مرزا غالب نے کسی زمانے میں آمدن و خرچ کے عدم توازن کا سبب بننے والے جس انسانی طرزِ عمل پر طنزیہ انداز میں سْخن گوئی فرمائی تھی اْسی صورت ِ حال سے آج پاکستانی قوم دوچار ہے، اور یہ حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ بقول غالب ؎
قرض کی پیتے تھے مئے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ایک طرف یہ عوامی مؤقف کہ حکمران طبقہ عوام کے پیسوں سے خریدا گیا ایندھن اور دیگر مراعات مفت استعمال کرتا ہے تو دوسری جانب حکمرانوں کا یہ دعویٰ کہ ملک میں مہنگائی اور قرضوں کی ایک بڑی وجہ پاکستانی عوام کا ٹیکس کی ادائیگی سے گریز ہے۔ آئیے اِن دو متضاد باتوں کا زمینی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کے اللوں تللوں اور فضول خرچیوں کی رقم قرضوں سے پوری ہو رہی ہے۔گزشتہ چالیس سال کے دوران کھربوں روپے ایسے منصوبوں پر ضائع کر دیے گئے جو عوام کے کام نہ آئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسٹیٹ بینک پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق وطنِ عزیز پاکستان 52 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے۔ اس بھاری قرض کی وجہ سے ہر پاکستانی بچہ پیدا ہوتے ہی ڈھائی لاکھ روپے کا مقروض ہو جاتا ہے۔ یہ بھاری قرضہ کِسے اتارنا ہے؟ حکمران طبقے کو کہ جس نے اپنی کوتاہیوں اور فضول خرچیوں سے یہ قرض ملک وقوم پر چڑھایا یا عوام کو جس کا اس جرم وگناہ میں کوئی کردار نہیں؟
ایک طرف ہمارا حکمران طبقہ بدستور مراعات وسہولتوں سے مستفید ہونے میں مصروف ہے، تو دوسری طرف حسب معمول تمام حکومتی اخراجات اور قرضوں وسود کا بوجھ عام پاکستانی پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے بجٹ 2022-23ء میں عوام پر 440 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کردیے گئے، یعنی عوام کی ہڑپ کردہ رقم کا نقصان بھی عوام ہی برداشت کرے۔ جب بھی حکومتی آمدن بڑھانے کا فیصلہ ہو تو وہ خود کو حاصل مراعات وسہولتیں کم نہیں کرتا، بلکہ ٹیکسوں کی موجودہ شرح بڑھاکر یا عام آدمی پر نئے ٹیکس عائد کرکے حکومتی آمدن بڑھانے کا سارا بوجھ پہلے ہی سے مہنگائی کے کوہِ گراں تلے دبے عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اخراجات (خواہ وہ ترقیاتی ہوں یا غیر ترقیاتی) ان کے لیے حاصل کردہ قرضوں اور سود کی ادائیگی کی خاطر حکومت شرح ٹیکس بڑھاتی اور نئے ٹیکس لگاتی ہے اور یوں مہنگائی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ گویا یہ ایک ایسا شیطانی چکر ہے جس میں پھنسی قوم اُس وقت تک نہیں نکل سکتی جب تک کہ وہ خود انحصاری، خودداری اور ملکی وسائل (اشیا و خدمات) کی ترقی پر مبنی راستہ اختیار نہیں کرلیتی اور حکمران طبقہ اپنی مراعات وسہولتوں کا خاتمہ کرکے وسائل کے مطابق خرچ کرنے کو شعار نہیں بنالیتا۔ جب امیر طبقہ اپنے حصے کا ٹیکس ایمان داری سے ادا کرنے لگے اور حکمران طبقہ بھی اسے دیانت داری سے استعمال کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ملک ترقی نہ کرسکے۔ لیکن یہاں تو عرصہ دراز سے اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
پاکستان میں قرض لینے کی تاریخ: ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت، پاکستانی عوام پر قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ ملکی قرضوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اسٹیٹ بینک کی رپورٹوں کے مطابق 1971ء میں پاکستان کے ذمہ کل (پبلک یا نیشنل) قرضہ صرف ’’پچاس ارب دس کروڑ روپے‘‘ تھا۔ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ محض پچاس برس میں یہ رقم آسمان پر جا پہنچی ہے۔ اس میں غیرملکی قرضہ 30 ارب 30 کروڑ اور ملکی قرضہ 17 ارب 80 کروڑ روپے تھا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو حکومت کا 1977ء میں خاتمہ ہوا تو کل قرضہ چھیاسی ارب تیس کروڑ تک پہنچ گیا۔
1988ء میں ضیاء الحق حکومت ختم ہوئی تو پاکستان کے ذمے کل 630 ارب روپے قرض چڑھ چکا تھا۔ اس میں 331 ارب روپے غیرملکی قرض تھا۔ پھر جمہوری حکومتوں کا دور شروع ہوا جو 1999ء تک جاری رہا۔ اس دوران ریاست کے ذمے کل قرضہ 1442ارب روپے تک جا پہنچا۔ پھر فوجی وسول حکومت کا مرکب 2008ء تک چلا۔ اس دوران کل قرض 6400ارب روپے ہو گیا۔ پھر جمہوری دور کا آغاز ہوا۔ پی پی پی حکومت 2013ء میں ختم ہوئی تو اس نے کل قرضہ 15334 ارب روپے تک پہنچا دیا۔ 2018ء میں ن لیگی حکومت کا خاتمہ ہوا تو کل قرض 29 ہزار ارب کا ہندسہ پار کر چکا تھا۔ اگست 2018 ء میں پی ٹی آئی برسرِاقتدار آئی، جس نے آتے ہی چند ہفتوں کے اندر ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر کی بنیاد رکھ دی۔ اشیائے خورو نوش سمیت عام استعمال کی دیگر اشیا، غرض ہر شے بے تحاشا مہنگی ہوتی چلی گئی۔ حکومت نے نہ صرف عام آدمی پر ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی بلکہ نئے ٹیکس بھی لگائے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے دعوے کے مطابق ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ حکومتی آمدن بڑھا کر قرضے اتارے جا سکیں اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے جاسکیں۔ لیکن عملاً حکومت نہ تو غریبوں کی فلاح و بہود کے لیے کوئی خاطر خواہ منصوبے بناسکی اور نہ ہی بھاری بھرکم قرضے اتار سکی، بلکہ اپنے پونے چار سالہ دورِ حکمرانی میں عمران سرکار ملکی قرضوں میں تاریخ ساز 20 ہزار ارب روپے کا مزید اضافہ کرکے چلتی بنی۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی حکومت نے اتنے زیادہ قرضے نہیں لیے حالانکہ اس دوران ٹیکسوں سے حاصل شدہ آمدن بھی بڑھ گئی۔ گویا پی ٹی آئی نے ریاست کو قرض کی دلدل میں مزید دھنسا دیا۔ پی ٹی آئی دور میں یہ عدد 52 ہزار ارب روپے کی حد پار کر گیا۔
اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹس کے مطابق مالی سال -82 1981ء کے دوران وفاقی حکومت کا کل خرچ 63 ارب 60 کروڑ روپے رہا۔ اس میں سے صرف3.9 فی صد رقم قرضے اتارنے اور سود ادا کرنے میں خرچ ہوئی۔ جبکہ عوامی ترقیاتی منصوبوں پر 68.7 فی صد رقم خرچ کی گئی۔ تاہم آنے والے برسوں میں قرضوں اور سود کے لیے مختص رقم بڑھتی چلی گئی۔ آج یہ حال ہے کہ پاکستانی حکومت اپنی آمدن میں سے 40 تا 45فی صد رقم قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ کر رہی ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت نے مالی سال 2022-23ء کے لیے 9502 ارب روپے کا جو وفاقی بجٹ پیش کیا ہے اُس میں سے تقریباً 3800 ارب روپے خسارہ، جبکہ 3950 ارب روپے قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔ بجٹ کا بڑا حصہ صرف پانچ شعبوں یعنی قرضوں اور سْود کی ادائیگی، دفاع، حکومت چلانے، پنشنوں اور سبسڈیوں میں چلا جاتا ہے۔ چناں چہ عوامی ترقیاتی منصوبوں کے لیے بمشکل تین چار فی صد رقم بچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے نہ تو کوئی نیا اسپتال بن سکا اور نہ ہی نئے اسکول۔ سبسڈیوں سے عوام کو وقتی فائدہ تو مل جاتا ہے مگر ان کے نقصانات بھی ہیں۔ مثلاً سبسڈی لینے والے بیٹھ کر کھانے کے عادی ہو جاتے ہیں اور کام کاج نہیں کرتے۔ دوسری طرف حکومت سبسڈیوں کی رقم عوام پر بھاری بھرکم نئے ٹیکسز لگاکر پوری کرتی ہے۔
اشیا کی خرید وفروخت اور سروسز فراہم کرنے والے اداروں اور افراد نے بھی حکومت کی دیکھا دیکھی اپنا وتیرہ بنا لیا ہے کہ جب حکومت ان پر لگے ٹیکسوں کی شرح بڑھاتی یا نئے ٹیکس لگاتی ہے تو وہ اپنی مصنوعات اور خدمات کے نرخ بڑھا دیتے ہیں۔ یوں ٹیکسوں کی اضافی رقم لامحالہ عوام ہی کو دینا پڑتی ہے۔ اس چلن کا نتیجہ ہے کہ امیر تو امیر تر ہو رہے ہیں جبکہ عام آدمی ٹیکسوں کے بوجھ تلے پِستا چلا جارہا ہے۔
ٹیکسوں کی اقسام: دنیا بھر کی حکومتیں اشیا کی خریدو فروخت اور خدمات (سروسز) پر ٹیکس لگاتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ حکومت چلانے کے لیے رقم مل سکے۔ ٹیکسوں کی دو بنیادی اقسام ہیں: ڈائریکٹ (Direct) اور بالواسطہ (Indirect)۔ انکم ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس ڈائریکٹ ٹیکسوں کی نمایاں مثالیں ہیں۔ کسٹمز ڈیوٹیاں، سینٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں اور سیلز ٹیکس ان ڈائریکٹ ٹیکس ہیں۔ کسٹمز ڈیوٹیاں درآمدی سامان پر لگتی ہیں۔ سینٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں برآمدی مال پر لگتی ہیں۔ سیلز ٹیکس اندرون ملک اشیا کی خریدو فرخت پر لگایا جاتا ہے۔ترقی یافتہ اور فلاحی ممالک میں حکومتیں ڈائریکٹ ٹیکسوں سے زیادہ رقم حاصل کرتی ہیں۔ بلکہ ان کی 75 فی صد آمدن ڈائریکٹ ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ یہ منصفانہ اور انسان دوست ٹیکس نظام ہے۔ وجہ یہ کہ ان ملکوں میں جس شہری کی آمدن جتنی زیادہ ہو، وہ اتنا ہی زیادہ انکم ٹیکس یا کارپوریٹ ٹیکس دیتا ہے۔ یوں حکومت امرا سے بیش تر رقم اکٹھی کرتی ہے اور کم آمدن والے شہریوں پر مالی بوجھ نہیں پڑتا۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس مگر امیر اور غریب کے مابین تمیز نہیں کرتے۔ ایک ارب پتی بھی اتنے ہی اِن ڈائریکٹ ٹیکس دے گا جتنے چند ہزار ڈالر ماہانہ کمانے والا غریب (مغربی معیار زندگی کے لحاظ سے) ادا کرتا ہے۔ گویا اِن ڈائریکٹ ٹیکس غیر منصفانہ ہیں مگر انہیں لگائے بغیر چارہ بھی نہیں۔ تاہم فلاحی ممالک کی حکومتیں انہیں کم سے کم رکھنے کے جتن کرتی ہیں۔
پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں حکومت اپنی 75 فی صدآمدن شہریوں پر اِن ڈائریکٹ (بالواسطہ) ٹیکسز لگا کرحاصل کرتی ہے۔ گویا ہمارا ٹیکس نظام غریب دشمن بلکہ خط ِغربت سے نیچے زندگی گزارتے ہم وطنوں کے لیے ظالمانہ ہے۔ ایسے نظام کے جنم لینے کی وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ اور ٹیکس گزار امرا (تاجر، کاروباری، صنعت کار وغیرہ) ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ امرا ٹیکس چوری کرتے ہیں اور امرا کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کی ادا کردہ رقم کا بیش تر حصہ حکمران طبقہ (خصوصاً سیاست دان اور بیوروکریسی) کھا جاتا ہے۔ اس دھینگا مشتی کا نتیجہ ہے کہ حکمران طبقے نے بتدریج اِن ڈائریکٹ ٹیکسز متعارف کرا دیے تاکہ اپنی آمدن بڑھا سکے۔ جیساکہ بتایا گیا کہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسز امیر اور غریب میں فرق نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں زیادہ ٹیکس ادا کرنے کا بوجھ امرا کے بجائے عوام الناس پر پڑ گیا۔ رفتہ رفتہ حکمران طبقہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسز لاگو کرنے لگا۔ مثلاً وِدہولڈنگ ٹیکس، ایڈوانسڈ انکم ٹیکس، ایف سی سرچارج، نیلم جہلم سرچارج وغیرہ تاکہ اس کی آمدن بڑھ جائے۔ وفاقی سطح کے علاوہ صوبائی سطح پر بھی بالواسطہ ٹیکس متعارف کرائے گئے۔ یوں پاکستان میں عوام مخالف ٹیکس نظام وجود میں آ گیا۔ مطلب یہ کہ ایک کلو سبزی یا دال خریدنے پر بیس پچیس ہزار روپے کمانے والا پاکستانی اتنا ہی ٹیکس ادا کر رہا ہے جتنا ایک ارب پتی شہری ادا کرتا ہے۔ ذرا سوچیے، اپنے مفادات کی خاطر ہمارے حکمران طبقے نے عوام پر کس قسم کا ظالمانہ ٹیکس نظام تھوپ ڈالا ہے۔
مہنگائی بڑھانے کا اہم محرک: یہ غیر انسانی ٹیکس نظام پاکستان میں مہنگائی بڑھانے کا بنیادی اور اہم محرک بھی ہے۔ اس بات کو مثال سے یوں سمجھتے ہیں کہ جب ایک پاکستانی کمپنی بیرون ملک سے 10 من دال درآمد کرتی ہے تو سب سے پہلے ٹرانسپورٹ کا خرچ بل میں شامل ہوتا ہے۔ اس کے بعد جب یہ دال پاکستان میں داخل ہوتی ہے تو اس پر کسٹمز ڈیوٹیاں لگ جاتی ہیں۔ پھر متعلقہ اہلکار اس پر جو رشوت وصول کرتے ہیں وہ بھی دال کی قیمت میں شامل ہوجاتی ہے۔ ٹرانسپورٹ اور ذخیرہ کرنے کے اخراجات بھی شامل ہوگئے۔ اس کے بعد انکم ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس کا بیش تر حصّہ بھی کمپنی مالک نے دال کی قیمت میں شامل کرلیا۔ دیگر وفاقی اور صوبائی ٹیکس بھی بل کا حصہ بنے۔ ان تمام اخراجات کی وجہ سے 100 روپے کلو دال کی قیمت 200 روپے تک جا پہنچی۔ اس کے بعد ہول سیلر اور دکان دار بھی اپنا منافع ڈالتے ر ہیں۔ یوں خدا خدا کر کے یہ دال جب عام آدمی تک پہنچی تو وہ اُسے 250 روپے فی کلو میں پڑی۔ یہ ہے بالواسطہ ٹیکس نظام کو اختیار کرنے کا عوام دشمن نتیجہ۔
یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ پاکستان میں درآمد کردہ ہر شے ٹیکسوں کے جابرانہ نظام سے گزر کر پاکستانی عوام تک جب پہنچتی ہے تو کئی گنا مہنگی ہو جاتی ہے۔ ہر قسم کی مقامی اشیا بھی ٹیکسوں کے کڑے نظام سے گزرنے کے باعث مہنگی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اکثر ذخیرہ اندوز اس چکر کو مزید گمبھیر بنا ڈالتے ہیں۔ وہ ایک شے کا ذخیرہ کرکے مارکیٹ میں اس کی مقدار کم کر دیتے ہیں، تاکہ وہ اُسے زیادہ مہنگی کرکے فروخت کر سکے اور کثیر منافع ان کے حصے میں آئے۔ غرض پاکستانی حکمران طبقے کا وضع کردہ ٹیکس نظام وطن عزیز میں مہنگائی بڑھانے کا اہم محرک ہے۔ ہمارے ہاں مہنگائی تین وجوہ کی بنا پر بڑھتی ہے: اول، غیر ضروری اور حد سے زیادہ ٹیکس کا نفاذ، دوم، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز بے تحاشا اضافہ اور سوم روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قدر۔
سچ تو یہ ہے کہ ایک عام شہری روٹی کھاتے، کپڑا خریدتے، موبائل فون کال کرتے، بس یا موٹر سائیکل پر سفر کرتے، پانی پیتے حتی کہ دوران نیند بھی (پنکھے کی ہوا لیتے) ٹیکس ادا کرتا ہے۔ عام آدمی جو بھی خدمات یا شے حاصل کرے، وہ اسے ٹیکس دے کر ہی ملتی ہے۔ پھر ہمارے حکمران کس منہ سے دعوی ٰ کرتے ہیں کہ پاکستانی قوم ٹیکس نہیں دیتی؟ جناب والا، حکمران طبقے کو جو مراعات و سہولتیں میّسر ہیں اور وہ جس قسم کی پُرآسائش زندگی گزار رہا ہے، یہ سارا تام جھام عوام کے دیے گئے ٹیکسوں کی رقم ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ وہ کیسے؟ اس کی داستان درج ذیل ہے۔ ہوا یہ کہ جب حکمران طبقے کو ٹیکسوں سے مطلوبہ رقم نہ ملی تو وہ مقامی و عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے لگاتاکہ حکومتی اخراجات پورے ہو سکیں۔ اس نے امیر ممالک خصوصاً امریکا، برطانیہ، کینیڈا، فرانس وغیرہ سے امداد بھی لی۔ یہ امداد یہ کہہ کر لی گئی کہ عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر خرچ ہو گی۔ شروع میں قرضوں اور امداد کی رقم سے عوام دوست منصوبے بنے بھی مگر رفتہ رفتہ اس ’’اوپر کی آمدن‘‘ سے حکمران طبقہ پھلنے پھولنے لگا۔ اس نے خود کو مراعات یافتہ بنا لیا اور اپنے آپ کو ان گنت سہولتیں دے ڈالیں۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے کسی ملک کی معیشت ترقی نہیں کر پاتی۔ یہی صورت حال ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور حکومتوں کی آئے روز بڑھتی ناجائز شرائط کے تحت پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو نہایت غلط قسم کے ٹیکس سسٹم میں جکڑ دیا ہے۔ اس وقت پاکستانی عوام پر کم و بیش 40 اقسام کے مختلف ٹیکسز لاگو ہیں۔ بتدریج حکمران طبقے نے اپنا معیار زندگی بلند رکھنے کی خاطر قرضوں اور امدادی رقم کو استعمال کرنا اپنا وتیرہ بنا لیا۔ رہے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے، تو یہ کبھی بھی اُن کا دردِ سر یا ترجیح اول نہیں رہے۔
آج یہ عالم ہے کہ سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے ماہانہ لینے والے ارکان اسمبلی، وزیر مشیر، سرکاری افسر، ججوں وغیرہ کو مفت پٹرول، بجلی، گیس، رہائش، سیکورٹی، فضائی ٹکٹ وغیرہ ملتا ہے۔ وہ مختلف اقسام کی مراعات وسہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ جبکہ پچیس ہزار روپے کمانے والا ایک عام پاکستانی ہر قسم کا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ یہ سراسر بے انصافی ہے جو اس غیرمنصفانہ ٹیکس نظام کا ہی نتیجہ ہے۔ بیرون ممالک میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کو بعض مراعات ملتی ہیں مگر وہاں کم آمدنی والے طبقے کو زیادہ حکومتی امداد دی جاتی ہے۔ پاکستانی حکمران طبقہ بھی عوام کو مختلف اقسام کی مدد، المعروف بہ سبسڈی، دیتا ہے مگر صرف اس لیے کہ اپنی کرسی بچا سکے۔ عوام اس کے خلاف احتجاج نہ کریں۔ مثلاً پی ٹی آئی حکومت پونے چار سال تک ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرتی رہی، نئے ٹیکس لگائے، ایندھن کی قیمت بڑھاتی رہی اور سبسڈیاں کم کر دیں۔ اس چلن نے مہنگائی بڑھا دی اور معاشرتی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا۔ مگر جب دیکھا کہ کرسی خطرے میں ہے تو پٹرول سستا کر دیا، گو حکومت پھر بھی نہ بچ سکی۔دلچسپ بات یہ کہ سبھی ترقی یافتہ مغربی ممالک خصوصاً اسکینڈے نیوین ملکوں میں بھی ٹیکسوں کی شرح کافی زیادہ ہے۔ مگر وہاں ٹیکسوں سے حاصل کردہ رقم کا استعمال پاکستان سے بالکل مختلف ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں تو حکومتیں اپنی بقا اور حکمران طبقے کی مراعات وسہولتیں بحال رکھنے کے لیے ٹیکس لیتی ہیں۔ مغربی ممالک میں ٹیکسوں کی رقم عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر خرچ ہوتی ہے۔ جبکہ بجٹ کا کچھ حصہ حکومتی اُمور چلانے پر بھی صرف ہوتا ہے۔ یہ ہے پاکستان جیسے ترقی پزیر ملکوں اور ترقی یافتہ ملکوں کے ٹیکس نظام کا بنیادی فرق!
دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سیلز ٹیکس کو چھوڑ کر بقیہ ٹیکس آمدن کے لحاظ سے لگتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جو شہری جتنا زیادہ کمائے گا، وہ اتنا ہی زیادہ ٹیکس دے گا۔ چناں چہ اس طریقے سے بیش تر رقم امرا سے حاصل کی جاتی ہے اور کم آمدن والوں پر بوجھ نہیں پڑتا۔ حکومتیں پھر اس رقم کے ذریعے عوام کو مفت تعلیم، مفت علاج اور دیگر سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ مثلاً بیروزگاروں کو ماہانہ گزارا الاؤنس ملتا ہے، بے گھر افراد کو مفت رہائش دی جاتی ہے۔
غرض ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی شہری کسی بھی مسئلے میںگرفتار ہو جائے تو حکومت اس کی بھرپور مدد کرتی ہے، پاکستانی حکومت کی طرح اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑتی۔ اسی لیے مغربی ممالک میں شہری ہنسی خوشی زیادہ ٹیکس دیتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ ان کی دی گئی رقم عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہو گی۔
تقریباً سبھی مغربی ممالک میں ہر شہری کو پنشن ملتی ہے، چاہے وہ سرکاری ملازم ہو یا نہیں۔ طریق کار یہ ہے کہ ہر شہری دوران ملازمت اپنی تنخواہ کا مخصوص حصہ سرکاری پنشن اسکیم میں جمع کراتا ہے۔ پنشن کم یا زیادہ ہونے کا دارومدار قدرتاً اس کی تنخواہ پر ہے۔ تنخواہ زیادہ ہو تو پنشن بھی زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم کم از کم پنشن بھی اتنی ضرور ملتی ہے کہ ایک جوڑا اپنی باقی ماندہ زندگی آرام وسکون سے گزار سکے۔ اسے ضروریات زندگی حاصل کرتے ہوئے مالی مسائل درپیش نہیں ہوتے۔ ٹیکس کا منصفانہ اسلامی نظام: وطنِ عزیز پاکستان کی قرضوں اور سود میں دبی معیشت کو مستقل اور پائیدار بنیادوں پر کھڑا کرنے کا واحد راستہ منصفانہ اصولوں پر مبنی ٹیکسیشن کا اسلامی نظام ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا موجودہ ٹیکس نظام ڈائریکٹ ٹیکسوں پر استوار کیا جائے تاکہ ناانصافی کا خاتمہ ہو سکے۔ سرمایہ دارانہ اصولوں پر مبنی موجودہ عوام دشمن نظام نے نہ صرف مہنگائی کے جابر چکر کو جنم دیا ہے بلکہ ملک وقوم پر بھاری بھرکم قرضوں کا وہ بوجھ چڑھا دیا ہے جسے ختم کرنے کی سبیل ماسوائے سود سے پاک اسلامی معاشی نظام کے کوئی اور نہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہونے کے باوجود سراسر غیراسلامی ٹیکسیشن نظام کے تحت چلایا جارہا ہے۔
خاتم الانبیا سیدنا محمد مصطفیؐ کی حیات ِ مبارکہ کے دوران ریاست کی طرف سے عوام پر صرف ایک ٹیکس یعنی زکواۃ لاگو تھا، جو اُمرا سے لیا جاتا اور غرباء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت لاگو کم و بیش 40 ٹیکسوں اور اس کے ناقابل برداشت شرح کے مقابلے میں زکوٰۃ کی شرح بہت کم یعنی محض اڑھائی فی صد ہے، اور یہ بھی سال کی کل آمدن پر صرف ایک دفعہ لاگو ہوتا ہے۔ نبی کریم خاتم النبیینؐ کے اِس دارِ فانی سے رحلت فرمانے کے بعد خلفائے راشدین کے تاریخی اور یادگار ادوار میں اسلامی مملکت کی سرحدیں روم و فارس کے قیصر و کسریٰ کی سلطنوں کو پاش پاش کرتے ہوئے آدھی دنیا تک پھیل گئیں تو اتنی بڑی سلطنت کے اُمور کو چلانے اور سنبھالنے کے لیے حکومتی اخراجات میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوتا چلاگیا۔ لہٰذا اْس دور کے فقہا نے فتویٰ دیاکہ اسلامی حکومت دفاع، عوام کی فلاح بہبود، عوامی ترقیاتی منصوبوں اور قومی معیشت کو طاقتور بنانے کے لیے نئے ٹیکس لگا سکتی ہے۔ چنانچہ سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں ’’عشر‘‘ اور ’’خراج‘‘ کے نئے ٹیکس متعارف ہوئے۔ عشر کی دو اقسام ہیں: زرعی ٹیکس جو بارانی زمین پر 10 فی صد اور غیر بارانی زمین پر 5 فی صد ہے۔ دوسرا ’’کسٹم ڈیوٹی‘‘ جس کی شرح 10 فی صد تھی۔ ’’خراج‘‘ ٹیکس غیر مسلم ماتحت علاقوں سے لیا جاتا۔ ’’جزیہ‘‘ ٹیکس بھی غیر مسلم امرا سے لیا جاتا۔ گویا اسلامی حکومت میں سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹیاں، ودہولڈنگ ٹیکس حتی کہ انکم ٹیکس کا وجود تک نہ تھا۔ لیکن دور جدید کی اسلامی حکومتوں نے مغربی ممالک کی دیکھا دیکھی اپنے ہاں بھی مختلف ٹیکسز عوام پر ٹھونس دیے ہیں۔
تاریخی حقائق و تجربات پر مبنی مذکورہ بالا تجزیے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ حکمران طبقے کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ سچ تو یہ ہے کہ عام پاکستانی کھانا کھاتے، کپڑے پہنتے، سفر کرتے اور دن بھر معمول کی تقریباً سبھی سرگرمیاں سر انجام دیتے ہوئے کوئی نہ کوئی ٹیکس حکومت کو ادا کرتا ہے۔حقیقتاً پاکستانی عوام کے ٹیکس دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت اپنے کام کر پاتی ہے۔ اگر عام پاکستانی ٹیکس چور ہوتا تو حکومت کے لیے چلنا مشکل ہو جاتا۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مدد اور اعانت پر غیر متزلزل ایمان و ایقان اور نبی کریم خاتم النبیینؐ کے ساتھ والہانہ محبت اور عشق رکھنے والی پاکستانی عوام کی وجہ سے ہی ریاست ِ پاکستان کا نظام قائم ودائم ہے۔