چین پاکستان دوستی پر ایک اور وار

337

کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں چینی اساتذہ کی گاڑی پر خود کش حملے میں تین چینی باشندے اور ان کا مقامی ڈرائیور ہلاک ہوئے۔ اس حملے کی ذمے داری بلوچ شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ بلوچ شدت پسندوں کی طرف سے یہ چینی ہدف پر پہلا حملہ نہیں مگر اس حملے کی خاص بات یہ ہے کہ حملہ شاری بلوچ نامی ایک خاتون نے کیا۔ اس حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آگئی جس میں ایک خاتون گیٹ پرکھڑی اپنے ہدف کا انتظار کررہی ہے اور جونہی ایک وین گیٹ کی طرف مڑتی ہے خاتون آگے کو ہو کر خود کو دھماکے سے اُڑادیتی ہے۔ یہ شادی شدہ اور تعلیم یافتہ بلوچ خاتون تھی جو زولوجی میں ماسٹرز کے بعد سرکاری نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ ایم فل کی طالبہ اور دو بچوں کی ماں بھی تھی۔ خاتون کا شوہر دانتوں کا ڈاکٹر اور اس کے والدین بھی کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ اس کارروائی کے بعد بلوچ خاتون کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں اور بی ایل اے نے اس کا تعلق مجید بریگیڈ سے بتایا گیا۔ واقعے کے بعد چٹیل پہاڑوں پر کچھ نقاب پوش مسلح افراد کی ایک وڈیو بھی سامنے آئی جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس اس طرح کی اور بہت سی فدائی خواتین موجود ہیں۔ اس وڈیو میں چین کو صاف طور پر کہا گیا کہ وہ سی پیک کا منصوبہ چھوڑ کر چلا جائے بصورت دیگر اس کے اہداف کو نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ بلوچ علٰیحدگی پسندوں کی تحریک میں یہ کسی خاتون کے استعمال کا پہلا واقعہ ہے۔ بلکہ اس خطے میں جاری خالصتان تحریک، افغان مزاحمت کے دو ادوار اور کشمیر کی مسلح مزاحمت، ناگا اور آسامی باغیوں سمیت کئی مقامات پر خودکش حملے ہوتے رہے مگر کہیں بھی خواتین خود کش کی صورت میں سامنے نہیں آئیں۔ اگر کہیں ایسی کوشش ہوئی بھی تو وہ ایک رواج اور تسلسل نہ بن سکی۔
اسی اور نوے کی دہائی میں سری لنکا میں تامل ٹائیگرز نے خواتین کو بطور خود کش حملہ آور استعمال کیا اور ایک خاتون ہی کے حملے میں بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی بھی اس وقت ہلاک ہوئے تھے جب ایک تامل خاتون نے انہیں گلدستہ پیش کیا اور گلدستہ پکڑتے ہی دھماکا ہوا اور راجیو گاندھی اور خود کش حملہ آور سمیت کئی افراد مارے گئے۔ بلوچ علٰیحدگی پسند تحریک میں خواتین کو خود کش حملوں کے لیے استعمال کرنے کا رجحان نئے اور خطرناک حالات کی نشاندہی کر رہا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے بلوچ تحریک کو ایک جدید اور تباہ کن انداز سے آگے بڑھائے جانے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ یہ داعش سے بھی زیادہ خطرناک انداز ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی طاقت نے اس خطے کو اپنے نشانے پر رکھا ہے۔ اس صورت حال کا توڑ کرنے کے لیے پاکستان جوابی اور دفاعی حکمت عملی اختیار کرتا ہے تو اس میں بہت سی بے تدبیریاں اور غلطیاں ہونا یقینی ہے۔ مسنگ پرسنز سمیت بہت سے مسائل ایسی پرت در پرت مسلح تحریکوں میں جنم لینا فطری ہوتا ہے۔ جب کوئی ریاست کسی شورش کو کچلنے کی کوشش کرتی ہے تو پھر وہ حالات کی دلدل میں دھنسنے لگتی ہے۔ مخالف کی کوشش ہوتی ہے کہ فوج اس دلدل میں دھنس جائے۔ اس کے وسائل برمودہ تکون کی نذر ہوتے رہیں۔ اس کی سخت گیری کے باعث مقامی آبادی اس سے دور ہوتی چلی جائے۔ یوں تنازعے کی ایک مقامی جہت بھی وجود میں آتی ہے۔ مقامی لوگوں کا غصہ اور ناراضی بیرونی طاقت کے لیے خام مال اور بارود کا کام دیتا ہے۔ اندرونی اور بیرونی پرتیں مل کر معاملات کو سنگین اور پیچیدہ بناتی ہیں۔ بلوچستان میں یہی کچھ ہورہا ہے۔
امریکا سی پیک کو روکنے اور چین کو محدود کرنے کے لیے بلوچستان کی مسلح مزاحمت کا اعلانیہ سرپرست ہے۔ بلوچ علٰیحدگی پسند یورپ کے عشرت کدوں میں بیٹھ کر دہشت گرد کارروائیوں کی نگرانی اور حمایت کرتے ہیں۔ یہ وہ مغربی اور یورپی ممالک ہیں جو ہر قسم کی عسکریت اور مسلح مزاحمت کو دہشت گردی سے بریکٹ کرچکے ہیں۔ اس لیے اقوام متحدہ کے قوانین اور قراردادوں کا استعمال کرکے ایسی تحریکوں کا گلہ گھونٹ چکے ہیں مگر حیرت ہے کہ بلوچستان میں مسلح کارروائیوں کے اعلانیہ سرپرست ان طاقتوں کے مہمان بنے بیٹھے ہیں۔ چین امریکا کی ریڈلائن ہے اور امریکا ہر قیمت پر چین کو بین الاقوامی منظر سے واپس تیس برس پہلے کی طرح اپنے جامے میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو لپیٹنے کا خواہش مند ہے۔ پاکستان چونکہ چین کا قریبی اتحادی اور اس کے منصوبوں کا شریک ہے اس لیے امریکا اور مغرب کے ردعمل کا ملبہ بھی دوسرے ملکوں کے بجائے پاکستان پر زیادہ گرتا ہے۔ چین اور پاکستان کا تعلق تو امریکا کو کھٹکتا ہی تھا اب روس کے ساتھ پاکستان کی قربت کی کوشش کو مغرب نے اپنے نئے درد سر کے طور پر دیکھا ہے۔ پہلے پاکستان صرف اسٹرٹیجک لحاظ سے عالمی کشمکش کا شکار تھا اب یہ دائرہ سیاست تک وسیع ہوگیا اور پاکستان کی سیاست امریکا حمایت اور مخالفت میں بٹتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ چین کی ٹھنڈی ٹھار پالیسی کے برعکس روس کی گرما گرم پالیسی کے تحت پاکستان کے حالیہ سیاسی اتھل پتھل پر کھل کر بات کی گئی۔ امریکا بھی اس معاملے میں صاف چھپتا بھی نہیں سامنے آتا بھی نہیں کی پالیسی اپنا کر چلمن سے لگا بیٹھا ہے۔