سامانِ عبرت

495

جدید ذرائع ابلاغ، الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک، انسٹا گرام، وٹس اپ، اسمارٹ موبائل، انٹر نیٹ اور جدید ترین ذرائع مواصلات نے دنیا کو اس کی وسعتوں کے باوجود سمیٹ دیا ہے اور اسی لیے اسے’’گلوبل ولیج‘‘ یعنی ’’عالمی گائوں‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان ذرائع ابلاغ کے ہوتے ہوئے عریانی وفحاشی کے سمعی وبصری (Audio Visual) مناظر سب کی پہنچ میں ہیں اور اب خاص طور پر نئی نسل کا ان کی زَد سے بچنا عملاً دشوار ہے، بیٹا ماں باپ کو قتل کر رہا ہے، ماں باپ اولاد کو قتل کر رہے ہیں، محض کپڑوں کے نئے جوڑے کے لیے جواں عمر بیٹا ماں کو قتل کر رہا ہے، بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو قتل کر رہا ہے، جہاں ماں باپ مرضی کے رشتے میں رکاوٹ بنتے ہیں تو اُن کے قتل کے واقعات ہورہے ہیں، الغرض انتہائی المناک، ہولناک، دردناک اور اذیت ناک صورتِ حال ہے، ماں باپ پولیس تھانوں اور عدالتوں میں رُل رہے ہیں اور بیٹیاں انہیں ٹھکرا رہی ہیں، انسان سوچ کے لرز جاتا ہے: ’’جس ماں نے اُسے نو ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھا، تکلیف پر تکلیف برداشت کرتے ہوئے اُسے جنا، پھر خود تکلیفیں اٹھاکر اُسے راحتیں پہنچائیں، محنت مشقت کر کے اُسے پالا پوسا اور آج اُس نے توتے کی طرح آنکھیں پھیر لیں‘‘، ذرا سوچیے! اُن ماں باپ کے دل پر کیا گزرتی ہوگی، خواجہ عزیز الحسن مجذوب نے کہا تھا:
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
اللہ تعالیٰ نے ماں کی مشقتوں کا قرآنِ کریم میں بیان فرمایا: ’’اور ہم نے انسان کو اُس کے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا تاکیدی حکم دیا، اُس کی ماں نے اُسے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھا کر پیٹ میں رکھا اور پھر اُسے جنا، اُس کے پیٹ میں اٹھائے پھرنے اور اُس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے‘‘، (الاحقاف: 15)، ’’اور ہم نے انسان کو اُس کے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا، کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دوبرس میں ہے، (ہم نے تاکید کی) کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو، تم نے میری ہی طرف لوٹنا ہے‘‘۔ (لقمان:14) مسلمان والدین تو اللہ تعالیٰ کی بے بہا نعمت ہیں، مشرک والدین کے ساتھ بھی دنیاوی معاملات میں اللہ تعالیٰ نے حُسنِ سلوک کی ہدایت فرمائی: ’’اور اگر وہ تجھ پر یہ دبائو ڈالیں کہ تم میرے ساتھ اُسے شریک ٹھیراؤ، جس کا تمہیں علم نہیں ہے، تو (اس معاملے میں) اُن کی اطاعت نہ کرنا اور (اُن کے کفروشرک کے باوجود) دنیا میں اُن کے ساتھ نیک سلوک کرنا‘‘۔ (لقمان: 15) حدیث پاک میں ہے: ’’سیدہ اسماء بنت ابی بکر بیان کرتی ہیں: میری والدہ (مدینۂ منورہ میں) میرے پاس آئیں اور وہ رسول اللہؐ کے عہد میں مشرکہ تھیں، میں نے رسول اللہؐ سے مسئلہ معلوم کیا اور پوچھا: وہ اعراض کرنے والی ہیں، کیا میں اپنی (مشرکہ) ماں سے حُسنِ سلوک (صلہ رحمی) کروں؟، آپؐ نے فرمایا: ہاں!‘‘۔ (بخاری)
فقہائے کرام نے لکھا ہے: ’’اگرعلامات ِ بلوغ ظاہر ہوجائیں توکم از کم ممکنہ عمرِ بلوغ لڑکی کے لیے 9سال اور لڑکے کے لیے 12سال ہے اور اگر علامات ظاہر نہ ہوں تو 15سال کی عمر میں وہ بالغ تصور کیا جائے گا‘‘، میں نے فقہِ جعفریہ کے ایک ثقہ عالم سے پوچھاتو انہوں نے بتایا: فقہِ جعفریہ میں 14سال کی عمر تک پہنچنے پر بالغ تصور کیا جائے گا۔ شادی کے حوالے سے ہمارے قانون میں پہلے کم از کم عمر 16سال تھی، اب اسے 18سال کردیا گیا ہے، یعنی ہمارے قانون سازوں کی دانش نے شریعت کے احکام کو تسلیم کرنا ضروری نہیں سمجھا، فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے: ’’گرم ممالک میں بلوغت جلدی آسکتی ہے‘‘، کیونکہ جب اسکرین پر جنسی شہوت کو ابھارنے کے مناظر عام ہوں تو لڑکے لڑکیاں جلد جوانی کی عمر میں داخل ہوجاتے ہیں اور جوانی کے آغاز ہی میں شہوت سے مغلوب ہوجاتے ہیں اور پھر وہ ناخوشگوار مظاہر ومناظر دیکھنے پڑتے ہیں جو ہمارے سامنے آرہے ہیں، لبرل این جی اوز اور لبرل میڈیا ان چیزوں کو ہوا دیتا ہے، عدالت اور وکالت کے ادارے کا جھکائو بھی اسی جانب ہوتا ہے۔
چنانچہ اب صورت ِ حال یہاں تک پہنچ گئی ہے: ’’لڑکیاں ماں باپ کی رضا مندی یا اُن کے علم میں لائے بغیر اپنے آشنائوں کے ساتھ نکل رہی ہیں اور شادیاں بھی رچا رہی ہیں، ماں باپ پولیس تھانوں اور عدالتوں کے چکر لگارہے ہیں، سرِ عام رسوا ہورہے ہیں اور حالات کا دھارا اُن کی مخالف سَمت میں بہہ رہا ہے‘‘۔ اسے ایک فرد یا خاندان کا کَرب نہ سمجھا جائے کہ: ’’گری تھی جس پہ کل بجلی، مرا ہی آشیاں کیوں ہو‘‘، بلکہ یہ سوچنا چاہیے: ’’کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد‘‘۔
اس کے منجملہ اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں دینی تربیت کا مربوط نظام نہیں ہے، ہمارے خطے کی جو اخلاقی و تہذیبی اقدار ہیں، اُن کی گرفت کمزور پڑ چکی ہے اور شیطانی جال نوخیز ذہنوں کو شکار کرنے کے لیے ہرسو پھیلے ہوئے ہیں۔
اہلسنّت کے چاروں مذاہب، نیز فقہ ِ جعفریہ اور سلفیہ میں کنواری لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کو ’’جبری ولایت‘‘ حاصل ہے، یعنی ولی کی اجازت کے بغیر ایک عاقلہ بالغہ لڑکی نکاح کرہی نہیں سکتی، البتہ فقہ ِ حنفیہ میں اگرچہ احسن اور پسندیدہ شعار یہی ہے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی ولی کی اجازت سے شادی کرے، لیکن اگر لڑکی نے اپنی آزادانہ مرضی سے کُفو میں نکاح کرلیا تو یہ ناپسندیدہ ہونے کے باوجود منعقد ہوجائے گا، یعنی کوئی کسی بھی فقہ کا ماننے والا ہو، اس مسئلے میں اب فقہِ حنفی پر عمل ہے، فقہ ِ جعفریہ کے علماء بھی یہی کہتے ہیں کہ اگرچہ کنواری عاقلہ بالغہ لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کی اجازت لازمی ہے، لیکن وہ اُس پر جابرانہ انداز میں اپنی رائے مسلّط نہیں کرسکتا اور نہ ہمارے آئینی وقانونی نظام میں اس کی گنجائش ہے۔ ’’کُفو‘‘ میں پہلے خاندان، قبیلے اور برادری کو دیکھا جاتا تھا، لیکن اب اُس کی جگہ اعلیٰ تعلیم، دولت وثروت، منصب اور دیگر چیزوں نے لے لی ہے۔ فقہ جعفریہ کے مستند عالم ڈاکٹر محسن نقوی نے کہا: ’’اب اس کے سوا چارۂ کار نہیں ہے کہ ہم ایمان واسلام کی کفائت کو تسلیم کرلیں‘‘، انہوں نے کہا: ’’میں نے اپنے لوگوں سے کہا ہے: اگر لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر کسی لڑکے سے شادی رچالی ہے اور خلوت ِ صحیحہ بھی ہوگئی ہے، تو اب وہ لڑکی اگر اسے چھوڑ کر واپس اپنے خاندان میں آبھی جائے، تو اُسے پہلے جیسا احترام ووقار نہیں ملے گا اور اُسے طنز وتعریض کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا‘‘۔ پس جب معاملات اس نہج تک پہنچ جائیں تو ولی اور والدین کو صبر سے کام لینا چاہیے اور مصالحت ومفاہمت کی کوئی صورت نکالنی چاہیے، میری رائے بھی یہی ہے۔ فقہ حنفی میں عاقلہ بالغہ لڑکی اگر ولی کی اجازت کے بغیر ’’غیرِ کفو‘‘ میں نکاح کرلے، تو ولی اُسے فسخ کراسکتا ہے، لیکن اب یہ صرف نظری مسائل ہیں، کیونکہ ہمارے ملک کا عدالتی نظام اسے تحفظ نہیں دیتا۔
قبائلی معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں، یہ بھی حمیّت وعصبیت ِ جاہلیہ ہے۔ والدین کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں تو اولاد کے ساتھ مکالمہ کریں، دلیل واستدلال کے ساتھ قائل کریں، علامہ اقبال نے کہا ہے:
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’عورت کے ساتھ نکاح چار خوبیوں کے سبب کیا جاتا ہے، اُس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب کی وجہ سے، اُس کے جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے، (آپ نے بطورِ تنبیہ فرمایا:) تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں، تم دیندار عورت سے نکاح کرنے میںکامیابی حاصل کرو‘‘، (بخاری) یعنی اگر تم دیندار عورت کے ساتھ نکاح کرنے میں کامیابی حاصل نہ کرو تو تم نامراد رہو گے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لینا چاہیے کہ اگرکوئی عورت کی دینداری کو ترجیح دے تو اُسے اُس میں دوسری خوبیاں نہیں ملیں گی، اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ سب خوبیاں کسی میں جمع فرمادے اور اگر کسی میں ایک جہت سے کمی ہو تو دوسری جہت سے اس کی احسن طریقے سے تلافی فرمادے، مثلاً: وہ سعادت مند، اطاعت گزار اور محبت کرنے والی ہو اور اس سے اللہ تعالیٰ سعادت مند، اطاعت گزار اور حسین وجمیل اولاد کی نعمت عطا فرمادے، چنانچہ حدیث پاک میں ہے:
’’سیدنا ابوامامہ بیان کرتے ہیں: نبیؐ فرمایا کرتے تھے: اللہ کے تقوے کے بعد جس چیز سے انسان بہترین نفع اٹھاتا ہے، وہ نیک بیوی ہے (اس کی خوبی یہ ہے) اگر وہ اُسے کسی بات کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرے اور اگر وہ اس کی جانب دیکھے تو اُسے سرور بخشے اور اگر وہ اس کی بابت قسم کھائے تو اُسے سرخرو کرے اور اگر وہ موجود نہیں ہے تو اپنی (پاکدامنی) اور اس کے مال کی حفاظت کرے‘‘، (ابن ماجہ) کیونکہ کسی عورت کے پاس اس کے شوہر کی سب سے قیمتی امانت اس کی پاک دامنی اور حیا ہے۔
ذرا سوچیے! کوئی ارب کھرب پتی آدمی ہے، لیکن اس کے گھر میں وفا شعار، عفت مآب، محبت کرنے والی اور اطاعت گزار بیوی نہیں ہے تو یہ نعمت اُسے کسی سپر اسٹور یا ڈیپارٹمنٹل اسٹور سے دولت کے عوض نہیں مل سکتی، یہ نعمت محض اللہ تعالیٰ کے فضل وعطا سے نصیب ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اپنے میں سے غیرشادی شدہ صالح مردوں اور عورتوں کا نکاح کرو، اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کردے گا اور اللہ تعالیٰ وسعت والا، بہت جاننے والا ہے‘‘، (النور:32) ’’سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: میں نے نبیؐ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی عورت سے اس کی عزت کی وجہ سے شادی کی، اللہ تعالیٰ اُس کی ذلت میں اضافہ فرمادے گا، جس نے کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے شادی کی، اللہ تعالیٰ اُس کے فقر میں اضافہ فرمادے گا، جس نے کسی عورت سے اس کے حسن وجمال کی وجہ سے شادی کی، تو اللہ تعالیٰ اس کی کمینگی میں اضافہ فرمائے گا، جس نے کسی عورت سے محض اس وجہ سے شادی کی کہ (حیا کے سبب) اس کی نگاہیں نیچی رہیں اور اس کی شرمگاہ محفوظ ہوجائے اور وہ قرابت کے رشتوں کو جوڑے تو اللہ تعالیٰ اُس نکاح میں ان دونوں کے لیے برکتیں مقدر فرمادے گا‘‘۔ (مجمع الزوائد)