از مکافات ِ عمل غافل مشو

1706

چھوٹی سی عمر سے سنتے آئے ہیں کہ یہ دنیا مْکافات ِ عمل کا مقام ہے!! چونکہ اس وقت ہماری سوچ و فکر ایک محدود زاویوں اور چیزوں پر غورو خوض کیا کرتی تھیں۔ ان ایام میں کبھی سوچا ہی نہیں کہ یہ مْکافات ِ عمل ہے کیا؟؟ آخر کیوں بار بار ’’یہ دنیا مْکافات ِ عمل ہے‘‘ کے جملے سماعت و بصارت میں دستک دیتے رہے؟؟ آج اسی تدبر وتفکر کے نکتہ نے اس موضوع پر اظہارِ خیال کی ترغیب دے دی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مْکافات ِ عمل کا عنوان آج ایک تحریک اور فہم و شعور کا مرکز و محور بن گیا۔
’’مْکافات ِ عمل‘‘ کہتے ہیں ’’عمل کے بدلے کو‘‘۔ عام طور پر یہ لفظ گناہ کے بدلے کے لیے بولا جاتا ہے۔ محاوراتی طور پر ہم اس کے معنی میں کہہ سکتے ہیں جیسا بوئو گے ویسا کاٹو گے۔ یعنی وہ اعمال جو ہم انجام دیتے ہیں اور اس نیک و بد اعمال کے عوض ہمیں جو جزا و سزا ملتی ہے اسے ’’مْکافات ِ عمل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اچھا یا بْرا بدلہ ملنے کو اردو میں ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘، ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘، ’’جیسا بوئو گے ویسا کاٹو گے‘‘ اور عربی زبان میں ’’کَمَا تَدِینْ تْدَان‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی جیسا تم کام کرو گے ویسا تمہیں اس کا بدلہ ملے گا، جو تم کسی کے ساتھ کرو گے وہی تمہارے ساتھ ہوگا۔
گَندَم اَز گَندَم بِرْوید جَو اَز جَو!
اَز مْکَافَاتِ عَمَل غَافِل مَشْو
(گندم سے گندم اور جَو سے جَو اْگتے ہیں! کسی عمل کے بدلے سے غافل نہ رہو)
ہم دنیا میں جو اچھا یا بْرا بیج بوئیں گے، اس کی ویسی ہی فصل کاٹیں گے۔ دین ِ اسلام سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کا مکمل عقیدہ و ایمان ہے اور پختہ یقین بھی کہ انسان دنیا میں جو کچھ بھی کرتا ہے۔ وہ بری نیت سے کرے یا نیک نیتی سے۔ بدی کر رہا ہو یا نیکی۔ اْسے اپنے نامہ ٔ اعمال کے مطابق ہر حالت میں جزا و سزا کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ دنیا و آخرت میں وہ جتنی بھی سزا پاتا ہے وہی ’’مْکافات ِ عمل‘‘ ہے۔ اس دنیا میں انسان جو کچھ کرتا ہے اس کا بدلہ اُسے دنیا و آخرت میں ضرور ملتا ہے، پھر چاہے وہ اچھا ہو یا برا۔ اچھائی کی جزا جس طرح ضرور ملتی ہے اسی طرح برائی کی سزا بھی ملتی ہے۔ آج اگر کسی کے دل آزاری کرو گے تو کل ان لمحات کا سامنا تمہیں بھی کرنا ہوگا۔ آج کسی کا حق مارو گے تو کل اپنے حق سے بھی محروم ہو جاؤ گے۔ کسی کو ناحق ذلیل و رسوا کرو گے تو کل تمہیں بھی ایسے ہی ایام کا سامنا ہوگا۔ آج کسی کو دھوکہ دو گے تو کل خود بھی دھوکا کھائو گے۔ آج کسی پر ظلم و زیادتی کرو گے تو کل تمہیں بھی ان مراحل سے گزرنا ہوگا۔ کسی کے ساتھ ناانصافی کی ہوگی تو ناانصافی کا یہ عمل تم پر بھی لوٹ آئے گا۔ درحقیقت یہ دنیا دارْالعَمَل ہے اور اس کی جزا و سزا تو آخرت میں ملنی ہی ہے مگر کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن سے دنیا میں بھی سابقہ پڑتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا بدلہ چکانا ہوتا ہے۔ سچ پوچھیں تو اس دنیا میں بھی انسان کو آخرت کا نظارہ دیکھنے کو مل ہی جاتا ہے، اللہ تعالیٰ یہاں پر ہی آپ کے بعض کرموں کا پھل سود سمیت آپ کو لوٹا دیتا ہے۔ اسی دنیا میں آپ کا ہر عمل فلٹر ہو کر آپ کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ جب یہ طے ہے کہ اچھے یا برے سارے بھگتان بھگتنے پڑیں گے تو پھر کسی کا دل دکھا کر اپنا دل کیسے محفوظ رکھ سکو گے۔ کسی کا برا چاہ کر اپنا اچھا کیسے کرو گے۔ انسان جیسا بیج بوئے گا لازماً آخرت میں ویسا ہی پھل پائے گا۔
بچا کوئی مْکافاتِ عمل سے
وہی کاٹے گا جو بوتا رہے گا
اسلام میں تو یوم الدین کے بے لاگ عدل اور مْکافات ِ عمل کا دائرہ کار انسان، حیوانات اور حشرات الارض تک پھیلا ہوا ہے، اسلام کہتا ہے اگر کسی جانور نے بھی دوسرے جانور پر ظلم کیا ہوگا تو اللہ تعالیٰ مظلوم کی داد رسی کرے گا۔ حدیث میں آتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’تمہیں روزِ قیامت حق والوں کے حق ضرور ادا کرنے ہوں گے حتی کہ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا‘‘۔ (مسلم) جب کسی ایک سینگ کا بھی حساب کتاب ہوگا تو روح کو داغدار کرنے والے کیسے قابل معافی ہوسکتے ہیں۔ اس حدیث میں انسانوں کے لیے بہت بڑا درسِ عبرت ہے کہ جب غیر مکلف مخلوق جانوروں کو معاف نہیں کیا جائے گا تو مکلف مخلوق انسان کے ظلم کو کیونکر نظر انداز کیا جائے گا؟ اگر اس نے ظلم سے توبہ کرکے اس کی تلافی نہ کی ہوگی تو اسے یقینا اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ آخرت میں مْکافات ِ عمل کی صَراحَت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ سے ثابت ہے۔ قرآن میں سورہ الزلزال کی آیت نمبر 6 تا 8 میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’اْس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ اْن کے اعمال اْن کو دکھائے جائیں۔ پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔
جب یہ تحریر قلم بند کررہا تھا اس وقت میری شریک ِ حیات نے اپنے حاصل ِ مطالعے کی بنیاد ایک نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ذرّہ سے مراد پہاڑ کے نیچے کسی چیونٹی نے انڈا دیا ہو اور اس انڈے میں سے اس کے بچے کا باریک سا حصہ باہر آیا ہو تو اس حصہ کو ’ذرّے‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔
جن کے نامہ ٔ اعمال داہنے ہاتھ میں ہوں گے ان کے لیے جنت کی لازوال نعمتیں اور ہمیشہ کا عیش و آرام ہوگا۔ جن کے نامہ ٔ اعمال بائیں ہاتھ میں ہوں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا۔ البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے‘‘۔ (سورہ الکہف: 107)
یقین رکھو، جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں جان دی اْن میں سے کوئی اگر اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں دے تو اْسے قبول نہ کیا جائے گا ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیار ہے اور و ہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔ (سورہ آل عمران: 91)
یہ تو ہے اْن کا حال، اور جو کوئی بدلہ لے، ویسا ہی جیسا اْس کے ساتھ کیا گیا، اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ اللہ معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ (سورہ الحج: 60)
سیدنا لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو چند باتوں کی جب نصیحت کی تو اس میں ایک بات یہ تھی کہ: ’’اے میرے بچے! اگر وہ (کوئی اچھا یا برا عمل) رائی کے دانے کے برابر بھی ہو پھر وہ ہو کسی چٹان میں یا آسمانوں میں یا زمین کے اندر اسے اللہ لے آئے گا یقینا اللہ بہت باریک بین ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے‘‘۔ (سورہ لقمان: 16)
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کسی بات پر اپنے غلام کو مار رہے تھے۔ نبی کریمؐ نے انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو فرمایا: جتنا تم کو اپنے غلام پر قابو ہے، اللہ اس سے زیادہ تم پر قدرت رکھتا ہے۔سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے اپنے اس غلام کو آزاد کردیا۔ (مسلم)
ہم دنیا میں آئے ہیں ایک دن جانا بھی ہے۔ یہ دنیا مْکافات ِ عمل ہے، یہاں ہر شخص کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے، ہر جھوٹ، ہر دھوکے، ہر فریب، ہر تکلیف، ہر اذیت جو وہ کسی کو دیتا ہے، اْسے اپنی ذات پہ بھگتنا ہے۔ ہر غلط ارادے، سوچ، عمل کا حساب دینا ہے۔ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو اپنے ہی جیسے انسانوں کو اذیتیں و تکالیف اور ظلم و زیادتی کے درد سے گزار کر، جب پشیمانی یا اپنی غلطی پر نادم ہوتے ہیں تو اللہ کے حضور معافی تلافی کرنے کو عافیت سمجھتے ہیں۔ یہ مْکافات ِ عمل کا اصول ہے کہ ان مراحل سے اذیتیں و تکالیف دینے والوں کو بھی گزرنا پڑتا ہے۔ جب تک کہ معاف کرنے والا بندہ تمہیں معاف نہ کردے۔ اس وقت تک ربّ بھی معاف نہیں کرتا ہے۔ کتاب زندگی سے سب کچھ بھول جائیں لیکن مْکافات ِ عمل کا باب کبھی مت بھولیں، جو دیا جاتا وہ واپس بھی آتا ہے۔