منی لانڈرنگ کیس ،شہباز شریف اور حمزہ کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

538

لاہور کی سپیشل کورٹ سینٹرل نے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے وزیرِ اعلی پنجاب حمزہ شہباز سمیت تمام ملزمان کی ضمانت کنفرم کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

شہباز شریف اور حمزہ شہباز منی لانڈرنگ کیس میں عبوری ضمانت میں توسیع کے لیے لاہور کی سپیشل کورٹ سینٹرل میں پیش ہوئے۔دورانِ سماعت ایف آئی اے نے 3 مفرور ملزمان کی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ایف آئی اے کے وکیل فاروق باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ تینوں ملزمان دیئے گئے پتے پر موجود نہیں ۔

اس موقع پر وزیرِ اعظم شہباز شریف سماعت کے دوران روسٹرم پر آ گئے،انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جب میں نیب کے عقوبت خانے میں تھا اور وہاں سے جیل گیا تو ایف آئی اے والے 2 بار میرے پاس آئے، ایف آئی اے سے کہا کہ میں اپنے وکیل سے مشورہ کیے بغیر جواب نہیں دے سکتا، میں نے ایف آئی اے کو زبانی تمام حقائق بتا دیے تھے۔

وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے کہا کہ میرے کیسز کا میرٹ پر فیصلہ ہوا اور میں باہر آیا، عزت ہی انسان کا اثاثہ ہوتا ہے، میرے خلاف انتہائی سنگین الزام لگائے گئے، میں نے درجنوں پیشیاں بھگتیں، ایف آئی اے کی سرزنش ہوئی کہ چالان کیوں پیش نہیں کیا جا رہا، مجھے لگتا ہے کہ ایف آئی اے گرفتاری کا راستہ نکال رہا تھا اس لیے چالان میں تاخیر کی، میں شوگر ملز کا ڈائریکٹر ہوں، نہ مالک اور نہ ہی شیئر ہولڈر ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میرے عمل سے خاندان کی شوگر ملوں کو نقصان پہنچا، منی لانڈرنگ یا کرپشن کر کے منہ کالا کرانا ہوتا تو میں خاندان کی ملوں کو نقصان کیوں پہنچاتا؟ اپنے خاندان کی ملوں کو سبسڈی دے سکتا تھا جس کا میں قانونی اختیار رکھتا تھا، کئی سو ارب بچائے، کیا میں مشتاق چینی والے کے ساتھ ڈیل کروں گا؟ سارا کیس جھوٹ کا پلندہ ہے جس پر منوں مٹی پڑے گی۔

شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انہیں جیل میں شاملِ تفتیش کیا گیا، عدالت کے روبرو کوئی شہادت نہیں آ سکی۔ عدالت نے ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ لوگوں نے بینکرز کو گواہ نہیں بنایا؟۔ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے جواب دیا کہ انہیں گواہ نہیں بنایا، میں ریکارڈ سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کروں گا، عدالت کے روبرو سارا کیس آ چکا ہے، بطور پراسیکیوٹر قانون کے مطابق ہی بات کروں گا، یہ نہیں ہو گا کہ پراسیکیوٹر کے طور پر صرف ان کی مخالفت کروں، ایف آئی اے نے جب یہ کیس کیا، اس وقت ڈائریکٹ انکوائری نہیں ہوئی، بطور پراسیکیوٹر ایسا نہیں کہ صرف ایسا بیان دوں جس سے انہیں نقصان ہو۔جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ ایسی کوشش کریں گے بھی تو ہم انہیں کرنے نہیں دیں گے۔

ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ میں ایسی حماقت نہیں کروں گا جس کا جواب میرے پاس نہ ہو، یہ سیاسی شخصیت ہیں، جب کیس کھلتے ہیں تو اسی طرح کی شہادت اکٹھی ہوتی ہے، عدالت نے استفسار کیا تھا کہ کیا ہمارے پاس براہِ راست شہادت ہے؟ 2015 اور 2013 کے دو چیک تھے جو گلزار کے اکائونٹ میں جمع ہوئے تھے۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ والیم 6 کے دوسرے صفحے پر ایک گواہ نے وہ بیان نہیں دیا جو چالان میں ہے۔ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ میں اپنے دلائل مکمل کرنے کی طرف آتا ہوں، ایسا نہیں ہوتا کہ چالان آ چکا اور عبوری ضمانت بھی چل رہی ہو، ایف آئی اے نے جتنی شہادت اکٹھی کی اس میں بدنیتی نہیں تھی، جتنا ہو سکتا تھا اس کیس میں شہادت اکٹھی کی، مسرور انور اور عثمان شاملِ تفتیش نہیں ہوئے۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک سال سے یہ کیس چل رہا ہے، اب پتہ لگا کہ شریک ملزمان شاملِ تفتیش نہیں، یہ سب تو پہلی سماعت پر بتایا جاتا ہے۔

ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ گلزار کے اکا ئونٹ میں دو چیک گئے، وہ براہِ راست شہادت ہے۔عدالت نے ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ تو بتائیں یہ جرم کیسے ہے؟۔ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرفاروق باجوہ نے بتایا کہ اس کا جواب دوسرے فریق کے پاس بھی نہیں کہ چیک کیسے آئے۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ چیک کا جمع ہونا جرم ہے یا نہیں، ایف آئی اے جو کہہ رہا ہے وہ جرم نہیں بنتا۔شریک ملزمان کے وکلا نے اپنے تحریری دلائل عدالت میں جمع کرا دیئے۔

بعد ازاں عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو جانے کی اجازت دے دی۔ عدالت نے وکلا کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد ملزمان کی ضمانتوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔