پارٹی ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے سے سیاسی پارٹی “ٹی پارٹی” بن جائیگی ، چیف جسٹس

179

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے آرٹیکل 63 اے کے صدارتی ریفرنس کی سماعت میں کہا ہے کہ پارٹی ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے سے سیاسی پارٹی ٹی پارٹی بن جائے گی جب کہ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ اگر انحراف غلط کام ہے تو آئین اس کی اجازت کیوں دیتا ہے؟عدالت عظمیٰ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اٹارنی جنرل کو تاخیر ہوگئی وہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کام نہ کریں جس سے کوئی اور تاثر ملے، اٹارنی جنرل نے پیر کو دلائل میں معاونت کی بات خود کی تھی، مخدوم علی خان کو بھی آج دلائل کے لیے پابند کیا تھا، ابھی ہمیں اطلاع ہے کہ مخدوم علی خان بیرون ملک سے واپس نہیں آئے، یہ دونوں وکلا صاحبان ایک فریق کے وکیل ہیں، ایک سرکار کا وکیل ہے دوسرے سیاسی جماعت کے نجی وکیل ہیں، اب لگتا ہے آپ اس معاملے میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ دینا چاہتے ہیں، یہ ایک اہم ایشو ہے، اگر اٹارنی جنرل 3بجے پہنچ رہے ہیں تو 4بجے تک سن لیتے ہیں، رات تاخیر تک اس مقدمے کو سننے کے لیے تیار ہیں، یہ خدمت کا کام ہے ہم کرنا چاہتے ہیں، عدالت تو رات تاخیر تک بیٹھی ہوتی ہے، ایڈووکیٹ جنرلز اور بی این پی کے وکیل کو سن لیتے ہیں اٹارنی جنرل کا بھی انتظار کریں گے۔اپنے دلائل میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے وکیل مصطفی رمدے نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں تمام طریقہ کار موجود ہے، اگر آرٹیکل 63 اے میں طریقہ کار موجود نہ ہوتا تو عدالت آرٹیکل 62 ، 63 کی طرف دیکھ سکتی تھی، یہ ضروری نہیں ہر انحراف کسی فائدے کے لیے ہو، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین سازوں نے ڈی سیٹ کی سزا رکھی ہے، انحراف خالصتاً سیاسی اختلافات پر بھی ہوسکتا ہے، آرٹیکل 63 اے میں ڈی سیٹ کی سزا فراہم کی گئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں منحرف ارکان کے لیے ڈی سیٹ کی سزا کافی ہے جس پر مصطفی رمدے نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے طریقہ کار سے ہٹ کر مزید گہرائی میں نہیں جانا چاہتے، ڈی سیٹ کے ساتھ مزید سزا شامل کرنے سے سیاسی تقسیم میں اضافہ ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کے ارکان سے متعلق ریفرنس مسترد کرچکا ہے جس پر مصطفی رمدے نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے آدھے ارکان نے ایک طرف جبکہ آدھے ارکان نے دوسری طرف ووٹ دیا، اس سیاسی جماعت نے اپنے ارکان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین جمہوریت کو فروغ دیتا ہے، آئین سیاسی جماعت کو مضبوط بھی کرتا ہے، اکثر انحراف پر پارٹی سربراہ کارروائی نہیں کرتے، آرٹیکل 63 اے کسی سیاسی جماعت کو نہیں سسٹم کو بچاتا ہے، چھوٹی سیاسی جماعت کے ارکان نے پالیسی سے کبھی انحراف نہیں کیا، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ بھی کرتا ہے اور رکن کو 4 چیزوں پر پالیسی کا پابند کرتا ہے۔وکیل مصطفی رمدے نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پالیسی کو پابند کرتا ہے اور انحراف سے منع کرتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی رکن اسمبلی کے آخری چھ ماہ میں انحراف کرتا ہے تو ایسی صورتحال میں اس رکن کی سزا تو نہ ہوئی جس پر رمدے نے کہا کہ پارٹی سربراہ بھی منحرف ارکان کے خلاف کاروائی نہیں کرتے، عدالت پارٹی سربراہوں کے کنڈکٹ کو بھی سامنے رکھے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمارے کندھے اتنے کمزور نہیں ہیں، ہمارے کندھے آئین پاکستان ہیں، تشریح کا اختیار عدالت عظمیٰ کا ہے اور عدالت کا کام آئین کا تحفظ اور تشریح کرنا ہے، عدالت کو دیکھنا ہے کہ درخواست میں کس نوعیت کا سوال اٹھایا گیا ہے۔مصطفی رمدے نے کہا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو کالعدم کردیتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس اقدام کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے؟ مصطفی رمدے نے کہا کہ میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا میں حقیقت بتا رہا ہوں، آرٹیکل 63 اے ڈی سیٹ کرتا ہے کہیں اختلاف پر ووٹ دینے سے نہیں روکتا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ دنیا کے 200 ممالک میں سے 32 ممالک میں انسداد انحراف قانون ہے، ان 32 ممالک میں صرف 6 ملکوں میں اس قانون پر عمل ہوتا ہے، ان 6 ممالک میں انحراف پر ارکان کو ڈی سیٹ کیا گیا ہے، اگر انحراف غلط کام ہے تو آئین انحراف کی اجازت کیوں دیتا ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر کوئی اسمبلی میں نہ آئے تو یہ بھی انحراف ہے؟۔ جسٹس جمال نے کہا کہ اگر وزیراعظم اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرے تو کیا پھر بھی رکن کوچاہے کہ وہی وزیر اعظم رہے؟سماعت کے ددران بینچ کے سربراہ کی طرف سے یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ عدالت منگل تک اس صدارتی ریفرنس پر اپنی سماعت مکمل کرلے گی۔