زندگی بامقصد ہو تو زندگی ہے

836

عابد ضمیر ہاشمی ہمارے اُن مہربانوں میں سے ہیں جو ہماری طبع کے نتائج کو محض پڑھتے ہی نہیں بلکہ اُس پر رسمی سی رائے دینے سے کہیں آگے جاکر باضابطہ خامہ فرسائی کی منزل تک پہنچنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ موصوف کا پُرخلوص دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے کئی برس قبل ہمارا ایک کالم ’’مقصدِ حیات‘‘ پڑھنے کے بعد کچھ سوچا اور ایسی تحریروں کے ذریعے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا جن سے پڑھنے والوں کو کچھ ملے، وہ سوچنے کی تحریک پاکر اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے پر متوجہ ہوں۔ جناب نے اپنے کالم کا عنوان بھی ’’مقصدِ حیات‘‘ رکھا۔ اس عنوان کے تحت اُن کی سیکڑوں تحریریں شایع ہوچکی ہیں۔ جو کچھ عابد ضمیر ہاشمی لکھتے ہیں اُس کی اول و آخر غایت یہ ہے کہ پڑھنے والے اپنی منتشر زندگی کے لیے کچھ ترتیب پانے کی طرف جائیں۔
ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں توجہ اور انہماک کی منزل تک پہنچنا حقیقی دردِ سر ہے۔ قدم قدم پر ایسا بہت کچھ ہے جو ذہن کو راہ سے ہٹانے پر تُلا رہتا ہے۔ غیر متعلقات کا ایک سمندر ہے جس میں ہم ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ جو اپنے آپ کو بچائے رکھنے پر متوجہ نہیں ہوتے اُنہیں غیر متعلقات کا سمندر بہت تیزی سے اپنے اندر سمولیتا ہے۔ عابد ہاشمی جیسے افراد کو غیر متعلقات میں غرقاب ہونے سے بچنے کے لیے خاصی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ اگر کوئی مقصد طے نہ کیا گیا ہو تو زندگی بے دم سی گزرتی ہے۔ لازم ہے کہ انسان کسی نہ کسی بڑے ہدف کا تعین کرکے اُسے ہمہ وقت ذہن نشین رکھے۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے کچھ کرنے کی راہ تیزی سے ہموار ہوتی ہے۔
عابد ہاشمی درد مند دل رکھنے والے انسان ہیں۔ وہ اپنے قلم کے ذریعے معاشرے کو کچھ دینا چاہتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں حساس ہونے اور دوسروں کے لیے کچھ کرنے میں واضح فرق ہے۔ عابد ہاشمی احساس کے حامل دل کے ساتھ ساتھ حالات و واقعات کا ادراک رکھنے والا ذہن بھی رکھتے ہیں۔ یوں اُن کی شخصیت میں مقصدیت اور معنویت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ کئی سال سے لکھ رہے ہیں اور ہم سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ اپنی نگارشات بھی بھیجتے رہتے ہیں اور ہمارے چند رشحاتِ قلم کو بھی اُنہوں نے دوسروں تک مختلف انداز سے پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ چند ماہ کے دوران انہوں نے ہماری ایک کتاب ’’مثبت سوچ کی 26 معیاری کتابیں‘‘ سے متعدد مضامین چُن کر اُنہیں اپنے کالموں میں سموکر ہزاروں قارئین تک پہنچانے کی قابلِ قدر سعی کی ہے۔ یہ بھی اُن کا خلوص ہے کہ ہمیں اُن کی معرفت قارئین کا نیا حلقہ میسر ہوا ہے۔ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے درجنوں اخبارات میں عابد ہاشمی کے وہ مضامین شایع ہوئے ہیں جن میں اُنہوں نے ہمارے مضامین کو جگہ دی ہے۔
عابد ہاشمی نے اپنے مضامین کا مجموعہ بھی ’’مقصدِ حیات‘‘ کے زیرِ عنوان شایع کیا ہے۔ اس کتاب میں بہت سے بنیادی مسائل کے حوالے سے اُن کے گراں قدر مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے بغور مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عابد ہاشمی اپنے قلم کے ذریعے لوگوں کو راہ دکھانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی تحریروں سے معاشرے کو کچھ ملے، لوگ اپنے معاملات درست کرنے کی تحریک پائیں، مسائل حل کرنے کی ذہنیت کو پروان چڑھائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بامقصد زندگی بسر کرنے کی سمت رواں ہوں۔
کسی بھی لکھنے والے کے ذہن میں مقصدِ حیات بہت واضح ہونا چاہیے۔ اُسے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ لوگوں کو اُس کی تحریروں سے کیا مل سکتا ہے اور وہ بنیادی مسائل حل کرکے زندگی کا معیار بلند کرنے کی طرف کیسے جاسکتے ہیں۔ لکھنے کی کوئی غایت نہ ہو تو لوگ چند تحریریں پڑھنے کے بعد اُوب جاتے ہیں اور مزید پڑھنے کی تحریک نہیں پاتے۔ ادب برائے ادب کا نظریہ بھی موجود ہے اور توانا ہے مگر ادب برائے زندگی کا نظریہ کم توانا نہیں۔ اِس نظریے کے تحت لکھنے والوں سے معاشروں کو بہت کچھ مل رہا ہے۔ عابد ہاشمی بھی اُن لکھنے والوں کی صف میں شامل ہیں جو ادب برائے زندگی کے نظریے پر کامل یقین رکھتے ہیں اور اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کو ایسی سمت لے جانا چاہتے ہیں جہاں غیر متعلقات سے پنڈ چھڑانے کی ذہنیت پائی جاتی ہو۔
آج کا پاکستانی معاشرہ بہت حد تک الجھا ہوا ہے۔ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا جس میں کسی نہ کسی طرح کی الجھن نہ پائی جاتی ہو۔ میڈیا کی بے پایاں و بے لگام ترقی نے پوری قوم کو ترقی ٔ معکوس کے مرحلے میں پہنچادیا ہے۔ جو کچھ بھی منفی ہے وہ خبروں کی منڈی میں گرم کیک کی طرح بک رہا ہے۔ مثبت معاملات بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ لوگ کسی بھی مثبت معاملے کو زیادہ گرم جوشی سے گلے لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر کہیں کوئی منتخب نمائندہ حلقے کے تمام ضروری کام کروا رہا ہو تو میڈیا والے کور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ کہیں سڑک بروقت اور ڈھنگ سے بنوائی گئی ہو تو میڈیا والے پھٹکتے بھی نہیں۔ ہاں، کہیں سڑک میں گڑھا پڑ جائے تو ڈی ایس این جیز آتے جاتے کوریج پر مائل رہتی ہیں۔ یہ ہے میڈیا کا حال۔ ایسے میں وہ لوگ کیا کریں جو معاشرے کو کچھ دینا چاہتے ہیں۔ عابد ہاشمی جیسے لوگ اپنے مشن پر ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ معاشرہ منفی معاملات کا گورکھ دھندا چھوڑ کر مثبت معاملات کی فضا میں سانس لینا سیکھے۔ قوم کو ایسی ہی مثبت اور تعمیری سوچ کی ضرورت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حقیقت پسندی کے آئینے میں اپنے خدو خال کا جائزہ لیا جائے اور اپنے قومی وجود کی تمام خامیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اصلاحِ احوال پر مائل ہوا جائے۔ اس وقت معاشرے کی حالت یہ ہے کہ اصلاح کی بات سُننے والے خال خال ہیں۔ تخریب کی بات کرنے والوں کو پسند کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ افسوس ناک سہی، حیرت انگیز نہیں کیونکہ معاشرے جب پستی کی طرف جاچکے ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں مثبت اور تعمیر سوچ رکھنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ جب معاشرے میں خرابیاں پیدا کرنے والے باز نہیں آرہے، تھکے نہیں تو وہ کیوں تھک ہار کر بیٹھ جائیں۔ شر کا دھندا کرنے والوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خیر کی بات کرنے والوں کو بھی ویسا ہی جذبہ پروان چڑھانا چاہیے جیسا اُن کے ہر مدِمقابل میں پایا جاتا ہو۔
آج یوں تو ہر انسان کو مقصدِ حیات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ باشعور اور حسّاس ہونا چاہیے تاہم نئی نسل کے لیے یہ معاملہ زیادہ اہم ہے۔ نوجوانوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ ملک کل کو اُنہیں سنبھالنا ہے اس لیے سنجیدگی لازم ہے۔ عابد ہاشمی اور اِسی قبیل کے دوسرے بہت سے لکھنے والوں کا فرض ہے کہ زندگی کو کسی واضح مقصد کے تحت بسر کرنے کی تحریک دینے کا عمل تیز کریں تاکہ نئی نسل زیادہ متوجہ ہو اور عام آدمی بھی اس حوالے سے ذہن سازی پر مائل ہو۔ یہ کام مستقل بنیاد پر کرنے کا ہے یعنی فوری نتائج ظاہر نہ ہونے پر ہمت ہارنے کے بجائے جوش و خروش کے ساتھ قلم سے جہاد جاری رکھا جائے۔