کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری)نجی اسکولز مہنگا کورس اور یونیفارم فروخت کرکے عوام کو لوٹ رہے ہیں‘ من مانی فیسوں کی وصولی نے بھی والدین کو شدید اذیت میں مبتلا رکھا ہے‘ تعلیم کے ساتھ کھیلواڑ ہو رہا ہے ‘ مقدس شعبہ منظم کاروبار بن گیا‘ معیاری اور سستی تعلیم کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے‘نجی اسکولز مافیا نہیں ‘ عوام کو کورس اور یونیفارم کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ فنکشنل وگرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رہنما و رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی، آل سندھ پرنٹس ایسوسی ایشن کے صدر سید رضوان علی، معروف قانون دان فرحت اللہ یاسین ایڈووکیٹ ، آل پرائیوٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین سید طارق شاہ اور معروف کالم نویس عنبرین ماریہ چودھری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیانجی اسکولوں نے کاپیاں، کتابیں اور یونیفارم مافیا کی شکل اختیار کرلی ہے؟‘‘ نصرت سحر عباسی نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ پرائیویٹ اسکولز نے کراچی سمیت پورے ملک میں ایک مافیا کی شکل اختیار کر لی ہے اور ان کو لگام دینے والا کوئی نہیں ہے‘ سندھ حکومت کی اس پر کوئی توجہ ہی نہیں ہے کیوں کہ سندھ میں تعلیم کا کوئی
وزیر مستقل نہیں رہتا‘ ہر ایک دو سال میں تبدیل ہو جاتا ہے‘ اگر سندھ حکومت اور اس کے وزیر تعلیم اس جانب توجہ دیں تو یہ مسئلہ کسی حد کم ہوسکتا ہے جب سرکاری اسکول صحیح طرح سے کام نہیں کریں گے تو یہی ہوگا کہ پرائیویٹ اسکول اپنی من مانی کریں گے‘ والدین اور بچوں کو مجبور کریں گے کہ وہ کورس کی کتابیں، یونیفارم اور دیگر چیزیں ان کی بتائی ہوئی بک شاپس سے ہی خریدیں ‘ یہ پرائیویٹ اسکول کی جانب سے انتہائی غلط اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اسکول مافیا کے خلاف آنے والے سندھ اسمبلی کے سیشن میں ضرور بات کروں گی‘ اسکول مافیا کی وجہ سے والدین شدید اذیت میں مبتلا ہیں‘ جو نئی کتابیں مہنگی قیمت پر خرید رہے ہوتے ہیں‘ ان کتابوں کے کاغذ اتنے خراب ہوتے ہیں کہ بچہ ایک سال اس کتاب کو ٹھیک طرح سے پڑھ بھی نہیں پاتا ہے کہ اس کے اندرونی صفحے نکلنا شروع ہو جاتے ہے جس کی وجہ سے بچوں کو بعض کتابیں ایک سال میں دو بارہ خریدنی پڑتی ہیں‘ تمام پرائیویٹ اسکولز کو خود سوچنا چاہیے کہ وہ تعلیم کے ساتھ کیا کھیلواڑ کررہے ہیں۔سید رضوان علی نے کہا کہ ہر سال یہی ہوتا ہے کہ اسکولز مافیا بچوں کو کورس کی کاپیاں،کتابیں اور یونیفارم سمیت دیگر اسکول میں استعمال ہونے والی چیزوں کو اسکول سے ہی خریدنے کو کہتا ہے‘ صرف ایک کاغذی کارروائی پوری کرنے کے لیے ہر سال ڈائریکٹر یڈ کی جانب سے ایک نوٹی فکیشن نکال دیا جاتا ہے کہ کوئی اسکول والدین پر زور نہیں دے گا کہ اسی اسکول سے کورس خریدا جائے یا پھر کسی مخصوص دکان سے خریدا جائے‘ والدین اور بچوں کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ کہیں سے بھی کورس اور یونیفارم خرید سکیں‘ اسکول ایک کاروباری شکل اختیار کر گیا ہے‘ تعلیم دینے کو ایک مقدس پیشہ سمجھا جاتاہے لیکن یہ مقدس پیشہ پتا نہیں کہا غائب ہوگیا ہے‘ اس کے علاوہ پرائیویٹ اسکول کے حوالے سے جو بھی قوانین بنائے گئے ہیں ان کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں‘ سندھ ہائی کورٹ اور عدالت عظمیٰ کے احکامات پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے ۔فرحت اللہ یاسین نے کہا کہ پرائیویٹ اسکولوںکی بھرمار دیکھ کر لگتا ہے کہ اسکول کھولنا بہت آسان ہے لیکن ایسا نہیں ہے، اس کے لیے قانون موجود ہے‘ جس کے مطابق اسکول میں کم سے کم 12 کلاس رومز، لائبریری، کمپیوٹر اور سائنس لیب ہونا چاہیے جبکہ دوسری سہولیات میں واش رومز، پلے گراؤنڈ اور صاف پانی کی فراہمی بھی ضروری ہے‘ تعلیم کا کاروبار زوروں پر ہے‘ اس لیے ملک خاص طور پر سندھ میں نجی اسکول کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے‘ صوبے بھر میں اس وقت پرائیوٹ اسکولوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہیں اور ان میں سے کچھ قانونی اور کچھ غیر قانونی ہیں‘ پرائیویٹ اسکولز مافیا من مانی فیسیں وصول کر رہا ہے جس سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے والدین شدید ذہنی دباؤ کا شکارہیں‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جائے‘ امیر اور غریب کے بچوں کے لیے یکساں اصول مقرر ہوں کیونکہ بچوں کو معیاری اور سستی تعلیم کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے شعبہ تعلیم ہمیشہ سے زوال کا شکار رہا ہے‘ اسکولوں کا طلبہ کو مخصوص بک شاپس سے کورس اور یونیفارم کی خریداری کے لیے پابند کرنا قانونی طور پر جرم ہے جس پر جرمانہ عاید کیا جاسکتا ہے۔سید طارق شاہ نے کہا کہ کراچی کا کوئی اسکول بھی مافیا کردار ادا نہیں کر رہا ہے‘ اسکول میں بچوں کو سہولت فراہم کی جاتی ہے‘ جہاں انہیں تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی ضروریات کی چیزیں ون ونڈو آپریشن کے تحت ایک جگہ پر ہی فراہم کردی جاتی ہیں تاکہ بچوں اور ان کے والدین کو کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے‘ زیادہ تر ہم نے یہی دیکھا ہے کہ اگر والدین کو اسکول کی جانب سے کورس یا دیگر چیزوں کی لسٹ فراہم کی جاتی ہے تو وہ اسے خریدنے میں ایک سے ڈیڑھ ماہ لگا دیتے ہیں‘ ان وجوہات کی بنا پر تمام اسکولوں نے ون ونڈو آپریشن کے تحت یہ سہولت فراہم کی ہے تاکہ والدین آسانی کے ساتھ کورس کی کتابیں اور یونیفارم سمیت تمام چیزیں اسکول سے خرید سکیں‘ ڈائریکٹریٹ اسکول کے احکامات کے مطابق ہم نے بچوں اور والدین سے زبردستی نہیں کی کہ وہ کسی مخصوص جگہ سے ہی خریداری کریں ‘ ان کی اپنی مرضی ہے کہ وہ جہاں سے چاہیں خریداری کریں‘ مارکیٹ قیمت پر ہی کورس اور یونیفارم فراہم کرتے ہیں تاکہ بچوں اور والدین کو سہولت ملے جس طرح سے مہنگائی کا اثر تمام چیزوں پر ہوا اسی طرح سے اسکول کی کتابوں، کاپیوں اور یونیفارم پر بھی اثر پڑا ہے ۔عنبرین ماریہ چودھری کا کہنا ہے کہ کراچی کے بیشتر پرائیویٹ اسکول مافیا بن چکے ہیں‘ عوام کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں‘ ہر اسکول یونیفارم، کاپیوں اور کتابوں کو از خود مہنگے داموں فروخت کرتا ہے اور تمام نجی تعلیمی ادارے ایسے یونیفارم، کاپیاں اور کتابیں تیار کراتے ہیں جو مارکیٹ میں دستیاب نہ ہوں اور مجبوراً طلبہ کو اسکول سے یہ اشیا مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہیں‘ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ وطنِ عزیز میں شعبہ تعلیم ایک منظم کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے‘ مختلف ادوار میں حکومتی سطح پر تعلیمی شعبے سے برتی جانے والی غفلت سے سرکاری اسکولوں کا معیار پست ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں پرائیویٹ اسکولوں کی ایسی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے کہ اب نجی اسکول انتظامیہ کی طرف سے من مانی فیسوں کی وصولی، کتابیں اور یونیفارم مہنگے داموں فروخت کرنے کی شکایات عام ہوگئی ہیں‘ حکومت کو اس طرح کی حرکتوں پر پابندی عاید کرنی چاہیے۔