سود کا خاتمہ اور وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ

756

جہاں وطن عزیز میں سرمایہ دارانہ نظام، سیکولرزم کی جڑیں مضبوط ہورہی ہوں، وہاں ٹھنڈی اور معطر ہوا کا جھونکا پاس سے گزرا تو ایسے لگا جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آئی ہو۔ آخر کار جماعت اسلامی کی محنت رنگ لائی سود کی حرمت سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ 19سال بعد سنا دیا گیا، کیونکہ سود کے بارے میں قرآن پاک اور احادیث سے بڑی سخت وعید ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو لوگ سود کھاتے ہیں، ان کا حال اس شخص جیسے ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھوکر خبطی بنادیا ہو اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں، تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے۔ حالاں کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ اے ایمان والو، اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مومن ہوتو جو سود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑدو اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے اور اگر توبہ کرلو تو تم اپنے اصل سرمائے کے حق دار ہو، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔ (سورہ البقرہ)
نبی اکرمؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: (آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں، وہ ہمارے چچا سیدنا عباسؓ کا سود ہے، وہ سب کا سب ختم کردیا گیا ہے، (چوں کہ سیدنا عباسؓ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے) اس لیے آپؐ نے فرمایا کہ: ’’آج کے دن میں اْن کا سود جو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے، وہ ختم کرتا ہوں‘‘۔ (مسلم ) سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہؐ نے فرمایا: ربا کے ستر اجزا ہیں۔ جن میں سے سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے۔ (مشکوۃ) اور یہ وطن عزیز اسلام کے بعد بننے والی دوسری اسلامی ریاست ہے اس لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948 میں اسٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہمارے معاشی ماہرین سود سے پاک اسلامی معاشی نظام کے لیے کام کریں کیونکہ مغرب کا نظام ناکام ہے‘‘۔
وفاقی شرعی عدالت کی حکومت کو سودی نظام ختم کرنے کے لیے پانچ سال کی مہلت دی گئی ہے۔ 19 برس بعد جاری فیصلے کے مطابق خلاف شریعت قرار دیے گئے تمام قوانین یکم جون 2022 سے ختم ہو جائیں گے۔ وفاقی شرعی عدالت نے وفاقی حکومت کو پانچ سال کے عرصے میں سود کے مکمل خاتمے اور سود سے پاک بینکاری نظام نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت پاکستان کی ایک آئینی عدالت ہے جو ملکی قوانین کا اسلامی شریعت کے مطابق ہونے کا تعین کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے 19سال بعد سود کے نظام کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سنا دیا جو جماعت اسلامی کی جہد مسلسل کا نتیجہ ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے سود کے بارے میں سہولت کاری کرنے والی تمام قوانین اور شقوں کو غیر شرعی قرار دے دیا۔ خلاف شریعت قرار دیے گئے تمام قوانین پاکستان میں یکم جون 2022 سے ختم ہو جائیں گے۔ عدالت نے فیصلے میں پانچ سال میں 31 دسمبر 2027 تک تمام قوانین کو اسلامی اور سود سے پاک اصولوں میں ڈھالنے کا حکم دیا۔ شرعی عدالت نے انٹرسٹ ایکٹ 1839 اور یکم جون 2022 سے سود سے متعلق تمام شقوں کو غیر شرعی قرار دے دیا۔ شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمے داری ہے۔ ملک سے ’’ربا‘‘ کا ہر صورت میں خاتمہ کرنا ہو گا۔ وطن عزیزمیں ربا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ شرعی عدالت کے جسٹس سید محمد انور نے فیصلے میں کہا ہے کہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ 2 دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت نے پاکستان میں سود پر پابندی لگائی ہے جو پہلے سے آئین کا تقاضا تھا۔ سراج الحق نے بتایا کہ وفاقی شرعی عدالت نے 1991 میں بھی اس پابندی کا فیصلہ دیا تھا لیکن اس وقت کی وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ جا کر شرعی عدالت کے فیصلے پر حکم امتناع لے لیا تھا۔ آج شرعی عدالت کے ججوں نے سود کے خلاف متفقہ فیصلہ دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ فیصلے میں حکومت کو تمام قوانین کو بہتر بنانے کے لیے پانچ سال دیے گئے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں ایسا جلد سے جلد کیا جائے۔
عدالت عالیہ کے فیصلہ میں اہم بات یہ ہے کہ پانچ سال کے اندر تمام شعبوں میں ہر طرح سے سود کو ختم کیا جائے گا۔ سود کا متبادل نظام تجویز کیا جائے گا جس میں درج ذیل نقاط اہمیت کے حامل ہیں:- وطن عزیز میں سرمایہ دارانہ نظام کی جڑیں کافی گہری ہوچکی ہیں، سود کے خاتمے کے ساتھ اسلامی معاشی نظام کو نافذ العمل کرنے کی جدوجہد کا آغاز بھی ضروری ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ پانچ سال بعد جب سودی نظام نافذ العمل ہو گا تو کیا غربت ختم ہو جائے گی؟ اسٹیٹ بینک کا کردار کیا ہوگا، مانیٹری پالیسی کس طرح مرتب کی جائے گی، کائیبور کا متبادل کیا ہوگا، نئے نوٹ جاری کرنے کا پیمانہ کیا ہوگا؟ پاکستان میں موجودہ اسلامک بینکنگ سسٹم ہی متبادل نظام کے طور پر لیا جائے گا۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو موجودہ اسلامک بینکنگ سسٹم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ میری یہ رائے ہے پانچ سال بعد پاکستان کے تمام بینک موجودہ اسلامک بینکنگ سسٹم میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس وقت ہمارا ملک 51ٹریلین روپے کا مقروض ہے جس میں ملکی اور غیر ملکی ادارے شامل ہیں ان اداروں کو غیر سودی نظام میں سود کی ادائیگی کس طرح ہوگی؟ اسٹاک مارکیٹ انڈیکس دوبارہ سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے مارجن، فیوچر فائنانسنگ اور شارٹ سیلنگ کو ختم کرتے ہوے متبادل نظام پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ منصوبوں کے لیے ہم ایشین ڈویلپمنٹ بینک، ورلڈ بینک سے قرض لیتے ہیں جن سے منصوبے مکمل ہوتے ہیں۔ کیا ہم قرض کی جگہ پر ایکوئٹی سے منصوبوں کو مکمل کریں گے۔ اگر ہم اگلے پانچ سال تک اسی طرح بیل آؤٹ پیکیج، آئی ایم ایف سے لیتے رہے تو کافی امید ہے ملک دیوالیہ ہو جائے گا، اگر ملک دیوالیہ نہیں ہوتا سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے ملک کی معیشت اتنی مضبوط ہو جائے گی جس سے ہمیں قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، اگر قرض لینا پڑے گا تو اس پر سود کا متبادل کیا ہوگا۔ اس لیے سود سے بچنے کے لیے اگلے پانچ سال میں معیشت کا مضبوط ہونا ضروری ہے؟ اس فیصلے کو سیاسی محاذ پر جماعت اسلامی کو لڑنا پڑے گا ورنہ پچھلے فیصلے میں ڈھائی سال کی مہلت دی گئی تھی تاہم اب 30 سال گزر چکے ہیں، اب بھی لگتا ایسا ہے کہ اس میں توسیع لیتے رہیں گے۔ اگر کام کرنے کی نیت ہو تو 5 سال میں پورے نظام کو غیر سودی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر سہولت کے ساتھ بھی کرنا ہے تو سالانہ 25 فی صد کا ٹارگٹ مقرر کیا جائے، 4 سال میں شفٹ ہوجائیں گے، پھر بھی ایک سال ہوگا جس میں اس دوران کوئی کمی بیشی ہوگی وہ پوری ہوجائے گی۔