چینی قرض آئی ایم ایف میں رہنے سے مشروط؟

808

جسارت میں 25جون کو چھپنے والے مضمون ’’پاک چین دوستی میں کڑواہٹ؟‘‘ پر بہت سارے قارئین نے اعتراض کیا ہے کہ آپ نے صرف چین ہی کو قصوروار بتایا، حقیقت یہ کہ پاکستان نے حکومتی سطح پر چین سے دوستی کے بجائے اس کی مخالفت میں کام کیا ہے خاص طور پر سی پیک منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات میں مشکل حالات کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چین سمیت دیگر ممالک سے نجی سیکٹر میں کام کروانے کے لیے اس کے پیچھے پاکستانی حکومت کی سوورین گارنٹی ہوتی ہے، اس سے حکومت اپنا پیسہ استعمال کیے بغیر منصوبے میں سرمایہ کاری کروانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اس میں کوئی انوکھی بات نہیں لیکن سی پیک کے لیے کوئی ایسی خاص گارنٹی نہیں دی گئی جو دیگر توانائی کے منصوبوں کو نہ دی گئی ہو۔ اعتراض یہ بھی ہے کہ سی پیک کے قرضے بہت مہنگے ہیں اس میں 2 چیزیں ہیں ایک جو نجی شعبے کے توانائی منصوبے ہیں جن کے لیے قرضے لیے گئے، دوسری طرح کے وہ ہیں جو حکومت نے لیے جن سے انفرا اسٹرکچر کے باقی منصوبے تعمیر کیے گئے۔ توانائی کے جن منصوبوں کے لیے چین کے بجائے دیگر قرض دہندہ اداروں مثلاً عالمی بینک، آئی ایف سی، اے ڈی بی، ڈی ای جی وغیرہ نے جو قرض دیا ان کے مقابلے میں چینی فنانسنگ کم شرح سود پر ہے البتہ بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر قرض دینے کے حوالے سے جلدی جواب نہیں دیا جس سے پاکستان کو مالی دبائو کا سامنا تھا۔ لیکن چین کی طرف سے حال ہی میں پاکستان کو 2.3 ارب ڈالر کا قرض وصول ہوگیا ہے۔
لیکن اس حقیقت سے انکا نہیں ہے کہ ’’پہاڑوں سے اونچی اور سمندروں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی دوستی‘‘ والا جملہ چینی قرضوں کے لیے نامناسب ہے، کیوں کہ چین نے آج تک جو کچھ بھی پاکستان کو دیا ہے اس کی ضرورت سے زیادہ قیمت وصول کی ہے اور آئندہ بھی کرے گا۔ ہمارے حکمرانوں کا یہ شیوہ ہے کہ ہر قرض کے ملنے کے بعد وزرات خزانہ نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ فنڈز زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 2.3 ارب ڈالر کتنی دیر کے لیے معیشت کو سہارا دے سکیں گے؟ اس قرض میں یہ آسانی ہے کہ اس میں سے کچھ حکومت ِ پاکستان بھی خرچ کر سکے گی۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا ہو گا یہ قرض حکومت ِ چین نے براہ راست پاکستان کو نہیں دیا بلکہ اس کے کمرشل بینکوں نے دیا ہے۔ جس کی شرح سود ابھی چین میں کورونا کی وجہ سے کم ہے لیکن ایک ماہ میں اس میں 10سے 15فی صد اضافہ ہو جائے گا اس تناسب سے سود کی رقم میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ابھی یہ رقم چینی بینکوں میں بے کار پڑی تھی جس کو پاکستان سے بھاری سود کے ساتھ وصول کیا جائے گا۔
ماضی کی حکومتوں کو مدنظر رکھا جائے تو ہر تین یا چار ماہ کے بعد قرض ملنے پر اسی طرح مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک چلانے کے لیے اگلے سال تقریباً 41 ارب ڈالر قرض لینے ہوں گے اور اگر اسی طرز پر معیشت چلائی گئی تو دو سال میں یہ طلب 80 ارب ڈالر سے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ان حالات میں چین کی جانب سے پاکستان کو اصلاحات کروائے بغیر قرض دینا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ یہ اصلاحات دستوری ہوں گی جن کو دنیا بھر کے ممالک کی طرح پاکستان کے ساتھ ہونے والے سی پیک معاہدے میں شامل کیا گیا ہے۔
چین سے ملنے والے قرض پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں۔ چین کے باقی دنیا کی نسبت پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدے زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ مارچ کے مہینے میں پاکستان کے مشکل حالات کے باوجود چین نے پاکستان سے قرض واپس لیا تھا اور اگر قرض واپسی میں تاخیر ہوتی تو پاکستان اور آئی ایم ایف میں مزید بہتری کی گنجائش موجود تھی۔ چینی قرضوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جس مقصد کے لیے قرض دیے جاتے ہیں اس کے نتائج دیکھے بغیر اگلا قرض دے دیا جاتا ہے جو کرپشن اور مس مینجمنٹ کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سے حکومت اور اشرافیہ کو فائدہ اور عوام پر قرض کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے، دوستی کا تقاضا تو یہ ہے کہ پاکستان کو امریکا اور آئی ایم ایف کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔ حقیقت میں اصل دوست آئی ایم ایف ہے نہ کہ چین۔ اگر ملک میں چھے ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا ہو رہا ہے تو وہ آئی ایم ایف ہی کے دباؤ میں ہو رہا ہے۔ پاکستان کو چین سے لیے گئے مہنگے قرضوں اور معاہدوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی نے چینی معاہدوں میں کافی ردو بدل کیا تھا جو ملکی مفاد میں تھا۔ اس سے چینی قرضوں میں کمی ممکن ہو سکے گی۔
ماہر ِ معاشیات کا کہنا ہے کہ ’چین کے قرض کو عارضی ریلیف کہا جا سکتا ہے لیکن یہ معاشی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ چین سے قرض ملنے کی امید شاید اصلاحات کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے، تو غلط نہیں ہو گا۔ پاکستان نے مارچ میں 2.3 ارب ڈالرز چین کو قرض واپس کر دیا تھا۔ جون کے مہینے میں دوبارہ وہی قرض لیا جا رہا ہے۔ اس کی شرائط بھی زیادہ سخت ہیں۔ چین نے پاکستان کو پابند کیا ہے کہ قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا ضروری ہے۔ ورلڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک کے بعد پاکستان نے سب سے زیادہ قرض چین سے لے رکھا ہے، جس کے سود کی ادائیگی بروقت کی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف چین کے قرضوں کے حوالے سے ماضی میں بھی اعتراضات کرتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے چینی آئی پی پیز کو 50 ارب روپے کی ادائیگی پر آئی ایم ایف نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف پیکیج بحال نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ چین کو 50 ارب روپے کی ادائیگی کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف اگلے مرحلے میں پاکستان پر چین سے مزید قرض لینے پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس سے پاکستان کے لیے وقتی طور پر مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں لیکن اس سے معاشی سمت درست ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔
ماہرین کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ چین کے قرضے پاکستانی معیشت چلانے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتے۔ ڈالر کا بڑھنا، مہنگائی میں اضافہ، زرمبادلہ ذخائر میں کمی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور درآمدات میں تاریخی اضافہ جیسے مسائل چینی قرضوں سے حل ہونا ناممکن ہے۔ بلکہ یہ ملک کے معاشی بوجھ میں اضافے ہی کا سبب بنے گا۔ اصل فائدہ برآمدات میں اضافہ کرکے، مقامی صنعت کو فروغ دے کر اور قرضوں پر انحصار کم کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر پاکستان پر ہر تین ماہ بعد نادہندہ ہونے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ قرض کسی صورت ملک کی معیشت کو استحکام نہیں دے سکتا۔ قرض ایک ناگ ہے سانپ کے زہر میں صرف موت ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قرض کے چنگل سے جس قدر جلدی ممکن ہو نکلا جائے۔