شیریں مزاری کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ

202

اسلام آ باد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ شیریں مزاری کو غیرقانوںی طورپرگرفتار کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کی درخواست پرسماعت کیشیریں مزاری واحد رکن اسمبلی نہیں جن کے ساتھ یہ ہوا ، یہ سلسلہ اب رکنا چاہئے، ماضی میں جو کچھ ہوا، جبری طورپر گمشدہ ہونے والے آج تک بازیاب کیوں نہیں ہوئے؟ عدالت فیصلہ دیتی ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا،سب نے مل کر اپنا اپنا آئینی کردارادا کرنا ہے۔

تفصیلات کے مطابق رہنما تحریک انصاف شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی۔ ۔ شیریں مزاری، پٹیشنر ایمان مزاری اور فواد چودھری جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے کیس میں ریمارکس دیے کہ شیریں مزاری کو غیرقانوںی طورپرگرفتار کیا گیا، شیریں مزاری واحد رکن اسمبلی نہیں جن کے ساتھ یہ ہوا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کمیشن کی تشکیل کے لیے وقت مانگا۔ فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ رات کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہوئی جب ولید اقبال کے گھرپرگئے۔ اس عدالت کے احکامات پنجاب کی اتھارٹیز کو بھی بھجوائے گئے ہیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ معاملہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو بھجوایا گیا ہے۔ علی وزیر کئی ماہ سے قید میں ہیں، یہ وفاق، صوبائی حکومتوں اور پارلے منٹ کا کام ہے۔ پہلے یہ سارے کام نہیں کرتے اور پھر اپوزیشن میں آتے ہیں تو کیس عدالت لے آتے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس طرح کی باتوں سے جمہوریت غیر فعال ہو جاتی ہے۔ تمام ادارے کام کریں تو ایسی پٹیشنزعدالتوں میں نہ آئیں۔ سیاسی لڑائیوں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے حلقہ کے عوام کو جوابدہ ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی توعدالت کیا کرے؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ حکومت کا کام ہے، یہ بھی سوشل میڈیا پرطعنے ہی دیتے ہیں۔ ماضی میں جو کچھ ہوا، جبری طورپر گمشدہ ہونے والے آج تک بازیاب کیوں نہیں ہوئے؟ عدالت فیصلہ دیتی ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

عدالت نے مزید کہا کہ سب نے مل کر اپنا اپنا آئینی کردارادا کرنا ہے۔ اب دیکھیں نا کہ شیریں مزاری کو اس عدالت کے دائرہ اختیار سے غیر قانونی طورپراٹھایا گیا۔ یہ کورٹ یہی ججمنٹ دے سکتی ہے۔ پہلے حکومتی عہدیدار بھی کام کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر طعنے دیتے رہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ جہانگیر جدون ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ن عدالت سے کہا کہ گذشتہ حکومت بیس بیس کلو ہیروئن ڈال کر کیس بناتی رہی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ لوگ عدالت آتے ہیں کہ کمیشن بنایا جائے، یہ اختیار وفاقی حکومت کا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالتی حکم پراس کی روح کے مطابق عمل ہوگا۔ ایمان مزاری نے کہا کہ مجھے دھمکیاں دی گئی ہیں مگر ان دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں۔

چیف جسٹس نے ایمان مزار سے کہا کہ آپ پسے ہوئے طبقوں کے کیسزعدالت لاتی ہیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کی آواز سننے کا کوئی فورم نہیں، عدالت نے آرڈر دیا جسے فیڈرل گورنمنٹ نے چیلنج کردیا۔ جس کے حق میں فیصلہ آ جائے دوسرے اس پر برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیٹیکل لیڈرشپ کی کورٹ عزت کرتی ہے مگر ان کا کام صرف بیانات دینا اور تقریریں کرنا نہیں ہے، لوگ کہتے تھے آئین کیا ہے؟ کاغذ کا پرزہ ہے، یہی بنا دیا ہے۔ پارلے منٹیرینز کا احترام اس لیے ہے کہ وہ حلقے کے عوام کی آواز ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ کورٹ ریاست کی جانب سے اختیار کا مسلسل غلط استعمال دیکھ رہی ہے۔ ہرریاستی ادارے کو اب پرو ایکٹو رول ادا کرنا چاہئے۔ جہانگیر جدون ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے مقف اپنایا کہ یہ کہتے ہیں کہ پورا ملک بلاک کر دیں گے، حکومت کو نہیں چلنے دیتے۔ ایک بندہ آئی ایم ایف سے بات کرنے گیا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں۔ جہانگیر جدون نے کہا کہ حکومت بھی اپوزیشن کے تعاون سے چلتی ہے، یہ آئیں اور پارلے منٹ میں بیٹھیں، شیریں مزاری کے خلاف کیس بزدار حکومت میں بنایا گیا تھا۔ شیریں مزاری کو ان کا فون واپس کر دیا گیا ہے۔ وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ پورے پاکستان میں انتقامی کارروائی جاری ہے۔ اگر شیریں مزاری کی کسٹڈی کی ضرورت ہو تو عدالت کی اجازت لی جائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد ایسی کارروائی توہین عدالت ہوگی، اس کورٹ نے اس آرڈر میں بہت ساری باتیں لکھی ہیں، یہ فیڈرل گورنمنٹ کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ آپ اس آرڈر کو دوبارہ جا کرغور سے پڑھیں جس پر اے جی اسلام آباد نے عدالت سے دو ہفتوں کا وقت مانگا۔ فیصل چوہدری نے کہا کہ دو ہفتے؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ ہم کورٹ سے استدعا کر رہے ہیں، آپ کورٹ کو ڈکٹیٹ نہ کریں، ہمیں ایک ہفتے کا وقت دے دیا جائے۔

عدالت نے شیریں مزاری کیس کی مزید سماعت 30 مئی تک ملتوی کر دی۔