ شدہ علاقوں میں عبوری حکومت کے طور پر کام کرنے لگی۔ امریکی سرپرستی کا ثبوت صرف تین ہفتے بعد 21 مارچ 2011ء کو سامنے آیا جب ناٹو افواج باغیوں کی مدد کے لیے لیبیا میں اُتار دی گئیں۔ یہ وہی کام تھا جو قذافی کے لیے الزام تھا کہ وہ دوسرے ملکوں میں باغیوں کی مدد کرتا ہے۔ عبوری کونسل کے قیام کے صرف چار ماہ بعد 27 جون کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے کرنل معمر القذافی اور ان کے ساتھیوں کے وارنٹ جاری کردیے۔ اس کے دو ماہ بعد 20 اگست کو تریپولی پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا اور یوں قذافی سے اس کے جرائم کا بدلہ لینے کا آغاز ہوگیا۔ بالآخر دو ماہ کی مزاحمت کے بعد 20 ستمبر کو قذافی کے حامیوں کو شکست ہوگئی اور 20 اکتوبر 2011ء کو قذافی کو قتل کرکے لیبین عرب جماہریہ کا خاتمہ کردیا گیا۔
قذافی کے خلاف مصر کی مدد سے 1975ء میں ایک بغاوت کی کوشش ناکام ہوئی۔ اس کے سرخیل میجر عبدالمنعم اور عمر محیثی تھے۔ ناکامی کے بعد مصر کے صدر انوار السادات نے ان کو مصر میں رہایش دے دی۔ اس کے اگلے سال مصری حکومت نے دعویٰ کردیا کہ لیبیا نے مصر کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کی ہے۔ مصر اور لیبیا کے درمیان اسی قسم کی رسہ کشی جاری رہی۔ صدر انوار السادات نے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے درخواست کی کہ ہم لیبیا پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اس دوران اسرائیل کو مصر کے خلاف کسی کارروائی سے روک دیا جائے۔ اس دور میں مصر نے روس سے فوجی تعاون ختم کردیا اور لیبیا نے جاری رکھا۔ یہ بات بھی امریکیوں کو پسند نہیں آئی اور وہ لیبیا کے خلاف سازشوں کی سر پرستی کرتا رہا۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان الجزائر کے صدر حواری بومدین اور فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کے تعاون سے امن معاہدہ ہوگیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور ممالک قذافی کے بارے میں یہ تو بتاتے ہیں کہ قذافی نے افریقی ملکوں میں فوجی مداخلت کی لیکن لیبیا میں ناٹو کی مداخلت پر خاموش رہتے ہیں یا اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ قذافی نے جنوبی افریقا کی نسل پرست انتظامیہ کے خلاف نیلسن منڈیلا کی کھل کر حمایت کی تھی اور اس حمایت پر منڈیلا اور قذافی کی قریبی دوستی تھی۔ یہ دوستی اتنی مضبوط ہوئی کہ منڈیلا کے پوتے کا نام بھی قذافی رکھا گیا۔ اس دوستی کو ختم کرانے کے لیے امریکی صدر بل کلنٹن اور دیگر مغربی سربراہوں نے منڈیلا سے صدر بننے کے بعد لیبیا سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا جو نیلسن منڈیلا نے مسترد کردیا۔ کرنل قذافی نے نیلسن منڈیلا کی انتخابی مہم میں بھی بھرپور تعاون کیا تھا۔ بعد میں نیلسن منڈیلا نے مغربی ممالک کے لیبیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں لیبیا کی مدد بھی کی تھی۔ کرنل قذافی افریقی ممالک میں اپنی انقلابی شناخت کی وجہ سے مقبول لیڈر بن چکے تھے اور اپنی آزاد خیالی اور الٹے سیدھے ڈراموں کے باوجود اسلامی ممالک میں بھی قذافی کی مقبولیت کم نہیں ہوسکی تھی۔ وہ یوگنڈا کے صدر عیدی امین کے بھی گرمجوش حامی اور معاون تھے۔ قذافی نے وسطی افریقا کے صدر بوکا سا کی بھی بھرپور مدد اور حمایت کی۔ قذافی کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ اس نے صومالیہ کے ڈکٹیٹر سعید برے کو اکھاڑ پھینکنے میں صومالی نیشنل موومنٹ اور دوسری تنظیموں کی مدد کی۔
افریقی ممالک میں قذافی کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں 2008ء میں دوسو سے زائد افریقی رہنمائوں کی موجودگی میں ’’افریقی بادشاہوں کا بادشاہ‘‘ کا لقب دیا گیا۔ بعد میں اگلے سال ایسی ہی تقریب کو یوگنڈا نے میزبانی سے انکار کرکے روک دیا۔ لیکن افریقی اتحاد کے 53 ویں اجلاس کے موقع پر ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں ایک تقریب میں کرنل معمر قذافی کو افریقی اتحاد کا سربراہ منتخب کرلیا گیا۔ لیکن یہ تو کوئی جرم نہیں تھا۔ اصل جرم یہ تھا کہ وہ ان افریقی رہنمائوںکو رہاست ہائے متحدہ افریقا کی منزل پر پہنچانے کا عزم ظاہر کردیا تھا۔ کیا یہ جرم ریاست ہائے متحدہ امریکا کے لیے تکلیف دہ نہیں تھا۔ بڑے جرائم میں قذافی کا یہ اعلان بھی شامل تھا کہ عرب دنیا کا کوئی بھی شہری تحریک آزادی فلسطین میں حصہ لینا چاہے تو وہ اپنے ملک میں لیبیا کے سفارتخانے میں اپنا نام رجسٹر کرالے۔ لیبیا اسے تربیت سمیت تمام سہولتیں دے گا اور قذافی نے ایسا کیا… پھر ایسے جرائم کا انجام 20 اکتوبر 2011ء کو امریکی اور مغربی سرپرستی میں لڑنے والے باغیوں کے ہاتھوں قتل کی صورت میں سامنے آیا۔ قذافی کے لیبیا کو مغربی ذرائع ابلاغ ’’قذافی کے دور میں خوشحال لیبیا کی تباہی‘‘ قرار دیتے ہیں۔