محکمہ محنت کے تمام افسران و اہلکاروں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کی جائے

663

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) محکمہ محنت کے تمام افسران و اہلکاروں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کی جائے‘مزدوروں کی فلاح وبہبود کے لیے قائم کردہ تمام سرکاری ادارے کرپشن میں ملوث ہیں‘ کروڑوں محنت کش اداروں میں رجسٹریشن سے محروم ہیں‘ رشوت لیکر فیکٹری مالکان کو سپورٹ کیا جاتا ہے ‘ حکومت احتساب کے لیے فوری اقدامات کرے ۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر ظفر خان، سیسی آفیسرز مینجمنٹ فائونڈیشن سندھ کے چیئرمین عابد بخاری اور النور شوگر مل شاہ پور جہانیاں کے مزدور رہنما اختر آزاد ڈاہری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا محکمہ محنت کے افسران اور اہلکاروں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا ہے کہ وفاقی وصوبائی حکومت کی جانب سے قائم کردہ محکمہ محنت، محکمہ سوشل سیکورٹی، ای او بی آئی، ورکرز ویلفیئر بورڈ ودیگر فلاحی ادارے اپنے مقاصد کے لحاظ سے تو مزدوروں کی سماجی فلاح وبہبود کے لیے قائم کیے گئے ہیں لیکن ملک کے کرپٹ نظام کی بدولت ان کے اہلکار کرپشن سے لتھڑے ہوئے ہیں اور اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے بجائے ان کی ساری توجہ اپنے اثاثے بنانے اورلوٹ مار پر ہے‘ یہی وجہ ہے کہ کروڑوں مزدور ان اداروں میں رجسٹریشن سے ہی محروم ہیں اور جو چند لاکھ رجسٹرڈ ہیں ان کو بھی ان کا نصف حق بھی نہیں ملتا‘ ہزاروں کارخانوں اور اداروں کو رجسٹرڈ کرکے ان سے کنٹری بیوشن فنڈ لینا چاہیے‘ ان کارخانوں سے محکمہ ویلفیئر کے اہلکار بھتا لے کر ان کی رجسٹریشن ہی نہیں کرتے‘ ان اداروں کے اہلکاروں کے صرف اثاثے ہی چیک نہیں ہونے چاہئیں بلکہ انہیں یتیموں، بیواؤں اور پسماندہ افراد کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے جرم میں چوکوں اور چوراہوں پر لٹکا نے سزا دینی چاہیے‘ حکمران، بیوروکریسی، محکمہ محنت ودیگر ادارے سب اس جرم میں ملوث ہیں۔ظفر خان نے کہا کہ کرپشن کا زہر ہمارے معاشرے اور تمام اداروں میں سرایت کرچکا ہے جو اداروںکو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے‘ اس کے تدارک اور احتساب کا نعرہ تو سب لگاتے ہیں مگر اس پر عملدرآمد کوئی حکومت نہیں کرسکی‘ یہی وجہ ہے کہ دیگر اداروں کی طرح محکمہ محنت اور ای او بی آئی، محکمہسوشل سیکورٹی، ورکرز ویلفیئر بورڈ سب اس لعنت میں بری طرح مبتلا ہیں‘ اس کے ذمہ دار ان اداروں کے معاملات کی نگرانی کرنے والے افسران ہیں جو کرپشن اور رشوت ستانی کو روکنے کے بجائے خود اس گھنائونے کام میں ملوث ہیں ‘ یہ افسران مزدوروں کے ساتھ فیکٹری مالکان تک سے بھتاوصول کرتے ہیں‘ ان کے اثاثے ان کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں‘ ان افسران اور ان کے بچوں کا لائف اسٹائل بادشاہوں کی طرح ہوتا ہے‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ آمدنی سے زاید اثاثے بنانے والے ان افسران کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ عابد بخاری نے کہا کہ سیاسی سپورٹ اور رشوت نے محکمہ محنت کا ستیاناس کر دیا ہے‘ یہ رویہ محنت کشوں کے حقوق کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہے‘ مالکان کی بے ایمانی نے بھی مزدور کو اس کے حق سے محروم کر رکھا ہے‘ مزدور کی تنخواہوں کا 6 فیصد کنٹریبیوشن سوشل سیکورٹی میں جمع ہوتا ہے جسے بچانے کے لیے کئی کئی سال تک فیکٹری انتظامیہ محنت کشوں کو تقررنامے ہی جاری نہیں کرتی جس کی وجہ سے محنت کش اور ان کا خاندان سو شل سیکورٹی کے علاج معالجے، ای او بی آئی کے بینیفٹ اور ورکرز ویلفیئر بورڈ کی رہائشی اسکیموں کے بینیفٹ سے بہت دور ہیں‘ کنٹریبیوشن دینا فیکٹری کے مالکان کی ذمہ داری ہے‘ محکمہ سوشل سیکورٹی اورای او بی آئی میں اصل رقم کی وصولی کے لیے پورا اسٹاف موجود ہے جو یقیناً اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا ہے‘ لیبر سے متعلق تمام ڈپارٹمنٹس کے افسران اور اہلکاروں کی جائدادیں اور تعلیمی ڈگریاں چیک کرائی جائیں تو بہت سے اہم انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔ اختر آزاد ڈاہری نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن کا کالا دہندہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے لیکن پاکستان کے سرکاری اداروں میں اس کا اثر کچھ زیادہ ہی نظر آتا ہے‘ خاص طور پر ان سرکاری اداروں میں جن سے غریب اور مزدور طبقے کے مفادات وابستہ ہیں‘ دیکھا گیا ہے کے چپڑاسی سے لے کر افسران بالا تک سارے سرکاری ملازمین کرپشن میں ملوث ہیں‘ جب تک غیر جانبدار اور شفاف احتساب کا عمل نہیں ہوگا تب تک اس کالے دھندے کی روک تھام نہیں ہو سکے گی‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ مزدوروںکے حقوق سے متعلق جتنے بھی سرکاری ادارے ہیں ان میں کام کرنے والے ملازمین کا بلا تفریق فوری احتساب کیا جائے اور کرپٹ لوگوں کے خلاف سخت قانونی اقدامات کیے جائیں تاکہ غریب اور مزدور طبقے کے افراد اپنے جائز مسائل کے حل میں دشواری محسوس نہ کریں اور وہ ان سرکاری اداروں کی سہولیات سے مستفید ہو سکیں جو ان کا قانونی، آئینی اور انسانی حق ہے۔