اسلام آباد (صباح نیوز)عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ پیسوں سے حکومت گرانے کی روایت بن گئی ، چند لوگوں کی خرید و فروخت سے 22 کروڑ عوام کا مستقبل دا ئوپر ہوتا ہے، اراکین کی خرید و فروخت کے ذریعے حکومت گرانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ میں 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کی ۔ سماعت کے آغاز میں ہی پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیے اور کہا کہ یوٹیلیٹی بلز ادا نہ کرنے والا بھی رکنیت کا اہل نہیں ہوتا، مدت کا تعین نہ ہو تو نااہلی تاحیات ہوگی اس پر جسٹس جمال نے پوچھا کہ کوئی امیدوار آئندہ الیکشن سے پہلے بل ادا کردے تو کیا تب بھی نااہل ہوگا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بل ادا کرنے کے بعد نااہلی ختم ہوجائے گی، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہی نااہلی تاحیات ہے، جب تک نااہلی کا ڈیکلیریشن عدالت ختم نہ کرے نااہلی برقرار رہے گی لیکن یوٹیلیٹی بلز کی عدم ادائیگی پر نااہلی تاحیات نہیں ہوسکتی۔ بابر اعوان نے کہا کہ 63اے پر کوئی ڈی سیٹ
ہو اور 15دن بعد دوبارہ پارلیمنٹ میں آجائے یا ہوسکتا ہے دوبارہ منتخب ہوکر کوئی وزیر بھی بن جائے، ایسا ہوجانا آرٹیکل 63اے کے ساتھ مذاق ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ قانونی اصلاحات کریں، توبہ کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ جسٹس مظہر نے کہا کہ آرٹیکل63 (1) جی پڑھ لیں، آپ کہتے ہیں منحرف ارکان کو تاحیات نااہل کریں۔بابر اعوان نے کہا کہ انحراف کرنا بڑا سنگین جرم ہے جس پر جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ میری نظر میں آرٹیکل 63 (1) جی کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے، آرٹیکل 63 (1)جی عدلیہ فوج کی تضحیک اور آئیڈیالوجی آف پاکستان سے متعلق ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ آرٹیکل 63اے کا آرٹیکل 62ون ایف کے ساتھ تعلق کیسے بنتا ہے؟ بابر اعوان نے کہا کہ میری دلیل ہے کہ آرٹیکل 63اے بذات خود منحرف رکن کو تاحیات نااہل کرتا ہے، کیا اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ 26ارکان پارٹی چھوڑ جائیں؟ اس طرح تو اکثریتی جماعت اقلیت میں آجائے گی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں آرٹیکل 63اے کو اتنا سخت بنایا جائے کہ کوئی انحراف نہ کرسکے؟ بابر اعوان نے کہا کہ عوام کے پاس ووٹ کی طاقت کے سوا بولنے کا کوئی ذریعہ نہیں،18ویں ترمیم میں کینسر کے علاج کے لیے ایک سرجیکل اسٹرائیک 63اے میں بنائی گئی، 18ویں ترمیم دراصل متفقہ ترمیم تھی۔جسٹس جمال نے کہا کہ قانون میں جرم کی مختلف سزائیں دی گئی ہیں، کیا عدالت سزا میں ایک دن کا بھی اضافہ کرسکتی ہے؟ اس پر بابر اعوان نے مشرف کے مارشل لا کی توثیق کے فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ عدالت عظمیٰ نے مشرف کو آئینی ترمیم کا اختیار دیا تھا اس لیے عدالت کے اختیارات لامحدود ہیں۔جسٹس جمال نے کہا کہ مجھ سمیت سب کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے اب بہت ہوچکا، اتنا حوصلہ بھی ہونا چاہیے کہ ان فیصلوں کا حوالہ سن سکیں ، عدالت عظمیٰ ہماریآخری امید ہے اس کے بعد سڑکیں اور جلسے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایک کہتا ہے آزاد عدلیہ چاہیے دوسرا کہتا ہے آئین کے تابع عدلیہ چاہیے، آئین کے تابع پارلیمان، ایگزیکٹو اور عدلیہ ہونی چاہیے جس پر بابر اعوان نے کہا کہ عدلیہ ہی سب کو آئین کے تابع کرسکتی ہے، عدلیہ صرف آئین کی تشریح نہیں کرتی بلکہ اپنے فیصلوں سے قانون وضع کرتی ہے۔ بعدزاں بابر اعوان کے دلائل مکمل ہوگئے۔جسٹس جمال نے کہا کہ کیا آزاد رکن اسمبلی سے پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے حلف لیا جاتا ہے؟ کیا آزاد رکن یہ حلف دیتاہے کہ وہ پارٹی کے ہر فیصلے کا پابند ہوگا۔ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ منحرف ارکان ووٹ ڈال ہی نہیں سکتے، کیا عدم اعتماد کی تحریک وزیراعظم کی شکل پسند نہ ہونے پر بھی آسکتی ہے؟۔جسٹس جمال نے کہا کہ آرٹیکل 63اے کی سزا منحرف رکن کی رکنیت کا خاتمہ ہے، کیا آپ منحرف رکن کی سزا میں اضافہ چاہتے ہیں جس پر اظہر صدیق نے کہا کہ سزا میں اضافہ میرا کیس نہیں ہے، آرٹیکل63اے تحریک عدم اعتماد کے خلاف حفاظتی دیوار ہے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا تو اسے سزا کیسے ملے گی؟۔ ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے میثاق جمہوریت کا حوالہ دیا جس پر جسٹس جمال بولے کہ میثاق جمہوریت پر پارلیمان کا اتفاق ہوتا تو آئین کا حصہ ہوتا، پارٹی لیڈر کو کسی نے نہیں روکا کہ منحرف ارکان کو سزا نہ دے، پارٹی سربراہ کو صرف اتنا لکھنا ہے کہ رکن منحرف ہوگیا۔ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ کرپشن کرنے والوں کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی ہوتی اور فوج داری بھی جس پر جسٹس جمال نے کہا کہ مناسب نہیں ہوگا اگر ہارس ٹریڈنگ اور کرپشن ثابت ہوجائے پھر کارروائی ہو؟ اظہر صدیق نے کہا کہ کرپشن ثابت ہونا اور منحرف ہونا الگ چیزیں ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ منحرف ارکان کا ووٹ کس قانون کے تحت شمار نہیں ہوگا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ق لیگ کے 2 ارکان نے پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالا، ق لیگ کے سربراہ نے اختیار استعمال کیا اور کارروائی نہیں کی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ جمہوریت اور نظام کے لیے خطرہ ہے، ایسا ممکن نہیں کہ غلط کام کریں اور اس کا فائدہ بھی اٹھائیں، جرم کرنے والوں کو اس کا فائدہ لینے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟۔ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ انحراف کی اجازت دینا مقصد ہوتا تو آرٹیکل63 اے کی ضرورت ہی نہیں تھی، جسٹس جمال نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف ملک کے فائدے میں بھی ہوسکتا ہے۔ بعدازاں عدالت نے اظہر صدیق کو15منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے مزید سماعت آج (بدھ کو) 12 بجے تک ملتوی کردی۔