خطے میں پاکستان کے امریکی کیمپ میں تجدید اور روس سے تعلقات میں سرد مہری کے بعد خطے کے دیگر ممالک کے اتحاد میں مضبوطی کا ایک مرتبہ پھر آغاز ہو چکا ہے۔ بھارت اور روس کے درمیان 2020ء میں افغانستان میں طالبان کی کامیابی اور بعد میں وہاں ان کی حکومت کے قیام نے روس اور بھارت کے درمیان خلیج پیدا کر دی تھی جس کی وجہ سے روس پاکستان کے قریب آنے لگا تھا لیکن عمران حکومت کے خاتمے سے سب کچھ یکسر تبدیل ہوگیا جس کی وجہ سے روس اور بھارت کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں بہت تیزی سے بہتری پیدا ہونی شروع ہوگی۔ اب روس برکس ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مزید گہرے کرنا چاہتا ہے زیادہ تر مغربی ممالک کی پابندیوں کے بعد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک سے اپنے روابط بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ روسی صدر نے عائد کی جانے والی پابندیوں کو سیاسی حربے سے تعبیر کیا ہے۔
رائٹر نیوز کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے تناظر میں برکس ممالک سے اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا چاہتے ہیں۔ برکس گروپ کے ایک ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیوٹن نے کہا، ’’ہمارے ملک کے تاجروں کو انتہائی سخت حالات میں کاروبار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کیونکہ مغربی ممالک آزاد تجارت کے ساتھ ساتھ نجی املاک کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کر رہے ہیں‘‘۔ برکس گروپ میں روس کے علاوہ برازیل، چین، بھارت اور جنوبی افریقا شامل ہیں۔ پیوٹن نے ’’سیاسی حربے کے طور پر مسلسل عائد کی جانے والے ان نئی پابندیوں‘‘، پر تنقید بھی کی۔ انہوں نے کہا، ’’یہ پابندیاں انسانی عقل اور اقتصادی منطق سے مطابقت نہیں رکھتیں‘‘۔ روسی صدر نے واضح کیا کہ اس وجہ سے روس اپنے اقتصادی روابط اور تجارت کو قابل بھروسا بین الاقوامی ساتھیوں کے ساتھ بڑھانا چاہتا ہے، مطلب یہ کہ سب سے پہلے برکس ممالک کے ساتھ۔ اس طرح روسی تیل کی ترسیل بھارت اور چین کو واضح طور پر بڑھائی جائے گی۔ پیوٹن نے مزید کہا کہ روس برکس کے اپنے دوست ممالک کے ساتھ رقم کی منتقلی کا کوئی متبادل نظام بنائے گا تاکہ ڈالر اور یورو پر انحصار کو کم کیا جا سکے۔
جرمنی میں ترقی یافتہ ممالک کے ہونے والے اجلاس کے موقع پر امریکا نے روس پر دباؤ بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی حکومت کے نمائندے کا کہنا ہے کہ سربراہ اجلاس کے دوران کئی ٹھوس تجاویز پیش کی جائیں گی، ’’یہ یوکرین کے لیے مشترکہ حمایت اور تعاون کا اظہار ہو گا‘‘۔ جی سیون اجلاس میں ایک ایسی دنیا کے تصور پر بات ہو گی، جس میں زور زبردستی، جارحیت اور اثر رسوخ کے بجائے آزادی اور کھلے پن کو اہمیت حاصل ہو گی‘‘۔ لیکن یہ باتیں وہی لوگ کر رہے ہیں جنہوں نے پوری دنیا کو جنگ کے عذاب سے دو چار کر رکھا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی خبر رساں ایجنسی ارنا نے کا کہنا ہے کہ ایران نے روسی اشیاء بھارت بھیجنے کے لیے نیا تجارتی کوریڈور تلاش کرلیا ہے، یوکرین پر حملے کے بعد روس پر عائد پابندیوں کے مدنظر ایرانی حکام تعطل کے شکار اس شمال جنوب ٹرانزٹ کوریڈور پروجیکٹ کو بحال کرنے کے لیے کوشاں تھے، ایران جس کا استعمال روس کو ایشیائی منڈیوں سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایرانی بندرگاہوں کی وزارت کے مطابق ایران کی سرکاری شپنگ کمپنی نے کہا ہے کہ اس نے ملک کے ایک ٹرانزٹ کوریڈور کو ایک نئے تجارتی کوریڈور کے طور پر استعمال کرکے، روسی اشیاء کی پہلی کھیپ بھارت کو منتقل کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ ارنا نے استراخان میں ایرانی روسی مشترکہ ٹرمنل کے ڈائریکٹر دریوش جمالی کے حوالے سے بتایا کہ روسی کارگو، 41ٹن وزنی 40فٹ کے دو لیمنیٹ شیٹس کے کنٹینر کے ساتھ ہفتے کے روز سینٹ پیٹرز برگ سے استراخان شہر کے لیے روانہ ہوگیا۔ رپورٹ میں گوکہ اس روانگی کو ٹرانزٹ کوریڈور سے ابتدائی تجرباتی منتقلی قرار دیا گیا ہے تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ جہاز کب روانہ ہوا اور نہ ہی جہاز پر رکھے گئے دیگر سازو سامان کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ ارنا نے بتایا کہ استرخان سے یہ کارگو بحیرہ کیسپین کو پار کرتے ہوئے شمالی ایران کی بندرگاہ انزلی پہنچے گا اور اسے خلیج فارس میں بندر عباس بندرگاہ کے لیے سڑک کے راستے منتقل کیا جائے گا۔ وہاں سے اسے ایک دوسرے جہاز پر منتقل کیا جائے گا اور بھارتی بندرگاہ نہوا شیوا بھیج دیا جائے گا۔
اس پوری رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے ایران بھی خطے کے ممالک سے اپنے تعلقات کو بہتر بنا رہا ہے۔
27مئی کی اشاعت ’’تقریب خبر ایجنسی ایران‘‘ کے مطابق وزیرِ خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورخ کے قصبے ڈیوس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ریاض ایران سے اپنے معمول کے تعلقات کو بحال کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ حالیہ مذاکرات میں اچھی پیش رفت کی ہے اور مستقبل قریب میں وزارت خارجہ یا وزرائے خارجہ کے حکام کی سطح پر کسی تیسرے ملک یا متفقہ جگہ پر ملاقات کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے، اس لیے پیش رفت چھوٹی لیکن اچھی رہی ہے۔
ایران بھارت کے لیے ٹرانزٹ کوریڈور بنا کر اس کی مدد کرسکتا ہے تو کیا پاکستان و ایران کی مشترکہ سرحد تجارتی تعاون کو بڑھانے کی بہترین صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان قریبی عوام سے عوام کے رابطے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے لازوال رشتے کی ضمانت دیتے ہیں جسے بیرونی دباؤ کے باوجود فروغ دینا چاہیے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد تجارتی تعاون کو بڑھانے کی بہترین صلاحیت رکھتی ہے۔ ایران اور پاکستان دونوں میں حکومتوں کی تبدیلی کا دوطرفہ تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان دوستی کا مضبوط رشتہ ہے جو ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔ تعلقات کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں چیلنجز پیش آ سکتے ہیں لیکن آج ہم اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ایران اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس لیے دونوں ممالک کو اس جانب توجہ مرکوز کر نے کی ضرورت ہے۔ اس سے خطے میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ معاشی بحالی بھی ممکن ہو سکے گی۔