داخلے مسلسل جاری ہیں

567

آج سے تقریباً دس سال قبل ہم نے ایک تحریر بعنوان ’’داخلے جاری ہیں‘‘ سپرد قلم کی تھی جس میں تعلیمی کاروبار اور والدین کی پریشانیوں کا تذکرہ تھا۔ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی صورت حال جوں کی توں ہے بلکہ مزید ابتر ہوگئی ہے۔ زیر نظر تحریر اسی کا تسلسل ہے۔
ہمارا تعلیمی سال سرکاری سطح پر ماہ اگست یعنی گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد شروع ہوتا ہے جب کہ نجی اسکولوں میں اس کی ابتدا نئے سال کی آمدکے ساتھ ہی شروع کردی جاتی ہے، اگرچہ اس کا مقصد نیک ہے کہ گرمیوں سے قبل بچوں کو نیا کورس متعارف کراکے تھوڑا بہت ہوم ورک دے دیا جائے تا کہ بچے چھٹیوں کی چکا چوند میں تعلیم سے غافل نہ رہ سکیں۔ اس کے برخلاف والدین کو سال کی ابتدا سے قبل ہی نوٹس جاری کردیا جاتا ہے۔ جنوری کی فیس کے ساتھ جون اور فروری کی فیس کے ساتھ جولائی کی فیس ادا کردی جائے پھر مارچ کی فیس کے ساتھ امتحانی فیس جمع کرانی ہوتی ہے۔ اپریل میں نتائج آنا شروع ہوتے ہیں تو نئے کورس کی خریداری، مئی کی فیس کے ساتھ سالانہ چارجز بھی ضروری ہیں۔
یہاں ہم اسکول مالکان سے عرض کریں گے کہ آپ اپنے عملے کو تو تنخواہ ایڈوانس میں دیتے نہیں اور نہ ہی اخراجات پیشگی ادا کرنے ہوتے ہیں تو والدین پر دوہری فیس کا بوجھ کیوں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ پیشگی فیس لینے کے بجائے جون جولائی میں صرف 5 تاریخ سے 15 تاریخ تک صرف 2 گھنٹے یعنی گیارہ بجے سے ایک بجے دن فیس کائونٹر کھولیں اور جو والدین بروقت فیس ادا کرنا چاہتے ہیں جمع کرادیں اور جو نہ ادا کریں ان سے حسب قاعدہ جرمانہ وصول کریں۔ جیسا کہ اوپر تحریر ہے کہ نجی اسکولوں کا تعلیمی سال ماہ مئی سے شروع ہوتا ہے مگر اس کی تشہیر نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی شروع کردی جاتی ہے۔ گلی گلی کوچے کوچے ہرے پیلے لال گلابی بینرز لٹکے نظر آئیں۔ جن میں درج ہوتا ہے ’’داخلے جاری ہیں‘‘ اور یہ بینرز اپنی میعاد پوری کرکے کٹ پٹ جاتے ہیں اور بعض دور اندیش مالکان نے تو یہ عبارت اسکول کی بیرونی دیوار پر لکھوا رکھی ہے۔ ان بینرز پر دلفریب نعرے درج ہوتے ہیں مثلاً کسی پر درج ہوگا ماہ رواں داخلے پر داخلہ فیس معاف تو دوسرا نعرہ رواں ماہ داخلے پر جون جولائی کی فیس معاف تو کوئی بچوں کو مفت کورس کی فراہمی کا اعلان کردیتا ہے۔ غرض ’’لوٹ سیل‘‘ لگی ہے جیسے فری سم کے ساتھ 200 منٹ 500 ایس ایم ایس اور لاتعداد ایم بیز۔ مقصد بس ایک بار ہاتھ آجائیں پھر تو ہم خود ہی اگلا پچھلا وصول کرلیں گے۔ بچے کا داخلہ ہوا تو اب مدر ڈے، فادر ڈے، چلڈرن ڈے اور نجانے کس کس بہانے سے بچوں کے والدین سے رقم بٹوری جاتی ہے۔
اسکول کا نصاب انتظامیہ خود مقرر کرتی ہے اور منتخب کرتے وقت انتظامیہ اور پبلشرز کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ بچے کے ساتھ والدین پر اتنا بوجھ ڈال دیا جائے کہ وہ سال بھر سر نہ اٹھا سکیں۔ کاپیوں پر اسکول کا مونو گرام چھاپ کر اس کی اہمیت اور قیمت بڑھادی جاتی ہے۔ اب کیوں کہ کورس اسکول فراہم کرتا ہے یعنی فروخت کرتا ہے یا کسی مقرر کردہ شاپ کا پتا دیتا ہے دونوں ہی صورتوں میں فائدہ؟۔
نرسری یا کے جی کلاسز بچوں کی تربیت اور انگلش اردو حساب کے حروف کی شناخت اور لکھنے پڑھنے کے لیے ہوتی ہے مگر یہاں بھی اچھے وائٹ پیپر دلکش خدوخال والی قیمتی کتابوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہم یہاں ایک دینی درس گاہ کے ابتدائی کورس کا ذکر کریں گے۔ مکمل کورس صرف 1300 روپے کا ہے جس میں تین کاپیاں ایک ہوم ورک ڈائری اور سات چھوٹی چھوٹی کتب۔ راقم کے خیال سے موجودہ دور کی مہنگائی کو دیکھتے ہوئے درست ہے مگر حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ ان میں پانچ کتب تو 80/90 روپے تک کی ہیں اور انگلش اردو کی نوٹ بک 200/300 روپے کی ہیں۔ جب کہ اگر انتظامیہ چاہتی تو یہ کتب بھی 80/90 روپے قیمت میں دستیاب ہیں۔ اب یہ انتظامیہ کی مجبوری ہے ضرورت ہے یا پبلشرز کی ڈیمانڈ؟۔
تعلیم اور صحت دونوں ہی شعبے ایسے ہیں جنہیں ہر معاشرے میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، جب کہ اسلامی معاشرے میں ان پیشوں کو مقدس تصور کیا جاتا ہے۔ معلم کو سرپرست اور معالج کو مسیحا مانا جاتا ہے مگر اسے کیا۔ کہا جائے کہ آج کل اسپتال شاپنگ سینٹر اور اسکول تجارتی مرکز بن گئے ہیں۔ گلی گلی محلہ محلہ انگلش میڈیم کے نام اسکول قائم کردیے گئے ہیں، چھوٹے چھوٹے کمروں کا کلاس روم بنا رکھا ہے۔ بچہ کلاس روم سے باہر آکر بھی کلاس ہی میں رہتا ہے، بس ایک پتلی سی گلی ہوتی ہے وہی اس کا لان کہہ لیں یا کھیل کا میدان اور بعض اسکول تو ایسے بھی ہیں جو اسکول کی چھٹی کے بعد امور خانہ داری کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
تعلیم کے اس کاروبار کو پھلتا پھولتا دیکھ کر ’’ملٹی نیشنل کمپنیز‘‘ نے بھی متوسط علاقوں میں اپنی برانچیں قائم کر ڈالی ہیں۔ چناں چہ متوسط طبقے کے جاندار افراد نے ادھر کا رخ کرنا فخر بنالیا ہے تو ملٹی نیشنل کمپنیز نے بھی انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا ہے جس کا اندازہ ان کے نرخ نامہ برائے نرسری کلاس سے ملاحظہ فرمائیں۔
رجسٹریشن فیس 6000 روپے، ایڈمیشن فیس 12000 روپے، سیکورٹی ڈیپازٹ 4500 روپے، سالانہ چارجز 4500 روپے، ماہانہ فیس 4500 روپے۔ ایک چار سال کے نرسری کلاس کے بچے کا ایڈمیشن صرف 26000 روپے بنتا ہے۔ اس میں کورس، یونیفارم اور گاڑی والے کی رقم شامل نہیں۔ تقریباً 30,000 روپے سے اوپر کا خرچہ بیٹھتا ہے، اس کو دیکھ کر تو ہمارے ہاتھ پر بیٹھے توتے اُڑ گئے، تو پھر ہم نے رُخ کیا اپنے علاقے میں عرصہ دراز سے قائم ایک دینی درس گاہ کا جس کا پرچہ تو ملٹی نیشنل اسکول سے بڑا تھا مگر لائنیں صرف تین تھیں۔ داخلہ فیس 3500 روپے، داخلہ فارم 250 روپے، ماہانہ فیس 900 روپے، ٹوٹل پھر بھی 5000 روپے سے کم ہی بنتا ہے۔ جب کہ اسکول میں ہر سال تقریباً 50 بچے دسویں کلاس مکمل کرکے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ناظرہ قرآن پاک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور حفظ قرآن کی سہولت بھی حاصل ہے مگر… ہمیں یہ جان کر ازحد تکلیف ہوئی کہ اس درسگاہ سے بھی پانچ مختلف قسم کے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں۔ انکم ٹیکس، سیل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، ٹائون کمیٹی ٹیکس۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، بجلی نہ ہونے پر جنریٹر کے لیے گیس کے اخراجات، پانی کے مسائل۔ جب ہمیں صرف یہ جان کر اتنی تکلیف ہورہی ہے تو جو گزار رہے ہیں یہ انہی کی ہمت ہے۔ شاید یہ ملک ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے چل رہا ہے۔ خداوند کریم انتظامیہ اور اس کے سربراہ کو ہمت، طاقت اور صحت عطا فرمائے (آمین)