سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا ایک جائزہ

842

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صوبہ سندھ کے 14 اضلاع میں 26 جون 2022ء کو بلدیاتی انتخاب کے پہلے مرحلے کے انعقاد کا اعلان ہونے کے بعد مختلف جماعتوں کے امیدواروں کی جانب سے الیکشن کی تیاریاں زور و شور کے ساتھ شروع ہوگئی ہیں اور ان کی جانب سے اپنے اپنے حلقے کے لوگوں سے ملاقاتیں کرکے اپنے لیے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی راہ ہموار کرنے کی مساعی قابل دید بھی ہیں اور دلچسپ اور حیرت انگیز بھی بیش تر حلقوں میں زیادہ تر امیدوار پرانے شکاری ہیں جو حسب سابق جھوٹے وعدے اور بلند بانگ دعوے لیے اہل حلقہ سے ملاقاتیں کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی سابقہ غلطیوں اور کوتاہیوں پر معافی کے طالب ہیں اور اپنے ووٹرز سے یہ وعدہ کررہے ہیں کہ اگر اس مرتبہ انہیں جیتنے کا موقع دیا گیا تو وہ اپنے حلقے کی تقدیر بدل ڈالیں گے، لیکن اب کی بار بظاہر لگتا یہ ہے کہ امتداد زمانہ کے ہاتھوں پرانے شکاریوں کی جانب سے اپنے اپنے علاقے کے ووٹرز کے لیے بچھائے گئے متوقع ترقی کے وعدوں کے جل سے خراب اور خستہ ہو کر گل سڑ گئے ہیں۔ لہٰذا باری کے آزمودہ امیدواران کو ان کے ووٹرز اتنی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ لینے اور انہیں ووٹ دینے کے لیے بہت زیادہ پرجوش دکھائی نہیں دیتے۔
دیہی سندھ میں ہمیشہ ووٹرز کی اکثریت چار و ناچار انہی امیدواروں کو ووٹ دینے پر مجبور ہوجاتی ہے جنہیں وہ دلی طور پر سخت ناپسند کرتی ہے لیکن حالات کے ہاتھوں وہ اس وقت مجبور ہوجاتی ہے جب انہیں اپنے ہاں کے مقامی وڈیرے، جاگیردار اور بھوتار اپنی پسند کے امیدواروں کو ہر سطح کے انتخاب میں ووٹ دینے کا حکم نامہ صادر کرتے ہیں اور بصورت دیگر انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ہر ضلع، تعلقہ، تحصیل اور یونین کونسل تک مقامی سرداروں کے اس دور جدید اور سائنسی عہد میں بھی رجواڑے اور چھوٹی سطح کی سلطنت کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال اور گوٹھوں، دیہاتوں اور قصبات تک میں اس کے اثرات صاف محسوس ہونے کی بنا پر یہ موہوم سہی امید باندھی جانے لگی ہے کہ شاید اب کی بار ووٹرز اپنا حق رائے دہی قدرے آزادانہ طور پر استعمال کریں گے۔ ماضی میں سندھی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا نے شعور اور آگہی کی جو فصل بوئی تھی، سوشل میڈیا کی کھاد ملنے سے اب وہ تناور اور ہری بھری ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اللہ کرے یہ محض سراب نہ ہو بلکہ ایک حقیقت کی صورت میں سامنے آئے اور گوادر کی طرح سندھ کے دیہی اضلاع میں بھی عوام اپنے ووٹ کا استعمال اپنے حقوق کے حصول کی خاطر آزادانہ طور پر کرسکیں۔
26 جون کو بلدیاتی الیکشن کا انعقاد لاڑکانہ، سکھر، نواب شاہ اور میرپور خاص ڈویژن کے 14 اضلاع میں ہوگا۔ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں نے سیاسی، سماجی اور آزادانہ سطح سے رابطہ عوام مہم کا سلسلہ بڑی شدومد کے ساتھ شروع کردیا ہے۔ یونین کونسل کی سطح سے لے کر تعلقہ اور ضلع کی سطح تک چیئرمین، وائس چیئرمین اور کونسلرز کے مناصب جیتنے کے لیے ہر حلقے میں پی پی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ نواز، فنکشنل لیگ، متحدہ، پاک سرزمین پارٹی، جے یو آئی، پی ٹی آئی سے لے کر سندھ کی قوم پرست جماعتوں سندھ ترقی پسند پارٹی، قومی عوامی تحریک، سندھ یونائٹڈ پارٹی کے امیدواروں میں مختلف سماجی تنظیموں اور مقامی رجوائی (جرگہ) طریقہ سے لے کر آزاد امیدواران تک بھی قسمت آزمائی کے لیے انتخابی میدان میں موجود ہیں۔ سندھ بھر میں اس وقت شدید ترین گرمی پڑ رہی ہے، بے حد اور بے حساب ہونے والی لوڈشیڈنگ اور موجودہ حکومت کی جانب سے یک لخت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے اور گیس کی قیمت میں 45 فی صد اضافے کے اعلان نے عوام کو بے حد مشتعل اور ناراض کردیا ہے۔ عوام اب مستقبل قریب میں اس اعلان کے نتائج کو مہنگائی کے ایک امنڈتے ہوئے طوفان کی صورت میں آتا ہوا دیکھ کر شدید خوف و ہراس اور اضطراب میں مبتلا ہوچکے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ وہ حالات موجودہ میں پریشانیوں اور مصائب کی کثرت سے ایک طرح سے نیم جان ہوچکے ہیں۔ انہیں اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل مستقل طور پر تاریکیوں میں گھرا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ ہر فرد اور ہر مرد وزن کے لب پر حالات کی تلخی اور شدید مہنگائی کا شکوہ اور حکمرانوں کی ڈھٹائی اور بے حسی کا گلہ ہے۔
گرما گرمی کے ماحول میں امیدوار جب اپنے اپنے حلقے کے ووٹرز کے گھروں کے دروازے پر دستک دیتے ہیں تو بعض مقامات سے ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ امیدواروں اور تلخی حالات سے متاثرہ ووٹرز کے مابین تلخ کلامی بھی ہوئی ہے اور ووٹرز نے آنے والوں کو صاف الفاظ میں ووٹ دینے سے معذرت کرکے انہیں مایوس لوٹا دیا ہے۔ بعض مقامات پر تو امیدواروں پر اہل حلقہ کی جانب سے پتھرائو کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ جو انتخابی عمل اور امیدواروں سے عوام کی مایوسی کا ایک مظہر اور ثبوت ہے۔ مختلف مقامی سرداروں کے بنگلوں پر اپنی قوم اور قبیلے کے افراد کو طلب کرکے ان سے 26 جون کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں اپنے امیدواروں کے حق میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے کہا جارہا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب دیہی سندھ کا ایک عام فرد بے چارہ خود کو بے بس اور لاچار محسوس کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے قبیلے کے سردار کے حکم سے انحراف کرتا ہے تو اسے اس کی جانب سے ستائے جانے کا خوف لاحق ہوتا ہے۔ پولیس جو دیہی سندھ میں یکسر بے لگام اور مقامی وڈیروں کے اشارہ ابروبر چلتی ہے، سندھ کا ایک عام فرد اکثر اس سے بھی سابقہ پڑنے کا خدشہ رکھتا ہے اور اگر وہ سردار کی بات کو انتخابی حوالے سے نہیں مانتا تو اس موقع پر وہ سوچتا ہے کہ ایسی صورت میں اسے پولیس کے ظالمانہ شکنجے سے ماسوائے اس کے بھوتار کے اور کون گلوخلاصی کروائے گا۔
سوشل میڈیا کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان سے شاید اب کی بار قدرے کچھ تبدیلی محسوس ہو لیکن وہ کم ہوگی، غالباً بہت کم لیکن ہوگی ضرور۔ یہ تو طے ہے اور ناگزیر بھی۔ اگر حالات کے شاکی اور سابقہ و موجودہ حکمران طبقہ کے امیدواروں سے دیہی سندھ کے بعض حلقوں اور عوام نے بطور ناراضی بدلہ چکانے کی خاطر انقلابی نوعیت کی تبدیلی برپا کرنے کی خاطر خواہ سعی کی تو وہ بھی بعیدازقیاس نہیں۔ عملاً 26 جون کو بلدیاتی الیکشن کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ اس کا اصل علم تو نتائج سامنے آنے کے بعد ہی ہوسکے گا۔
دریں اثنا 31 مئی کو سندھی اخبارات میں اس نمایاں انداز میں شائع ہونے والی خبر نے سبھی کو ایک طرح سے چونکا دیا کہ پی پی سمیت سندھ کی ساری اپوزیشن جماعتوں نے سندھ میں 26 جون کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن کو موخر کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو خط لکھنے اور عدالت میں جانے کا اعلان کیا ہے اور اس فیصلے کی مخالفت صرف جماعت اسلامی کے ایم پی اے عبدالرشید کی جانب سے کی گئی۔ پی پی، متحدہ، جی ڈی اے سمیت تمام سندھ اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کے رہنمائوں کی جانب سے مذکورہ فیصلے کی حمایت کے پس منظر میں رازہائے اندرون خانہ سے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ کے اقتدار پر گزشتہ لگ بھگ ڈیڑھ عشرے سے براجمان پی پی، اس کی سابق حکمران حلیف جماعت متحدہ اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو حالیہ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے اپنے اپنے حلقوں میں عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ دروغ برگردن راوی، ان کا کہنا ہے کہ سندھ بھر میں پی پی نے اپنے عہد اقتدار میں جو تباہی مچائی ہے اور جس انداز میں اپنے ووٹرز کی خود سے وابستہ امیدوں اور توقعات کا خون کیا ہے اس کی وجہ سے اسے اپنے سابق ووٹرز کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سندھ کے مختلف اضلاع میں پی پی مخالف عوامی اور آزاد سطح پر ایسے انتخابی اتحاد غیر اعلانیہ اور غیر محسوس طور پر تشکیل پا رہے ہیں جو 26 جون کے بلدیاتی الیکشن میں پی پی کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں، اور تو اور پی پی کے سیاسی گڑھ ضلع لاڑکانہ میں بھی اس کے بلدیاتی الیکشن میں کھڑے ہونے والے امیدواروں کو عوامی ردعمل اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ متحدہ کو یہی صورت حال اپنے حلقوں اور جی ڈی اے، فنکشنل لیگ وغیرہ کو اپنے زیر اثر علاقوں میں درپیش ہے۔ جس کا واضح اظہار تو یہی کیا جارہا ہے لیکن 26 جون کو بلدیاتی الیکشن کا عمل موخر کروانے والی تمام ہی جماعتوں کا درد مشترک اور یکساں ہے جس کی بنا پر وہ مختلف عذر ہائے لنگ تراش کر کمیشن کو خط لکھنے اور عدالت میں اپیل کرکے مزید وقت لینا چاہتی ہیں تا کہ انہیں 26 جون کو بلدیاتی الیکشن میں ہزیمت اور رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ اصل حقیقت کا علم تو اللہ کو ہے لیکن اس حوالے سے سندھی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر مذکورہ اسباب ہی کو پی پی اور سندھ کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 26 جون کے انتخابی عمل کو موخر کرانے کے پس پردہ عوامل گردانا جارہا ہے۔
’’اب دیکھیے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک‘‘