کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) نواز لیگ نے اپنے کسی دور میںکراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا‘ نواز شریف نے ہمیشہ اقتدار میں آنے کے لیے شہر قائد کو ایم کیو ایم کے حوالے کیا اور لاتعلق ہوگئی‘ حکمران طبقہ اہل کراچی کو ملکی سیاست سے دور رکھنے کے لیے انہیں پسماندہ رکھنا چاہتا ہے‘ ملکی بحران کی وجہ پی پی اور ن لیگ کی لوٹ مار ہے‘ سارے گندے انڈے ایک ٹوکری میں جمع ہو گئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ بن رضی، مسلم لیگ کراچی کے سیکرٹری اور سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن ناصر الدین محمود، پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی ، جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد اور جماعت اسلامی کراچی پبلک ایڈ کمیٹی کے سربراہ سیف الدین ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا نواز لیگ نے گزشتہ30 برس میں کراچی کی ترقی کے لیے کچھ کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر اسامہ بن رضی نے کہا کہ مسئلہ صرف کراچی کا نہیں بلکہ پورے ملک کے 22 کروڑ عوام کا ہے‘ اصل میں سوال تو یہ ہونے ہونا چاہیے کہ کیا انہوں نے گزشتہ 30 برس میں کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں کے لیے کچھ کیا ہے؟ نواز لیگ نے 30 برس میں جو سب سے بڑا تمغہ حاصل کیا وہ کرپشن میںآصف زرداری کو بھی پیچھے چھوڑنے کا ہے‘ زرداریوں کو لوٹ مار اور کرپشن میں پیچھے چھوڑنے میں نواز لیگ نے جو کمال ہنرمندی اور فنکاری دکھائی ہے اس کا تمغہ ان کے سینے پر چمکتا دور سے دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر اسامہ بن رضی کا مزید کہنا تھا کہ نواز لیگ نے ملک کے سیاسی کلچر کو تباہ و برباد کیا‘ سیاسی رشوت، لوٹ کھوسٹ اور ملک کے خزانے کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھریں اور لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک منتقل کرکے وہاںغیر معمولی اثاثے بنائے‘ نواز لیگ کی لوٹ کھوسٹ کے اثرات عوام کی بدحالی اور مختلف بحرانوں کی شکل میں سامنے آئے ہیں‘آج جو ملک میں جو شدید معاشی، معاشرتی اور سیاسی بحران نظر آ رہا ہے وہ زرداریوں اور ن لیگیوں کے کرتوتو ں کا نتیجہ ہی تو ہے‘ یہ ماضی میں بوئے گئے بیجوں کی ہی فصل ہے جو عوام کاٹ رہے ہیں ‘ ملک کا حکمران طبقہ کراچی سے شدید خوفزدہ رہتا ہے‘ وہ کراچی کو معاشی، معاشرتی اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کے حوالے سے پسماندہ برترین صورتحال سے دو چار رکھنا چاہتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ کراچی کے شہری ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا نہ کرسکیں اور وہ مجبوریوں میں پھنسے رہیں تاہم حکمرانوں کی یہ سازش اب بے نقاب ہو چکی ہے‘ نواز لیگ اس ملک میں لوٹ مار کا استعارہ ہے‘ ان سے کسی قسم کے خیر و بھلائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہاس وقت ملک کی جو سیاسی صورتحال ہے وہ یہ ہے کہ قومی سیاست کو عالمی سیاست ڈکٹیٹ کرتی ہے جب کہ قومی سیاست نچلی سطح کی سیاست کوڈکٹیٹ کرتی ہے‘ اس حقیقت کی بنیاد پر ہمارے ملک اور دنیا کے معاملات چلتے ہیں اور یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے بلکہ ایک کلیہ اور قانون ہے‘ نواز لیگ بھی اپنے دور اقتدار میں اسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہے لیکن دکھاوئے کے لیے کچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں لیکن جس مقصد کے لیے ان کو لایا گیا ہے وہ اسی پر عمل کرتے ہوئے اس مقصد کو پورا کریںگے جس کے لیے سارے گندے انڈے ایک ٹوکری میں جمع کردیے گئے ہیں‘ یہکیسا منظر نامہ اور تماشہ ہے کہ شہباز شریف وزیر اعظم اور بلاول زرداری وزیر خارجہ ہیں‘ ان دونوں شاہی خاندانوں نے پورے پاکستان کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے اور خود وہ عالمی طاقتوں کے غلام ہیں‘ دونوں شاہی خاندان لندن جا کر مجرموں سے رہنمائی لیتے ہیں کہ اس ملک کو کیسے چلایا جائے۔سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ نواز لیگ1990ء سے اب تک چوتھی مرتبہ اقتدار میں آئی ہے ‘ نواز لیگ نے اپنا ہر دور حکومت ایم کیو ایم کی خوشامد اور اس کو منانے میں گزارا‘ اس کو حکومت میں شامل کیا‘ انہوں نے کراچی کا مکمل اختیار متحدہ کو دے دیا اور متحدہ نے کراچی کے مفادات کے بجائے پارٹی مفادات کو ترجیح دی اور اس کے حصول میں لگی رہی‘ وزارتوں پر لڑتی رہی‘ ڈاکٹر فاروق ستار سمیت متحدہ کے مختلف رہنما ن لیگ کی حکومت میں وزیر رہے اس کے باوجود کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا‘ نواز لیگ نے اپنے دور حکومت میں لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں میٹرو بس سروسز مکمل کرائیں‘ کراچی کو چھوڑ کر ملک کے دیگر حصوں میںکچھ نہ کچھ ترقیاتی کام ضرور کرایا لیکن نواز لیگ شہر کو متحدہ کے حوالے کر کے کراچی سے بالکل لاتعلق ہوگئی‘ کراچی کو دیے گئے واحد چند کلومیٹر کے گرین لائن منصوبے کو بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکی‘ عمران حکومت بھی نواز لیگ کی طرح اعلانات تک محدود رہی۔ ناصر الدین محمود نے کہا کہ1989-90ء کے دوران کراچی میں پرتشدد ہڑتالیں روز کا معمول تھیں‘ روزانہ درجنوں افراد کو قتل کردیا جاتا تھا‘ اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم عام تھے جس کا نتیجہ کراچی کی معاشی تباہی کی صورت میں نکل رہا تھا‘ اس سے بندگارہ بھی متاثر تھی‘ نواز شریف نے اپنے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس وقت کی شہر کی سب سے بڑی قوت کے خلاف آپریشن کا آغازکیا‘ امن و امان کی بحالی کے لیے متواتر سخت اور موثر اقدامات جاری رکھے جس کے نتیجے میں کراچی میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوا‘ 2013ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف نے وفاق کے بجٹ سے لیاری ایکسپریس وے کے منصوبے کو مکمل کرایا‘ اسی طرح سرجانی سے ٹاور تک میٹرو بس منصوبے کا آغا زکیا اور جب لیگی حکومت کی مدت پوری ہوئی تو منصوبے میں صرف 2 ہفتے کا کام باقی تھا صرف بسوںکی آمد کا انتظار تھا‘ افسوس کی بات یہ ہے کہ لیگی حکومت کے بعد آنے والی پی ٹی آئی حکومت ساڑھے3 سال سے زایدکا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس منصوے کو مکمل طور پر چلانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کا کہنا تھا کہ نواز لیگ نے اپنے کسی بھی دور میںکراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا‘ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ نواز لیگ سمیت وفاق میں اقتدار حاصل کرنے والی کسی بھی جماعت نے کراچی کی طرف توجہ نہ دی جس کی وجہ سے کراچی کے حالات خاصے خراب ہو چکے ہیں‘ نواز لیگ کا کراچی کے ساتھ وہی رویہ ہے جو سابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا رہا تھا۔ شرمیلا فاروقی کا کہنا تھا کہ نواز لیگ اپنے سابق ادوار میں کراچی سمیت پورے صوبے میں کوئی خاص کارگردگی نہیں دکھا سکی تاہم اس مرتبہ توقع ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر صوبے کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرے گی۔