آزادی اور قرآن

408

اس کرئہ ارض پر مختلف اور متعدد اقوام وملل آباد ہیں۔ کب سے آباد ہیں، یہ کوئی صحیح نہیں جانتا، کب تک آبادیاں قائم رہیں گی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فیصلہ ٔ غیب کیا ہے۔ ان اقوام و مِلل کی بہرحال ایک تاریخ ہے۔ یہ انسانی تاریخ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اگر یہ دیا جائے تو بجا ہوگا اور درست کہ اقوام ومِلل نے اپنے ہر دور میں اور پورے تسلسل کے ساتھ اپنی آزادی اور اپنی حریت فکر کے لیے جو جدوجہد کی ہے ہر انسانی تاریخ اْس کی ایک داستانِ مسلسل ہے۔ انسانی تاریخ کے آپ کسی بھی دَور میں چلے جائیے، یہ دَور غاروں کا دَور ہو یا جھونپڑیوں یا محلّات کا۔ کاغذ کا دَور ہو یا دھاتوں یا پتھروں کا، آپ دیکھیں گے کہ ہر دَور میں انسانی تمدن کے انداز بدلے ہیں۔ ثقافت کے نقشے نئے نئے قائم ہوئے ہیں۔ افکار و حوادث کے لیے نئے رنگ قائم ہوئے ہیں۔ خیالات میں انقلابات آئے ہیں، اس کے باوجود تاریخِ انسانی کے ہر دَور میں ایک قدرِ مشترک ہر قوم و ملت میں رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ تضادات و اختلافات کے باوجود اور تنوع کے باوصف انسانی شعور نے جب سے آنکھ کھولی ہے، اس نے ہمیشہ اور ہرحال میں اور ہمہ وقت آزادی کی ستایش کی ہے اور اپنی آزادی کو قائم اور باقی رکھنے کی جہد ِ مسلسل اور سعی ِ کامل کی ہے۔ اِسی جْہدِ مسلسل اور سعی ِ کامل کا نام تاریخ ِ انسانی ہے۔
ہندْستان میں جب تحریک آزادی نے جنم لیا اور برطانوی استعمار کے خلاف اہلِ وطن جب صف آرا ہوئے تو اْس وقت تحریک ِ آزادی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ برطانوی استعمار اور انگریز کی طاقت کو پاش پاش کردیا جائے اور اْس کی جگہ اپنی حکومت قائم کی جائے۔ اس تحریک میں برصغیر کی تمام قومیں (امتیاز کے بغیر) شریک تھیں۔ اس موقع پر شاعرِ مشرق، حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کی راہ نمائی قرآن کی روشنی میں کی۔ علامہ اقبالؒ نے مغرب کے جمہوری نظام کو اسلام کے خلاف سازش قرار دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ مغرب کا جمہوری نظام استبدادِ ملوکیت کی ایک نقاب پوش شکل ہے، اس میں نوعِ انسانی کبھی آزادی سے ہم کنار نہیں ہوسکتی۔ دوسرے یہ کہ یہ مغربی اندازِ فکر اور مغربی نظامِ جمہوریت اسلام کی ضد ہے، اس لیے اس میں مسلمان کو وہ آزادی میسر نہیں آسکتی کہ جو اْسے اسلام عطا کرتا ہے۔ اس مغربی نظامِ جمہوریت اور اشتراکیت نے یہ آوازہ بلند کیا کہ اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں، اْنھی کو حق ِ حکومت پہنچتا ہے، مگر قرآن کریم اِس مفروضے کو باطل قرار دیتا ہے۔ قرآن کے نزدیک کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کو اپنا محکوم بنائے۔ اس صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حق ِ حکومت اگر کسی انسان کو حاصل نہیں ہے تو پھر یہ حق کسے حاصل ہے؟ قرآن انسانوں کی تمدنی زندگی کے لیے نظامِ حکومت ضروری قرار دیتا ہے۔ اْس کا کہنا یہ ہے کہ حکومت کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے: (ترجمہ: آیت ۵۷، الانعام)
وہ اپنے حق ِ حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (ترجمہ:آیت ۲۶، الکہف)
اس اساس اور اس بنا پر اْس نے حکم دیا ہے کہ اْس کے سوا کِسی کی محکومیت اختیار نہ کی جائے۔ (ترجمہ: آیت ۴۰، یوسف)
یہی مْحکم نظامِ حیات ہے، لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے اور انسانی حکومتوں کی ہیئت بدل کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہم نے غلامی کی زنجیریں کاٹ دی ہیں اور آزادی کا سانس لے لیا ہے۔
قرآن واضح الفاظ میں اور ذرّہ برابر ابہام کے بغیر کہتا ہے کہ حکومت اللہ کی کتاب یعنی قرآنِ حکیم کے ذریعے سے قائم ہوگی، جس میں کسی انسان کو دخل نہ ہوگا، کیوں کہ اللہ اپنے اختیارات کسی کو تفویض نہیں کرتا۔اس حقیقت کی توضیح و تشریح کے لیے زبانِ نبی کریم ؐ سے کہلوایا: ’’کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور حاکم کی طلب و جستجو کرو، حالانکہ اْس نے اپنی کتاب نازل کردی ہے کہ جو مفصل ہے‘‘۔ (ترجمہ: آیت ۱۱۴، الانعام)
برصغیر کے مسلمان تحریک آزادی میں شریک ہوئے اور اس جدوجہد آزادی میں اس نظریہ اساس کے ساتھ مستعد و متحرک ہوئے کہ وہ پاکستان قائم کریں گے، جہاں قرآن کی حکومت ہوگی اور اللہ کا قانون نافذ ہوگا۔ اْن کے پاس جذبۂ صادق تھا۔ یہ اْن کا ایمانِ کامل تھا اور اْن کا یقین محکم کہ دنیا کی ہر بڑی طاقت مسلمانان برصغیر کے جوشِ ایمانی کے سامنے زیر ہوگئی اور غیر ملکی استعمار نے ہار مان لی۔
یہ عجیب اور حیرت انگیز حقیقت ہے اور کرشمۂ الٰہی کہ پاکستان ٹھیک اْس دن عالم وجود میں آیا اور منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا کہ جس دن ۲۷؍ رمضان المبارک تھا۔ بے شک یہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔ یہ نظامِ الٰہی تھا کہ پاکستان ایسے دن قائم ہوا کہ جو تمام عالم اسلام کے نزدیک مبارک و متبرک ہے اور جس کی عظمت و تقدیس میں پْورا عالم اسلام متفق ہے۔ درحقیقت اللہ کا یہ بڑا اہم فیصلہ تھا، کیوں کہ منشاے الٰہی یہی تھا کہ پاکستان قائم ہو اور اْس میں حکومت ِ قرآن قائم ہو۔
۲۷۔ رمضان یوم نزول قرآن ہے۔ اس یوم مبارک کے بارے میں قول فیصل ہے اور حرف ِ آخر کہ اسلام اور عالمِ اسلام کے لیے یہ تاریخ ساز دن ہے۔ اس دن قرآن کریم نازل ہوا اور اس لیے نازل ہوا کہ ا س کرئہ ارض کی ہر تاریکی کو روشنی سے منور کردے اور ہر باطل کو مٹاکر حق کو قائم کردے اور اس کرئہ ارض پر اللہ کے قانون کی حکمرانی ہو۔ اس باب میں قرآن کے احکامات واضح ہیں اور بین۔ سورئہ مائدہ میں ارشادِ ربانی ہے:
’’جو لوگ کتاب اللہ کے مطابق حکومت قائم نہیں کرتے وہی کافر ہیں‘‘۔ (آیت ۴۴، المائدہ)
اور اس کے ساتھ ہی رسول اللہ سے فرمایاگیا: ’’ان میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کرو‘‘۔ (آیت ۴۹، المائدہ)
قرآن کریم میں اللہ کے سِوا ہر طاقت کو طاغْوت کہا گیا ہے اور کفر اور ایمان کے اس فرق کو اِ ن الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے: ’’جو اللہ پر ایمان لایا اور اْس نے طاغوت کا انکار کیا تو اْس نے ایسا محکم سررشتہ تھام لیا جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتا‘‘۔ (آیت ۲۵۶، البقرہ)
اس ارشادِ باری تعالیٰ کی روشنی میں یہ غور کرنا چاہیے کہ وہ لوگ کہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ کتاب اللہ پر ایمان لائے، لیکن عملاً اْن کا حال یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ: ’’اپنے مسائل ومْعاملات کے فیصلے طاغوت سے کرائیں، حالانکہ انہیں حکم دیا گیا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں‘‘۔ (آیت ۶۰، النسا)
ایسے لوگ صحیح راہ پر نہیں ہیں۔ وہ ایک سانس میں اللہ کے قانون کی بات کرتے ہیں، مگر دوسرے میں اْس کی نفی کرتے ہیں۔ اْن کا قلب و ایمان متزلزل ہے، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ: ’’اللہ کے کلمات (قوانینِ الٰہی) صدق و عدل کے ساتھ مکمل ہوگئے۔ یہ قوانین غیر متبدل ہیں‘‘۔ (آیت ۱۱۵، الانعام)