آرٹس کونسل میں مشترکہ جلسہ‘ عدم برداشت اور جمہوری طرز عمل

233

سیاسی زندگی کی ابتداء سے سنتے آئے کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، لیکن اب ایسے اختلاف رائے کا تجربہ ہورہا ہے جس نے جمہوریت کے حسن کو گہنا دیا ہے، سماج میں عدم برداشت اور عدم رواداری نے جو جڑیں پکڑ لی ہیں اس کے باعث ہر شعبہ زندگی میں انتہا پسندی کا اظہار واضح ہوچکا ہے۔ کسی حد تک ٹریڈ یونینز میں اس کا اظہار نسبتاً کم تھا مگر معلوم ہوتا ہے سماج میں سرائیت کردہ اس مکروہ عمل نے مزدور تحریک میں گھر کرلیا ہے۔ اس کی ایک مثال یکم مئی کے پروگرام بمقام آرٹس کونسل میں نظر آئی۔ ایسا تو نہیں کہ مزدوروں کی تنظیموں میں اختلاف نہیں، اختلاف بعض اوقات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ ایک تنظیم ایک سے زائد دھڑوں میں تقسیم ہوتی رہی ہے۔ مزدور نمائندوں کے درمیان اختلاف رائے خواہ وہ نظریات کی بنیاد پر ہو یا کسی اور وجوہ پر اس کا اظہار تو ہمیشہ سے ہوتا ہی رہا ہے۔ پاکستان میں مزدور تنظیموں کی تقسیم اور مزدور رہنمائوں کے درمیان اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے تو نہیں، اکثر پروگراموں میں بھی براہ راست تنقید اور بحث و مباحثہ بھی عام طور پر نظر آتے ہیں۔ لیکن گزشتہ چند ماہ میں ملک میں سیاسی بے چینی اور سیاسی میدان میں عدم برداشت نے ایک نیا پیرائیہ متعارف کرایا ہے جس طرح سیاسی میدان میں اپنے مخالفین کی بے عزتی کرکے ذہنی اور روحانی تسکین حاصل کرنے کا چلن شروع ہوچکا ہے۔ اصل میں اسی عمل کی ایک جھلک یکم مئی کو آرٹس کونسل کے پروگرام میں کسی حد تک نظر آئی ہے اور یہ ایک بہت ہی تشویش کی بات ہے کہ جب مشترکہ پروگرام کا اختتام ایک بہت ہی ناپسندیدہ طریقہ سے ہوا ہو۔
یوم مئی کو آرٹس کونسل کے پروگرام کے اختتام پر جہاں ایک طرف شدت جذبات میں بہتے ہوئے تنقید نے جوابی وار کے لیے فضا ہموار کی اور اس کے بعد حاضرین کی ایک بڑی تعداد بھی اس شدت پسندی میں حصہ دار بن گئی۔ اس طرزِ عمل نے یہ سوال ضرور پیدا کردیا کہ کیا واقعی ٹریڈ یونینز جمہوریت کی نرسری کہلانے کی حقدار ہیں۔ کیا مزدور تنظیمیں جمہوری عمل اور جمہوری طرز زندگی کی نمائندگی کرنے میں حق بجانب ہیں؟ جو لوگ اس طرز عمل کا دفاع کرنا چاہیں گے یقینا وہ اس کے حق میں دلائل بھی لائیں گے اور اس صورت حال کا ذمہ دار بھی دوسروں کو ٹھہرائیں گے، لیکن حقیقت پسندی سے اگر کام لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک عزیز میں مزدور تحریک کے زوال پذیری میں بہت سے بیرونی عناصر تو شامل ہوں گے لیکن دراصل اس میں اندرونی کمزوریاں، خامیاں اور خاص طور پر طرز عمل نے بہت منفی کردار ادا کیا ہے۔ ہم یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے کہ پورا معاشرہ ہی بگڑا ہوا ہے اور ٹریڈ یونینز میں ان کا ہی عکس نظر آتا ہے تو پھر ہم سب اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں اور ہمیں یہ بوجھ اٹھانا ہی ہوگا۔مزدور رہنما لیاقت ساہی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے مزدور دوستی کے دعوے جھوٹے ہیں۔ وزیر محنت سندھ سعید غنی نے محکمہ محنت کو ایک آدمی کو ٹھیکہ پر دیا ہوا ہے جو سیاح و سفید کا مالک ہے۔ وزیر محنت سندھ اب مزدوروں سے ملتے بھی نہیں۔ کم از کم اجرت میں اضافہ کو پورا نہ کرواسکے۔ جس پر مزدور رہنما حبیب جنیدی طیش میں آگئے۔ حبیب جنیدی نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی مزدور دوست پارٹی ہے۔ حکومت سندھ نے دیگر صوبوں کی زیادہ مزدور مفاد میں لیبر قوانین بنائے ہیں۔ اس موقع پر سینئر مزدور رہنمائوں نے راضی نامہ کراکے دونوں کو گلے ملوادیا۔