اللہ رب العزت نے آپ کو پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے اہم ترین منصب پر فائز کیا ہے اور مملکت خداداد کی خدمت اور عوام کے گوناں گوں مسائل کو حل کر نیکی کٹھن ذمے داری آپ کے کندھوں پر ڈالی ہے۔ آپ کو اس منصب کے تقاضوں کا بخوبی ادراک ہوگا۔ اس سلسلے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں جن پر سنجید گی سے غور کر نیکی ضرورت ہے۔
معیشت کی بہتری: عمران اللہ خان نیازی نے جو تباہ حال معیشت اور ایک لاکھ 18ہزار ملین امریکی ڈالرز کے غیر ملکی قرضے ورثے میں چھوڑے ہیں اس گمبھیر معاشی صورتحال سے نبرد آزما ہونا اور معیشت کو درست سمت میں گا مزن کرنا آپ کی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا اور مشکل چیلنج ہے۔ عوام توقع رکھتے ہیں کہ آپ اس تشویش ناک معاشی صورتحال کی شدت کو کم کرنے کے لیے فوری مثبت اقدامات کریں گے۔ آپ کی اولین ترجیح مہنگائی کے طوفان کو قابو کرنا اور عوام کو بنیادی اشیاء خورو نوش میں کسی نہ کسی حد تک سہولت بہم پہنچانا ہونا چاہیے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں ہمارا ملک سر سے پیر تک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ اور شواہد بتاتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی مقروض پیدا ہوںگی۔ اس انتہائی تشویشناک صورتحال سے نمٹنے اور اْن کے معاشی جال کی گرفت کمزور کرنے کے لیے تو آپ کی معاشی ٹیم ہی آئندہ کا لائحہ عمل متعین کرے گی لیکن جو اقدامات آپ کی حکومت فوری طور پر اٹھا سکتی ہے اْن میں غیر ترقیاتی اور حکومتی اخراجات میں قابل لحاظ حد تک کٹوتی، برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ، غیر اہم اور غیر ضروری در آمدات مثلاً پر تعیش کاروں، الیکٹرونکس اور دیگر مصنوعات کی شدت سے حوصلہ شکنی ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں وزراء اور مشیروں کے بھاری بھرکم ماہانہ مشاہروں اور دیگر پْرکشش مراعات میں کم ازکم پچاس فی صد کٹوتی کرنے کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ملک ماہانہ بنیاد پران خطیر اور شاہانہ اخراجات کا قطعاً متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلے میں حکومت کو انقلابی اقدامات کرنیکی ضرورت ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے ہمیں اپنی توجہ اہم فصلوں یعنی گندم، چاول، کپاس اور گنے کی کاشت پر بھی دینا لازم ہے تاکہ یہ اشیاء صرف عام آدمی کی قوت خرید کی دسترس میں رہیں۔
ہمارے ملک میں عام دنوں میں عمومی طور پر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس بڑھتی جا رہی ہے جبکہ ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس سلسلے میں مکمل طور پر نا کام نظر آتی ہیں۔ مقامی انتظامیہ گراں فروشوں پر جرمانے ضرور عائد کرتی ہے لیکن جرمانوں کے طور پر حکومت کو دی ہوئی رقم، گراں فروش مزید مہنگائی کر کے عوام سے وصول کرلیتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک ایسا مضبوط اور مر بوط نظام وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے جو گراں فروشی اور منافع خوری پر کاری ضرب لگا سکے۔
غیر ملکی دورے: ہمارے صاحبان اقتدار
غیر ضروری طور پر بیرونی دورے کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، جن پر غریب اور مقروض قوم کے کروڑوں روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ اس رحجان پر بھی قد غن لگانے کی ضرورت ہے صرف وہ غیر ملکی دورے کیے جائیں جو ناگزیر ہوں اور جو ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں ہوں۔ علاوہ ازیں حکمراں طبقے کے سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج معالجے پر بھی سختی سے پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بہترین معالج اور جدید طرز کے اسپتال موجود ہیں لہٰذا حکمران طبقے پر لازم ہے کہ وہ اپنا اور اپنے لواحقین کا علاج معالجہ پاکستان میں رہ کر ہی کرائیں اور اس طرح نا صرف اپنے سچے اور محب وطن ہونے کا ثبوت دیں بلکہ قومی خزانے پر غیر ضروری بوجھ کم کرنے کا بھی سبب بنیں۔ اسی طرح سرکاری خرچ پر ہر سال لائو لشکر کے ساتھ حج و عمرہ کی ’’سعادت‘‘ حاصل کرنے کا بھی سد باب ہونا چاہیے۔ جسے بھی حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنا ہے وہ اپنے خرچ پر کرے۔ اس سلسلے میں ضروری قانون سازی بلا تاخیر کی جائے۔
کابینہ کا حجم: وفاقی کابینہ میں عمومی طور پر وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر موج نظر آتی ہے جو ملکی خزانے پر ماہانہ کروڑوں روپے کا بوجھ ڈالتی ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ کابینہ مختصر رکھیں، اور ہر اتحادی کو خوش کرنے کے لیے کابینہ کا حجم غیر ضروری طور پر نا بڑھائیں، کیونکہ موجودہ حکومت زیادہ ایک سے ڈیڑھ سال کی مدت کے لیے ہے۔ جبکہ انتخابات کروانے کے لیے بھی حکومت پر مسلسل دبائو بڑھ رہا ہے۔ جتنی جلدی انتخابات ہو جائیں مْلک کے لیے بہتر ہے لہٰذا کابینہ کا حجم اتنا ہی رکھیں جتنا ملکی معاملات چلانے کے لیے نا گزیر ہے۔
کرپشن کا خاتمہ: ہمارے تمام معاشی اور سماجی مسائل کی جڑ کرپشن اور میرٹ سے انحراف ہے۔ پاکستان میں روزآنہ کی بنیاد پر سات ارب روپے سے زیادہ کی رقم کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے۔ کرپشن کی کوکھ سے معاشی نا ہمواری اور معاشی استیصال جنم لیتے ہیں جن کی وجہ سے مجرمانہ سوچ کو تقویت ملتی ہے۔ علاوہ ازیں کرپشن کا سرطان ملکی معیشت کو رفتہ رفتہ کھو کھلا کر دیتا ہے جس سے معاشرے میں ہر طرح کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ جو جرائم کو پنپنے میں مدد دیتا ہے۔ الغرض جہاں کرپشن ہوتی ہے وہاں کسی نا کسی شکل میں قومی خزانے کی آمدنی پر ضرب پڑتی ہے۔
لہٰذا کرپشن کو نکیل ڈالنے کے ضمن میں سخت اور بے رحمانہ قوانین بنانے اور بلا کسی لحاظ و مْروت کے اْن پر عمل درآمد کروانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس سلسلے میں کسی قسم کی نرمی، کو تاہی، یا چشم پوشی کرپشن کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ حکومت اس سلسلے میں کیا اقدامات کرتی ہے۔ اس کا عوام کو انتظار رہے گا۔ نیز بشمول آپ، مختلف سیاستدانوں، طبقہ اشرافیہ اور خصوصاً مقدر طبقے پر کرپشن کے جو مقدمات برسوں سے التوا کا شکار ہیں ان کا منطقی انجام تک پہنچنا بھی ضروری ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا نکات پر نا صرف سنجیدگی سے غور کیا جائے گا بلکہ عملی اقدامات بھی کیے جائیں گے۔