آئی ایم ایف کی غلامی سے آزادی کا سفر

655

دوسرا حصہ
گزشتہ حکومت نے اپنی عیاشی اور کرپشن کے لیے پاکستان کو عالمی صہیونی اداروں کا مقروض بنا کر ہماری گردنوں میں آئی ایم ایف کی غلامی کا پھندا ڈالا، آئی ایم ایف کے قرضے کی قسطیں ادا کرنے کے لیے اسی سے مزید قرض حاصل کیا جارہا ہے، حکمران اپنی آسائشیں اور عیش و عشرت کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، اخراجات پورے کرنے کے لیے ملک کے مستقبل کو تباہ کیا جارہا ہے، سود پر حاصل کیا گیا قرض ایسا شیطانی چکر ہے جس سے نکلنا ناممکن نہیں تو انتہائی دشوار ہوگا، پاکستان کو آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اور آزادی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے درج ذیل تجاویز پر عمل پیرا ہو کر معیشت کو بہتر کرنا ہوگا:-
معاشی بحران کی وجہ سود ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے سب سے پہلا قدم غیر سودی معیشت کا آغاز ہوگا تب ہم غلامی سے باہر نکل سکیں گے۔
ٹیکس فری زونز کا قیام معاشی ترقی اور بیروزگاری، غربت، مہنگائی کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ملکی آمدنی میں اضافہ سود سے چھٹکارے کا سبب بنے گی۔ یہ زونز اس طرح ترتیب دیے جائیں جیسے وہاڑی، بوریوالہ کے قریب ٹیکسٹائل انڈسٹری لگانے سے خام مال اور لیبر سستی ملے گی، کیونکہ پاکستان میں سب سے زیادہ کپاس اسی علاقہ میں ہوتی ہے۔ سیمنٹ انڈسٹری کے لیے خام مال ٹیکسلا میں کے مقام پر مل سکتا ہے۔ بچوں کے کھانے والی مصنوعات جیسے چپس آلو سے بنتی ہے آلو اوکاڑہ ضلع میں سستا اور اچھا میسر ہیں۔ اسی طرح آم کی فصل جنوبی پنجاب اور سندھ میں زیادہ ہوتی ہے وہاں مینگو جوس فیکٹریز لگائی جاسکتی ہیں ان علاقوں میں ایف بی آر کو ٹیکس کی 10 سال کے لیے چھوٹ دینی چاہیے۔
پاکستان میں فوری طور پر غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرتے ہوئے وزیراعظم ہائوس، ایوانِ صدر میں سادگی اختیار کرنی ہوگی۔ پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ پاکستان میں تقریباً 5ہزار ارب کی سالانہ کرپشن ہوتی ہے۔ اگر ایف بی آر، کسٹم، پی آر اے کے افسران بالا اور پارلیمنٹیرینز کرپشن چھوڑ دیں تو پاکستان کا سالانہ ریوینیو 300فی صد بڑھ جائے گا جس سے غربت ختم ہو گی اور قرض بھی ادا ہو جائے گا۔ معاشی ترقی کے لیے اشیاء پیداوار کا سستا ہونا ضروری ہے تاکہ عالمی منڈی میں فروخت ہوسکے اس کے لیے ضروری ہے بجلی گیس کی قیمتیں کم ہوں لیکن پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتیں زیادہ ہیں اس کا حل پاکستان میں ہنگامہ بنیادوں پر ہائیڈرو پاور پروجکٹس کی تعمیر مکمل ہو تاکہ تھرمل پاور پلانٹ سے بجلی کی پیداوار کا استعمال کم ہو اور بجلی سستی، کم پیداوار اشیاء سے ہماری برآمدات میں اضافہ ہوگا اور ملک ترقی کرے گا۔
پاکستان ایک زراعی ملک ہے لیکن اس شعبے کو توجہ کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا کل رقبہ 79.6 ملین ایکڑ ہے، جس میں سے 23.7 ملین ایکڑ، زراعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28فی صد بنتا ہے۔ اس میں سے بھی 8ملین ایکڑ رقبہ زیرِ کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے، جس کی اصل وجہ پانی کی فراہمی کا نہ ہونا ہے۔ اور اس شعبے سے برآمدات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اچھا بیج، کھاد کی فراہمی، کسانوں کو فصل کی بہتری کے لیے مشورے فراہم کرنا، نئے نئے طریقے سے متعارف کروانا جیسے آسٹریلیا، امریکا اور ایسے ممالک میں رائج ہیں جہاں فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے تین سو فی صد زیادہ ہوتی ہے ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی میں پاکستان زرعی شعبے کا نیٹ ایکسپورٹر تھا یعنی درآمد سے زیادہ برآمد کیا کرتا تھا لیکن ملک آج اس شعبے میں مجموعی طور پر خسارے کا شکار ہے اور ہمیں ساڑھے تین ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ سال قبل پاکستان نے ایک کروڑ چالیس لاکھ کاٹن بیلز پیدا کی تھیں جو اس وقت انڈیا کی پیداوار سے بھی زیادہ تھی تاہم اس کے بعد اس کی پیداوار میں مسلسل تنزلی دیکھنے میں آئی اور آج حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پاکستان بمشکل 70 لاکھ کاٹن بیلز کی پیداوار حاصل کرنے کے قابل ہوا ہے۔ گندم بیس سال پہلے درآمد کی گئی تھی اور جب پاکستان اس کی پیداوار میں خود کفیل ہو گیا تو یہ سلسلہ روک دیا گیا اور مقامی پیداوار ضرورت کے لیے کافی رہی تاہم اب گندم کی درآمد کرنی پڑ گئی تاکہ مقامی طور پر ضرورت کو پورا کرنے کے علاوہ قیمتوں کو بھی مستحکم کیا جا سکے۔ ہماری کپاس کی 10لاکھ بیلوں کی قیمت 1 ارب ڈالر ہے جبکہ چائنا اتنی ہی بیلوں کی قیمت 4 ارب ڈالر وصول کرتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان کی مصنوعات میں اضافی قدر شامل ہوتی ہے۔ اگر ہم 10لاکھ بیلوں کی قیمت 4 ارب ڈالر مقرر کریں تو ہم صرف ٹیکسٹائل کے شعبہ میں 140 لاکھ بیلوں سے اضافی قدر کی مد میں 45 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ صنعتوں کو سبسڈی مہیا کرے تاکہ یہ اپنی مصنوعات میں اضافی قدر شامل کر رہے ہیں۔ جس سے درآمدات کے بجائے برآمدات اور اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہو یہ شعبہ ملکی ترقی کا سبب بنے گا۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آگیون اور دیگر کا حالیہ کام یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی ملک میں جو متعلقہ معاشرے کی طویل مدتی معاشی نمو کے لیے جدت کی ضرورت ہے۔ دوسرے الفاظ میں طویل مدتی معاشی نمو اور ترقی کی شرح میں زیادہ اضافہ کسی بھی ملک کی جدت پر منحصر ہے۔ تو جب بھی ہم برآمداتی نظام میں تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں ہم اصل میں ملک میں جدت کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ جدت کے لیے ریسرچ اور ملک کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اپنے نظام تعلیم میں تبدیلی لائی جائے تاکہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی فکری سوچ کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکے۔ فکری سوچ کی تبدیلی کے لیے جب تک اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں کی ازسرنو تشکیل نہیں کی جاتی پاکستان کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جا سکتا۔
جنگلات میں اضافہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں جنگل بانی لکڑی، کاغذ اور طب جیسے دیگر اہم اشیاء کا ذریعہ ہے۔ پاکستان کے کْل رقبے کا صرف 4 فی صد جنگلات ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف اکنامک ڈیولپمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں درختوں کی بے دریغ کٹائی سے سالانہ 27ہزار ہیکٹر سے زائد اراضی بنجر ہو رہی ہے جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ 30سے 40سال تک پاکستان مکمل طور پر بنجر ہوجائے گا، اس لیے ماحولیات کو بہتر کرنے اور ملکی آمدن میں اضافہ کے لیے جنگلات کا وسیع ہونا ضروری ہے۔
معاشی ترقی کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے پاکستانی معیشت میں اصلاحات معاشی اور سیاسی حلقوں کو اعتماد میں لے کر کی جانی چاہیئں۔ پالیسیوں کی سمت کا تعین کرنے اور اس میں اصلاحات کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے ایک ایجنڈا تشکیل دیا جائے جس پر سب متفق ہوں۔ یہ معیشت کی بحالی اور عوام کی فلاح کے لیے نہایت ضروری ہے مثلاً نظامِ ٹیکس میں اصلاحات حکومتی جماعت سے قطع نظر نہیں ہونی چاہئیں۔
کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم کرنا ہوگا، غیرضروری چیزوں کی درآمد بند کرنے سے مجموعی طور پر 10 سے 11 ارب ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ دنیا سے ادھار لے کر ہم مہنگی گاڑیاں، کاسمیٹکس، کھانے پینے کی اشیاء جن میں پانی اور گوشت تک شامل ہے درآمد کرتے ہیں۔ موجودہ مالی سال کے پہلے چھے مہینوں میں تجارتی خسارے میں 100 فی صد اضافے کی وجہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا دو گنا سے بھی زیادہ شرح سے بڑھنا ہے۔ ان چھے مہینوں میں اگر برآمدات میں 25 فی صد اضافہ ہوا تو اس کے مقابلے میں درآمدات میں ہونے والا اضافہ 63 فی صد رہا۔ پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے درکار سرمایہ کاری کی فراہمی میں کمی ہے۔ ہماری سرمایہ کاری کی شرح بتدریج کم ہوتی گئی جو کاروباری سطح پر خاص نہیں لیکن طویل مدتی شرح نمو پر اثر انداز ہوئی۔ مشرف دور میں سرمایہ کی شرح 20 فی صد تک پہنچ گئی تھی۔ 60ء کی دہائی میں ایوب خان کے دور میں یہ شرح 20 سے 25 فی صد تھی اور اب یہ شرح 15 سے 16 فی صد رہ گئی ہے۔ یہ دو بڑے مسئلے پاکستان میں برآمدات میں کمی اور سرمایہ کاری میں عدم دلچسپی کا باعث بنے۔
افراط زر کا اتار چڑھاؤ میکرو اکنامک غیر یقینی صورتحال کا اشارہ ہے۔ یہ اشارے سرمایہ کاری، خاص طور پر نجی سرمایہ کاری پر منفی اثر ڈالتے پائے گئے ہیں۔ ٹیکس، سرمایہ کاری اور برآمدات کا گٹھ جوڑ معیشت میں ترقی کی مطلوبہ سطح کی ضمانت کے لیے ضروری ہے۔ جیسا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں جی ڈی پی کافی حد تک کم ہوا ہے اور اس طرح ترقی پر منفی اثر پڑا ہے۔ سرمایہ کاری کا فقدان ان بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات میں 10 سال کی مدت میں نمو منفی رہی ہے۔ دیگر وجوہات میں عالمی منڈیوں میں کم رسائی، بنیادی ڈھانچے کی کمی اور تکنیکی ترقی شامل ہیں۔ حکومت کی غیر معقول پالیسیوں اور صنعت کو پیش کی جانے والی پیچیدہ مراعات کی وجہ سے برآمدات بھی معذور ہیں۔ ایشیائی ممالک نے اعلیٰ بچت اور سرمایہ کاری کی شرحوں کے ساتھ برآمدات میں ترقی کی حکمت عملیوں پر عمل کرتے ہوئے، ترقی کے شعبوں میں مہارت حاصل کرکے، اور تیزی سے صنعت کاری کے نتیجے میں ترقی حاصل کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے برآمدات کیسے بڑھا سکتا ہے؟ پاکستان کو کم سے کم انفرا اسٹرکچر اور سرمایہ کاری کی ضرورت والی برآمدی خدمات اور مصنوعات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، سافٹ ویئر اور آئی ٹی حل کے لیے عالمی سطح پر مانگ بڑھ رہی ہے۔ مینوفیکچرنگ یونٹ قائم کرنے کے بجائے سافٹ ویئر ہاؤس قائم کرنا آسان ہے۔ تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ عالمی سافٹ ویئر انجینئرنگ مارکیٹ 2016 – 2022 کے درمیان 11.72فی صد اضافہ ہوا ہے۔ سافٹ ویئر مارکیٹ کی بھرپور ترقی کو مختلف صنعتوں کی طرف سے ان کے پروگرام مینوفیکچرنگ کے عمل اور ڈیزائن کے معیار کو بڑھانے کے لیے آٹومیشن کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنا ہوگا۔ مالی سال 2020-21 کی پہلی سہ ماہی کے دوران پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 44 فی صد بڑھ کر 379 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئیں، اور اس میں مزید اضافہ اور سافٹ ویئر کی برآمدات کو بڑھانے کے راستے تلاش کرنے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ مالی سال 2020 میں ہندوستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی 7.7 فی صد بڑھ کر USD 191 بلین ہو جائیں گی، جس کی برآمدات 147 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، حکومت کی جانب سے کم سے کم کوششوں اور تعاون سے، پاکستان کا آئی ٹی سیکٹر سالانہ 1 بلین امریکی ڈالر کا حصہ ڈال سکتا ہے۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کو اس تیزی سے بدلتی ہوئی حقیقت کو نوٹ کرنا چاہیے اور مصنوعی ذہانت اور بڑے ڈیٹا سے فائدہ اْٹھانا چاہیے۔ برآمدات تحفظ پسند رجحانات کا شکار ہیں جو عالمی منڈیوں کے بجائے مقامی مارکیٹ کے لیے پیداوار کی ترغیب دیتی ہیں۔ صنعتوں کو اپنی پیداوار کو کم قیمت سے زیادہ قیمت والی مصنوعات کی طرف منتقل کرنے کے لیے مراعات فراہم کرنے کے لیے مثالی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، ایم ایم ایف اور کپاس کا عالمی تناسب 70:30 ہے، جب کہ حکومت کی جانب سے ترجیح یا ترغیب نہ دینے کی وجہ سے پاکستان کا مرکب تناسب 30:70 ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اصلاحات برآمد صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کریں گی۔ برآمدات کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم اقدام درآمدی پابندیوں کو کم کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، پولیسٹر اسٹیپل فائبر پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی خام مال کی قیمت میں اضافے سے صنعت کو نقصان پہنچائے گی، جس سے برآمدات غیر مسابقتی ہوں گی۔
ایس ایم ایز کو بااختیار بنانا پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ پاکستانی معیشت تقریباً 3.3 ملین چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سروس فراہم کرنے والے، مینوفیکچرنگ یونٹس اور اسٹارٹ اپ شامل ہو سکتے ہیں۔ ایس ایم ایز پاکستان کی جی ڈی پی کا 30فی صد اور تقریباً 25فی صد برآمدات پر مشتمل ہیں۔ ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو SMEs کو بااختیار بنائیں اور انہیں ان کی حقیقی صلاحیت تک پہنچنے کی اجازت دیں۔ فنانس تک رسائی، آسانی سے دستیاب رعایتی کریڈٹ، قرضوں پر صفر شرح سود، مشینری کی خریداری/درآمد کے لیے مہارت کی تربیت/ترقی کے پروگرام SME کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک معقول نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔ پبلک پروکیورمنٹ ممکنہ طور پر حکومت کی سپلائی چینز میں ایس ایم ایز کو یقینی بنا کر شاندار معاشی اور سماجی فوائد حاصل کر سکتی ہے۔ فوائد ہنر مندی ملازمتوں کی تخلیق، گھریلو ٹیکس آمدنی میں اضافہ، زیادہ مضبوط گھریلو اقتصادی ترقی تک۔ اچھی طرح سے ڈیزائن کی گئی پبلک پروکیورمنٹ پالیسیوں میں تکنیکی ترقی، تجارتی مارجن میں اضافہ اور مجموعی پیداواریت کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم معیاری ڈیوٹی ڈرا بیک اسکیموں کو اس طرح بہتر بنا سکتے ہیں: (ا) انہیں بالواسطہ برآمد کنندگان کے لیے بھی قابل رسائی بنانا (ب) کریڈٹ کی ضروریات کو کم کرنے کے لیے برآمد کرنے والی فرموں کے لیے ڈیوٹی کی قبل از ادائیگی کو ختم کرنا۔ حکومت برآمدات سے متعلق ضابطے کو آسان بنائے۔ بوجھل بیوروکریٹک طریقہ کار نئے برآمد کنندگان کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، حکومتوں کو غیر ملکی منڈیوں اور برآمدات کی ضروریات کے بارے میں معلومات جمع کرنے اور پھیلانے میں بہتری لانی چاہیے۔ ملکی اشیا کی پیداواری صلاحیت اور تکنیکی مواد کو بہتر بنائیں، اور جدت کو فروغ دینے کے لیے مراعات فراہم کریں، پاکستانی مصنوعات کو عالمی سطح پر مسابقتی بنائیں۔ ایسا ہونے کے لیے ہمیں انٹرپرینیور شپ کو پروان چڑھانے پر جامع توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بے روزگاری کی سطح بلند ہے، جس میں بے روزگار آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم یافتہ ہے۔ روزگار کی اس حالت کے ساتھ، پاکستان اقتصادی ترقی کے لیے درکار معاشی منافع حاصل نہیں کر سکتا۔ بہتر معیار کی مصنوعات اور خدمات کے لیے جدت کی حوصلہ افزائی کے لیے پاکستان میں کاروبار کرنے میں آسانی کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ انٹر پرینیور شپ خوشحالی کا ایک اچھا دور پیدا کرتی ہے کیونکہ لوگ نہ صرف خود روزگار حاصل کرتے ہیں اور معاشرے اور معیشت کے لیے قدر پیدا کرتے ہیں بلکہ روزگار کے مواقع کو بھی فروغ دیتے ہیں۔
خدمات کے برآمدات سے متعلقہ مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے وزارت تجارت کے سیل میں ایک سیل قائم کریں پالیسی سازی کے لیے تجارت کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایسی پالیسی تیار کرنے می باہمی طور پر فائدہ مند ہو سکتی ہے مصنوعات کا تنوع، خدمات کے شعبے کو ترجیح دینا، سادہ، سمجھنے میں آسان، اسکیمیں اور مراعات کا نفاذ، مزید برآں، سیل مخصوص مارکیٹوں میں منظم تجارتی مشنز کا اہتمام کرتا ہے جو کاروبار کو خریداروں سے ملنے اور متعلقہ تقریبات میں شرکت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ایکسپورٹ سبسڈیز، جہاں دی جائیں، وصول کنندہ فرموں کی کارکردگی سے منسلک ہونی چاہئیں اور حد عبور کرنے پر خود بخود واپس لے لی جائیں۔ اس کے لیے لین دین کو مکمل طور پر میکانائز کرنے کے لیے فریم ورک تیار کرنے اور ان کی تعیناتی کے لیے ٹیکنالوجی کی ترقی کی ضرورت ہے تاکہ مجموعی افادیت کو بہتر بنایا جا سکے۔ نظام موثر، سب سے اہم، سادہ، جامع اور واضح ہوں گے۔ خام مال کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی/سیل ٹیکس واپس لیں یعنی کاٹن اور پولیسٹر کی صنعت کی کھپت کے لیے سپلائی میں کمی۔ توسیعی ڈیوٹی ڈرا بیک اسکیم ڈیوٹی ڈرا بیک اسکیم کو 5 سال کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ مواد کا استعمال کرتے ہوئے برآمدات کے لیے بڑھانا اور گارمنٹس اور میک اپس کے لیے خامیوں میں بتدریج اضافے کے لیے سابقہ ڈیوٹی ڈرا بیک اسکیم کو بحال کرنا۔ فاسٹ ٹریک ٹیکسٹائل پارکس کو قائم کرنا ہوگا۔ انٹیگریٹڈ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کے پارکس کا فاسٹ ٹریک قیام مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پلگ اینڈ پلے کی سہولتوں کو فعال کرنا۔ مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ پالیسی مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کی پالیسی کو برقرار رکھنے کے لیے۔ ٹیکسٹائل کی برآمدات کو دوگنا کرنے کے قابل بنانے والے بند صلاحیتوں کی بحالی بڑی اور معروف ٹیکسٹائل کمپنیوں کے ذریعہ، وبائی امراض اور کیش فلو کے مسائل کی وجہ سے بند، غیر آپریشنل/بیمار یونٹس کے حصول کے لیے 300 ڈالر ملین کی رعایتی فنانسنگ اسکیم۔ معمولی ترمیم اور اپ گریڈیشن کے ساتھ پھل نئے اور موسمی انتظام کے تحت، دوبارہ پیداوار کے لیے پٹری پر لایا جا سکتا ہے اور معیشت میں سالانہ 1.00 بلین ڈالر کی برآمدات میں حصہ ڈالتا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی کا انحصار اس کی برآمدات پر ہے جس سے درآمدات کی مالی اعانت، خدمات کے قرضے، اپنی کرنسی کو مستحکم کرنے اور کے توازن کے خسارے کے مسلسل مسئلے پر قابو پانے کے لیے غیر ملکی آمدنی حاصل کی جاتی ہے۔ کسی ملک کی برآمدات مارکیٹ کے رجحانات اور معیار کے مطابق ہونی چاہئیں، اور بین الاقوامی طور پر قابل قبول معیارات پر تصدیق شدہ ہونی چاہئیں۔قوم منتظر ہے ایسی باصلاحیت اور صالح قیادت کی جو ملک کو آئی ایم ایف کی غلامی سے چھٹکارا دلا دے جس سے وطن عزیز معاشی ترقی کے راستے پر گامزن ہو۔