اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) اسلام آباد کو مفلوج کرنا مشکل ہے‘ وفاقی وزیر داخلہ ریاستی رٹ کو چیلنج نہیںکرنے دیںگے‘ عوام کی شرکت کے باوجودعمران خان لانگ مارچ کے ذریعے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے‘ پی ٹی آئی جلسوں میں لوگ انجوائے کرنے آتے ہیں ‘ بیرون ملک سے سپورٹ مل رہی ہے ‘ ملک میں انتخابی مہم کا ماحول لگ رہا ہے‘ کپتان کے پاس رونے دھونے کے سوا کچھ نہیں۔ ان خیالات کا اظہار سینئر تجزیہ کار اور کے پی کے کے سابق وزیر اعلیٰ کے مشیر ڈاکٹر عبدا لودود قریشی، تجزیہ کار اعجاز احمد، تجزیہ کار مظہر طفیل، تحریک انصاف کی رئیل اسٹیٹ یوتھ کے رہنما فہد جعفری، سول سوسائٹی کے نمائندے محمد شفیق چودھری، پیپلز پارٹی کے رہنما اور اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سینئر نائب صدر سردار احسان عباسی، مسلم لیگ (ج) کے صدر اقبال ڈار اور انجمن تاجران پاکستان کے صدر شیخ سلیم نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا عمران خان کا لانگ مارچ کامیاب ہوگا؟‘‘ ڈاکٹر عبدا لودود قریشی نے کہا کہ تحریک انصاف کی موجودہ ٹیم لانگ مارچ کامیاب نہیں بنا سکے گی‘ اس میں اس کی اہلیت ہی نہیں ہے‘ اقتدار سے تازہ تازہ محروم ہونے والی پی ٹی آئی کے احتجاجی جلسے تو سمجھ میں آتے ہیں مگر یہ کہنا اور سمجھنا کہ وہ اپنے لانگ مارچ اور جلسوں سے حکومت کا تختہ پلٹ دے گی یہ ممکن نہیں۔اعجاز احمد نے کہا کہ شرکا کی شرکت کے اعتبار سے لانگ مارچ کامیاب کہہ سکیں گے مگر نتائج کے حصول کے اعتبار سے یہ لانگ مارچ ناکام ہوگا‘ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کے لانگ مارچ کی اپنی ایک تاریخ ہے‘ بے نظیر بھٹو نے لانگ مارچ کیا تھا تو نواز شریف حکومت دیر یا بدیر ختم ہوگئی تھی‘ چیف جسٹس کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کیا گیا تو یہ لانگ مارچ اپنے نتائج کے اعتبار سے کامیاب رہا‘ ابھی حال ہی میں پیپلزپارٹی نے لانگ مارچ کیا اس کے بعد عدم اعتماد کی تحریک آئی اور عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی‘ عمران خان نے بھی اب لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے‘ ہوسکتا ہے وہ اس میں لوگوں کو لانے میں کامیاب ہو جائیں مگر نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے۔ مظہر طفیل نے کہا کہ عمران خان جب سے اپوزیشن میں آئے ہیں انہوں نے امریکا مخالف جو بیانیہ اپنایا ہے‘ بلاشبہ اس سے حکومت دبائو کا شکار ضرور ہوئی ہے مگر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ عمران نیازی لانگ مارچ سے اپنے وہ سیاسی مقاصد حاصل کر پائیں گے جس کا وہ روزانہ کی بنیاد پر راگ الاپ رہے ہیں کیونکہ عمران خان اس وقت بھی شاید ماضی کے اپنے اس دھرنے کے فریب میں مبتلا ہیں جو انہوں نے اُس وقت ریاستی اداروں، مسلم لیگ ق اور طاہرالقادری کے کارکنان کی مدد سے دیاتھا‘ اس وقت بھی عمران خان کے چاہنے والے صرف رات کے وقت ان کے کیمپ میں آتے تھے کیونکہ وہاں جو کلچر دیا گیا تھا وہ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت نے اس سے قبل نہیں دیا تھا‘ نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں پر مخلوط محفلیں جو سرعام سجائی جاتی تھیں‘ رات گئے تک جاری رہنے والے اس دھرنے کے اثرات صبح سویرے ڈی چوک کے اطراف میں قائم سرکاری عمارتوں اور ان کی پارکنگ ایریا سے واضح دکھائی دیتے تھے‘ اس وقت عمران خان کی سیاسی قسمت اچھی تھی کیونکہ چودھری نثار وزیر داخلہ تھے‘ اب عمران خان کی بدقسمتی ہے کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ ہیں‘ دوسری بات اس وقت ملک بھر میں شدید گرمی ہے‘ عمران خان کے سپورٹرز کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جا ئے تو یہ بات واضح ہے کہ تحریک انصاف کے سپورٹرز جلسہ گاہ میں صرف انجوائے کرنے آتے ہیں‘ یہ جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی سمیت بلوچستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے قریب تر بھی نہیں ہیں‘ جو دھرنے میں مسلسل اپنی شرکت کو یقینی بنا پائیں کیونکہ عمران خان کے لانگ مارچ کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اسلام آباد کا گھیرائو کرکے ماضی کی طرح حکومت کو مکمل مفلوج کردیا جائے جو کہ اس وقت ناممکن ہے کیونکہ وفاقی وزیر داخلہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ ریاست کی رٹ کو ہرگز کسی کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ فہد جعفری نے کہا کہ عمران خان کا لانگ مارچ کامیاب ہوگا کیونکہ عوام کی بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے۔ محمد شفیق چودھری نے کہا کہ عمران خان کا لانگ مارچ کامیاب نہیں ہوگا‘ ان کے پاس تو رونا دھونا ہی رہ گیا ہے‘ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے کپڑے بیچ کر بھی عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے تک کا اعلان کر دیا ہے‘ حاضری کے اعتبار سے عمران خان اور مریم نواز کے جلسے بھرپور ہو رہے ہیں‘ انہیں دیکھنے اور سننے کو عوام کا جم غفیر جمع ہو جاتا ہے‘ اب تو وزیر اعظم شہباز شریف کے جلسے بھی کامیاب ہو رہے ہیں‘ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن جو بھی جلسہ گاہ منتخب کرتی ہیں ‘عوام اسے بھر دیتے ہیں ‘اس وقت ملک میں انتخابی مہم کا ماحول لگ رہا ہے ۔ سردار احسان عباسی نے کہا کہ عمران خان کا لانگ مارچ کامیاب نہیں ہوسکتا‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاسی حکمت عملی، عدلیہ کے فیصلوں اور پارلیمنٹ کی کارروائی نے عمران خان کو اقتدار سے باہر کر کے عوام کے اندر پہنچا دیا ہے‘ سفارتی خط کی حقیقت کچھ بھی ہو‘ عمران خان اس پر ایمان کی حد تک یقین کر چکے ہیں‘ عمران خان پشاور، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں پہلے ہی بڑے بڑے جلسے کر چکے ہیں‘ اب پورا مئی کا مہینہ چھوٹے شہروں میں جلسے ہوں گے جو در اصل اسلام آباد پر چڑھائی کی تیاری ہے۔ اقبال ڈار نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت مل گئی تو کپتان نے آئین بدل کر سارا پارلیمانی نظام تلپٹ کر دینا ہے اور مطلق العنان صدر یا امیر المومنین ٹائپ بننے کی راہ پر چل پڑنا ہے‘ اس کی صحت بھی بظاہر اچھی ہے اور سیاست بھی عروج پر ہے‘ مقابلے کی خواہشمند قوتیں ابھی سے اپنی حکمت عملی کا جائزہ لے لیں۔ شیخ سلیم نے کہا کہ تحریک انصاف کے لیے ایک منظم قوت کام کر رہی ہے اور اسے بیرون ملک سے کچھ سپورٹ بھی مل رہی ہے لیکن اس کے باوجود لانگ مارچ کامیاب نہیں ہوسکے گا۔