مزدور یونین کی بدولت اجتماعی حقوق آسانی سے حاصل کئے جاسکتے ہیں

514

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) مزدور یونین کی بدولت اجتماعی حقوق آسانی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں‘ ملکی آئین کے تحت مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور مالکان اور مزدوروں کے درمیان معاملات احسن طریقے طے کرنے کے لیے ٹریڈ یونین کا قیام ضروری ہے‘ فیکٹری کو منظم اندازمیں چلانے کے لیے یورپی مالکان خود یونین کا قیام عمل میںلائے۔ان خیالات کا اظہار فضل منان باچا ایڈووکیٹ، شاہ پور جہانیاں سے اختر آزاد ڈاہری اور مردان سے سینئر مزدور رہنما لطیف خان یوسف زئی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مزدور یونین کا فائدہ کیا ہے؟‘‘ فضل منان باچا ایڈووکیٹ نے کہا کہ یونین کا قیام یورپ میں خود فیکٹری مالکان عمل میں لائے کیونکہ ان کے لیے انفرادی طور پر ہر مزدور سے بات کرنا اور ان کو کسی کام کے لیے قائل کرنا ناممکن تھا اس لیے انہوں نے مزدوروں کو یونین بنانے اور اپنے لیے نمائندے منتخب کرنا سکھایا‘ مالکان کے لیے اس میں یہ سہولت تھی کہ وہ ہر درپیش مسئلے کے لیے ان نمائندوں کو بلاتے ان سے میٹنگز کرتے‘ ان کو قائل کرتے۔ پھر وہی نمائندے جاکر تمام مزدوروں کو تیار کرتے اور اس طرح احسن طریقے سے کام جاری رہتا اور کوئی مسئلہ درپیش نہیں آتا‘ جہاں تک پاکستان میں یونین کا تعلق ہے‘ ابتدا میں اس فیلڈ کو انتہائی دانا لوگوں نے سنبھالا جو مزدوروں کی مشکلات کو بھی سمجھتے تھے‘ وہ کارخانے کے منافع کو بڑھانے کو بھی نظر میں رکھتے تھے اور ملکی حالات کا بھی ان کو قریب سے ادراک رہتا تھا وہ ان تمام معاملات کو نظر میں رکھتے ہوئے ٹریڈ یونین چلاتے جہاں ملکی حکمرانوں کے غلط فیصلے پر بھی میدان میں نکلتے‘ جیلیں کاٹتے اور ان کو درست کرتے۔ وہاں ہی کارخانے کو بھی خسارے میں جانے سے بچاتے تھے تاکہ کارخانہ چلے تو مزدور کام کریں‘ وہاں وہ مزدوروں کے روزگار کو تحفظ دینے اور ان کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کرانے سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔اختر آزاد ڈاہری نے کہا کہ یونین اگر خلوصِ نیت سے خدمت کرے تو ملازمین کی حالت زار بہتر اور ادارے ترقی کر سکتے ہیں‘ یونین کا مطلب ہے اتحاد ہے، اور اتحاد میں وہ طاقت ہوتی ہے جس کی بدولت اجتماعی حقوق آسانی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ٹریڈ یونینوں میں سچائی کا بہت بڑا فقدان پایا جاتا ہے جس کے وجہ سے یونین وہ مقام نہیں حاصل کر پا رہی جو اس کو حاصل ہونا چاہییے اور یونین جلد اپنا نام و مقام گنوا بیٹھتی ہے کیونکہ رہنما ملازمین کے اجتماعی مفادات کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں دلچسپی رکھتے ہیں جس کے باعث وہ ناصرف مزدور طبقے بلکہ ادارے کے مالکان کی نظروں میں بھی غیر گر جاتے ہیں‘ ضرورت اس امرکی ہے کہ یونین رہنما ملازمین اور ادارے کی فلاح وبہبود اور ترقی و تحفظ کے لیے بلا تفریق خلوص نیت اور ایمانداری سے خدمات کریں۔لطیف خان یوسف زئی نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں آجر اور اجیر کے درمیان مصالحت اور معاملات کو طے کرنے اور مزدوروں کے مفادات کے تحفظ اور محنت کشوں کو حاصل حقوق کی پاسداری کے لیے یونین کا قیام ضروری ہے‘ اگر آجر مزدوروں کی نمائندہ تنظیم سے باہمی مشاورت سے انتظامی امور میں بھی معاونت حاصل کرے تو ادارے کو بھی استحکام حاصل ہوتا ہے اور اس سے ادارے کے محنت کش بھی خوشحال ہوتے ہیں‘ بدقسمتی سے پاکستان میں معاشی بدحالی میں جوں جوں اضافہ ہوا اور عام انسان کے لیے انصاف کا حصول مشکل ہوتا گیا تو سرمایہ داروں اورکارخانہ داروں نے آئین شکنی کرتے ہوئے یا تو اپنے اداروں میں مزدور یونین پر پابندی لگا دی یا اس کی قیادت کو خرید کر مزدوروں کا استحصال شروع کردیا‘ اس کے برے اثرات جہاں مزدوروں کی زندگی پر پڑے‘ وہیں ادارے میں محنت کش کی عدم دلچسپی کے سبب ادارے کو بھی نقصان ہوا‘ یونین کے قیام کی اہمیت کو جس ادارے نے بھی ضروری جانا وہاں پر یونین بہترین انداز میں ادارے اور محنت کشوں کی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔