پاکستان اور سری لنکا جنوبی ایشیا کے دو اہم ملک اور سارک تنظیم کے دو قابل ذکر رکن اور چین وبھارت کے ہمسائے ہیں۔ دونوں ملکوں میں چین کی سرمایہ کاری مخالف عالمی طاقتوں اور بھارت کو ایک آنکھ نہیں کھٹکتی۔ سری لنکا میں چین نے ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ کو مستقبل کے عزائم اور ارادوں کے ساتھ تعمیر کیا تو پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ انہی عزائم کی آئینہ دار تھی۔ سری لنکا اور پاکستان کے معاشی حالات کے خراب ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ان منصوبوں میں چین کی شرکت ہے۔ چین کے ساتھ ان دونوں ملکوں کی کلائی مروڑنے کے لیے آئی ایم ایف کا سیاسی استعمال ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سری لنکا میں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ بجلی ناپیدہے اشیائے خوردونوش کی قلت ہے۔ سری لنکا کی معیشت کا انحصار سیاحت پر تھا مگر کورونا کے باعث اس صنعت کو شدید دھچکا لگا اور سری لنکا دوبارہ اس جھٹکے سے سنبھل نہیں سکا۔ سری لنکا نے آئی ایم ایف کے تیور بھانپتے ہوئے مالی بحران سے نکلنے کے لیے چین اور بھارت سے مدد کی اپیل کی مگر جواب میں خاموشی کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں معاملات اس حد تک بگڑ گئے کہ عوام نے سڑکوں کا رُخ کیا اور سری لنکا کی حکومت برطرف ہوئی اور ملک عملی طور پر دیوالیہ ہوگیا۔ پاکستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی آسمان سے بات کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے ہر ممکن طور سے پابندیاں لگا کر عام پاکستانی کو حالات سے بیزار کر کے سری لنکا بنانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ سری لنکا کی طرح پاکستان سے آئی ایم ایف کے نامہرباں رویے کی وجہ چین سے دوستی اور سی پیک سمیت کئی مشترکہ منصوبے ہیں۔ پاکستان دیوالیہ تو نہیں ہوا مگر دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑا ہے اور آئی ایم ایف کے مقابلے میں چین نے پاکستان کو عملی طور پر ریسکیو کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ پاکستان بس اِدھر اُدھر سے قرض پکڑ کر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھا کر کام چلارہا ہے۔ اس کا نتیجہ پاکستان ایک شدید سیاسی بحران کا شکار ہوگیا۔ امریکا نے اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈال کر حکومت تو تبدیل کرالی مگر حالات اب سنبھل نہیں پا رہے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات کے ساتھ سیاسی بحران ایک آتش فشاں بن کر رہ گیا ہے۔ پاکستانی معاشرہ گہری تقسیم کا شکار ہے اور اس تقسیم کے اثرات زندگی کے ہر شعبے میں نظر آرہے ہیں۔ سری لنکا اور پاکستان کے ان مخدوش حالات میں یہ سوال اُٹھنے لگا کہ کیا چین ایک قابل بھروسہ شراکت دار ہے؟۔ چین نے جب بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا فیصلہ کیا تو صاف نظر آرہا تھا کہ امریکا اس منصوبے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس منصوبے کو اپنے عالمی کردار اور حیثیت کے لیے ایک چیلنج سمجھ رہا تھا۔ امریکا کے پاس چین کو محدود رکھنے کے عالمی اثر رسوخ اور عالمی معاشی ادارے اور اقوام متحدہ بھی موجود تھا۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شرکت کے خواہش مند ملکوں کو امریکا کے سیاسی فوجی اور معاشی غیض وغضب سے کیسے بچانا ہے چین یہ منصوبہ بندی نہ کرسکا۔ جو ملک چین کے ساتھ چلنے کے خواہش مند تھے وہ عملی طور پر امریکا کے رحم وکرم پر آکر رہ گئے۔ اب حالات یہ ہیں کہ سی پیک کی بھاری سرمایہ کاری پاکستان میں معیشت کو فوری سہارا دینے سے قاصر ہے۔ نتیجہ یہ ہے جو ملک امریکا کے چنگل سے نکلنا چاہتے تھے چین کے متبادل پلان نہ ہونے کی وجہ سے ان پر امریکا کی گرفت مزید مضبوط ہو تی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ان میں سری لنکا اور پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی شامل ہے۔ افغانستان نے 17برس لڑائی کرکے امریکا سے گلوخلاصی حاصل کی، مگر امریکا کے زیر اثر دنیا نہ تو انہیں تسلیم کررہی ہے اور نہ آئی ایم ایف ان کی مدد کرنے پر تیار ہے۔ حالات یہی رہے توافغان عوام معاشی مشکلات کے باعث طالبان حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے اور یوں ایک متبادل قوت وجود میں آئے گی جو لامحالہ امریکا کی حامی ہوگی اور یوں افغان وہیں واپس جا پہنچیں گے جہاں سے ان کا سفر شروع ہوا تھا۔ چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔ پاکستان سری لنکا اور افغانستان میں یہ فارمولہ کارگر نہیں رہا۔ امریکا نے ان ملکوں سے مچھلی پکڑنے کا سامان ہی چھین لیا ہے۔ اس لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ چین کی روایتی محتاط اور سست روی کی پالیسی نے امریکا کاکام مزید آسان کر دیا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں میں چین کے قریبی اتحادیوں کی چولیں کسنے کے بعد آخری ہد ف خود چین بنے گا۔ اس وقت امریکا 20.89 ٹریلین کے ساتھ دنیا کی سب بڑی معیشت ہے جبکہ چین 14.72ٹریلین کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
اس لیے امریکا چین کو اپنا قریبی حریف سمجھ رہا ہے۔ دنیا کی 15 بڑی معیشتوں میں جاپان، جرمنی، برطانیہ، بھارت، فرانس، اٹلی، کینیڈا، جنوبی کوریا اور روس شامل ہیں۔ اس فہرست میں صرف چین اور روس ایک طرف ہیں باقی تمام مضبوط معیشتیں امریکا کی ہمنوا ہیں۔ روس کی معیشت صرف1.48ٹریلین ہے۔ روس اور چین مل کر بھی معاشی طور پر امریکا اور اس کے ہمنوائوں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ روس کو یوں بھی یوکرین میں پھنسا دیا گیا ہے۔ چین کے لیے تائیوان کا پھندہ تیار ہے۔ پاکستان او ر سر ی لنکا کے حالات کے بعد بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں سرگرم شرکت کے خواہش مند ملک سہم کر رہ گئے ہیں۔