عدالت عظمیٰ کی آئینی تشریح

318

عدالت عظمیٰ نے آئین کی دفعہ 63 اے کی تشریح کے لیے صدر مملکت کی جانب سے بھیجے جانے والے مراسلے پر اپنی رائے صدر کو بھیج دی ہے، عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے دو کے مقابلے میں تین ارکان کی اکثریت سے یہ رائے دی ہے کہ اپنی پارٹی سے منحرف ہونے والے رکن پارلیمان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔ عدالت عظمیٰ نے منحرف ارکان کی نااہلی کا معاملہ واپس بھجواتے ہوئے کہا ہے کہ منحرف ارکان کے حوالے سے قانون سازی پارلیمان کرے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اراکین کا انحراف سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم اور جمہوریت کو ڈی ریل کرسکتا ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کے لیے کینسر کے مترادف ہے۔ سیاسی جماعتوں کو غیر آئینی حملوں اور توڑ پھوڑ سے محفوظ رکھا جانا چاہیے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کے حقوق کی بھی بات کرتا ہے، سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کی بنیاد ہیں۔ آرٹیکل 63 اے کی اصل روح ہے کہ سیاسی جماعت کے کسی رکن کو انحراف نہ کرنا پڑے، اس آرٹیکل کا مقصد سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے۔ اکثریتی ججوں نے اپنی رائے میں قرار دیا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا وجود کلیدی ہے سیاسی جماعت وہ جز ہے جس کے بغیر پارلیمانی جمہوریت کھڑی نہیں ہوسکتی اور انحراف وہ راستہ ہے جس سے سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی نے 21 مارچ کو آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس عدالت عظمیٰ کو بھیجا تھا۔ یہ ریفرنس 58 دن زیر سماعت رہا اور 20 سماعتوں کے بعد عدالت عظمیٰ نے اکثریتی بنیاد پر اپنی رائے صدر مملکت کو بھیج دی ہے۔ صدارتی ریفرنس سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ میں بھیجا گیا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت کے ارکان کو خریدا گیا اور ان کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئی ہیں۔ اس وقت کی حکمراں جماعت اپنی صفوں میں بغاوت کو روک نہیں سکی تھی اس لیے اس نے عدالت عظمیٰ سے بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، حکمراں جماعت میں بغاوت کی بنیاد پر ہی تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں نے صف بندی تبدیل کرلی اور دو ووٹوں کی اکثریت سے تحریک عدم اعتماد منظور ہوگئی تھی۔ قانونی ماہرین کے حلقوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ اس ریفرنس کے بارے میں عدالت عظمیٰ کا جواب حکم ہے یا رائے۔ کیا یہ فیصلہ صوبہ پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے انتخاب پر اثر انداز ہوگا کہ نہیں۔ وفاق میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر حزب اختلاف نے اپنی حکمت عملی کے تحت تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے ووٹ حاصل کرنے سے گریز کیا تھا البتہ صوبہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اپنے منحرف ارکان کی اسمبلی کی نشستوں کے ہٹانے کی درخواست الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کے بارے میں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کا ریفرنس مسترد کردیا، کیوں کہ منحرف ارکان نے پارٹی کی ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ووٹوں کا استعمال نہیں کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے پارٹی سے علاحدگی کو انحراف قرار نہیں دیا البتہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کے بارے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنا باقی ہے، جو الیکشن کمیشن نے روک لیا ہے۔ فی الحال پنجاب کی صوبائی حکومت کے مستقبل کا انحصار عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد سے ہے، پنجاب کی حکمراں مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ اب بھی انہیں پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے، اس بات کا امکان موجود ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب ہو۔ عدالت عظمیٰ نے صدارتی ریفرنس کے جواب میں جو فیصلہ دیا ہے اس میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی امراض بہت پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی بالادستی کے باوجود سیاسی عدم استحکام پاکستان کا مقدر بن گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت کو جمہوریت پر یقین اور اعتماد نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی سیاسی جماعت کے اندر داخلی جمہوریت نہیں ہے۔ نہ کسی حکمراں جماعت میں قومی اور اجتماعی مسائل کے بارے میں کوئی دانش پائی جاتی ہے۔ پاکستانی قوم جن مصائب کا شکار ہے ان کا علاج کرنے والی اجتماعی دانش و بصیرت کا ادارتی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ یہ کام سیاسی جماعتوں کا تھا لیکن سیاسی جماعتیں اشخاص اور خاندانوں کی ملکیت بنی ہوئی ہیں۔ سیاسی کارکن اپنی قیادت کا ہاری اور مزدور ہے۔ اس مسئلے نے پارلیمانی سیاست میں ’’الیکٹیبلز‘‘ کو ایک سطح پر طاقت عطا کردی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں سیاسی جماعت کی اہمیت پرتوجہ لائی ہے اور اس سلسلے میں اہلیت اور نااہلیت کے لیے پارلیمان کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اس بارے میں قانون سازی کرے۔